’’ مسلم نوجوان اور اعلیٰ عہدے ‘‘

سید محمد افتخار مشرف
آزادی کے بعد سے اگر ہم مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی حالت کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ مسلمان کس تیزی کے ساتھ تعلیمی اور معاشی پسماندگی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ اس کا ثبوت سچر کمیٹی رپورٹ، رنگناتھ مشرا کی رپورٹ اور خود ہماری ریاست تلنگانہ میں سدھیر کمیشن کی رپورٹ موجود ہیں۔1952 ء سے لگاتار لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی آواز آبادی کے تناسب سے نہیں پہنچتی ہے جس کی وجہ شاید ہمارے تناسب والے انتخابی حلقے شیڈولڈ کاسٹ کیلئے محفوظ زمرہ میں ہیں۔ آزادی کے بعد سے جانبدارانہ ماحول پیدا ہوگیا، زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کو نظرانداز کیا گیا اور مسلمانوں کی نمائندگی زندگی کے مختلف شعبوں میں صفر ہوگئی کیونکہ مسلمان تعلیم کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکے اور افراتفری کے عالم میں گھِر گئے، تعلیم حاصل نہیں کرسکے اسی لئے مسلمانوں کی زندگی مختلف شعبوں میں کمزور ہوگئی ہے۔ ابھی بھی تعلیم تعلیم کی اہمیت کو سمجھت نہیں رہے ہیں۔ مسلم نوجوان غیر ضروری لغویات میں مشغول ہیں اور اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ غلط صحبت، بری عادتیں، ہیروگیری اور دیگر مشغولیات میں گنوادیتے ہیں۔ تعلیم کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے اور جو نوجوان بغیر دلچسپی کے تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ بیاک لاگ کے چکر میں اپنی توانائی صرف کرتے رہتے ہیں اور روزگار حاصل کرنے کیلئے مسابقتی امتحانات میں شرکت کے قابل نہیں رہتے ۔ آج کا دور مسابقتی دور ہے ہر جگہ مسابقت ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ریلوے میں ہیلپر اور دوسرے تکنیکی شعبوں میں 9 ہزار جائیدادوں پر تقررات کا اعلان ہوا، ان 9 ہزار جائیدادوں کیلئے تقریباً ڈھائی کروڑ درخواستیں داخل کی گئیں۔ صرف میٹرک اور آئی ٹی آئی کامیاب امیدواروں میں کتنی مسابقت ہے۔ اگر مسلم نوجوان اپنی تعلیمی صلاحیت کے ساتھ اچھے تناسب پر توجہ دیں اور پوری ایمانداری، لگن، جستجو، سخت محنت کے ساتھ مسابقتی امتحانات کی تیاری نہ کریں تو وہ کبھی بھی اپنے مقصد کو نہیں پاسکتے۔ اگر مسلم نوجوان اپنے آپ کو اعلیٰ عہدے حاصل کرنے کے قابل نہیں بنائیں گے وہ اعلیٰ عہدے کیسے حاصل کریں گے۔ اکثر مسلم نوجوان یہ سوچتے ہیں کہ بٹن دباتے ہی لائٹ پڑ جائے یعنی بغیر محنت کرے ان کو اچھی ملازمت مل جائے کیونکہ ان سے محنت نہیں ہوتی، کیا یہ ممکن ہے؟ جو اس کیلئے پلاننگ ڈسپلن، مسابقتی امتحانات کی تیاری بہت پہلے سے شروع کرنی چاہیئے۔ ان کا ایک مقصد ہونا چاہیئے کہ وہ کس شعبہ میں اپنا کیریئر بنانا چاہتے ہیں۔ بس اسی کے حساب سے سخت محنت کے ساتھ تیاری ہونی چاہیئے تب ہی وہ اپنے مقصد کو پائیں گے۔

سیول سرویس کے لئے تلنگانہ کے مسلم ذہین طالب علموں میں بہت کم دلچسپی دیکھی گئی۔ بہت برسوں بعد صرف ایک مسلم نوجوان جناب مزمل خاں آئی اے ایس بن گئے جو جناب اے کے خاں صاحب ( آئی پی ایس ) کے فرزند ہیں، اُن کی تین پُشتیں سیول سرویس سے وابستہ ہیں۔ جناب عبدالکریم خاں صاحب ( آئی اے ایس ) مرحوم ، جناب اے کے خاں صاحب ( آئی پی ایس ) کے والد ہیں جبکہ جناب اے کے خاں صاحب ( آئی پی ایس ) ہیں اور ان کے فرزند جناب مزمل خاں آئے اے ایس ہوچکے ہیں۔

جناب تفسیر اقبال ( آئی پی ایس ) جو اب ضلع کھمم کے ایس پی ہیں نے ایک ملاقات میں ہمیں بتایا کہ وہ چھٹویں جماعت سے سیول سرویس کی تیاری شروع کردیئے تھے۔ اگر ہمارے ملک میں مسلمانوں کا تناسب 14.2 فیصد ہے تو اعلیٰ عہدوں اور دیگر سرکاری ملازمتوں میں بھی مسلمانوں کا تناسب 14.2 فیصد ہونا چاہیئے مگر افسوس کہ یہ تناسب 2.5 فیصد سے بھی کم ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں کا فیصد سیول سرویس کے امتحان میں حصہ لینے والوں کا 1فیصد سے بھی بہت کم ہے۔ جامعہ ہمدرد ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ہدایت جئے پور، حج کمیٹی آف انڈیا، مکہ مسجد چینائی، کنسرن فار پیپل پونے، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے علاوہ حکومت تلنگانہ محکمہ اقلیتی بہبود وغیرہ کی کوشش کے باوجود سارے ملک سے سالانہ صرف 30 یا 32 مسلم نوجوانوں کو ہی سیول سرویس میں بھیج پاتے ہیں۔ جبکہ ہر سال تقریباً 1100 نوجوان سیول سرویس کیلئے سلیکٹ ہوتے ہیں۔ اگر ان ملی اداروں نے کوشش نہ کی ہوتی تو کامیاب مسلمانوں کی سالانہ تعداد مزید گر گئی ہوتی۔ تھوڑے بہت مسلم نوجوان سیول سرویس کے امتحان میں بیٹھتے ہیں ان کی تیاری کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ مالی تنگی کی وجہ سے ملک کے کامیاب ترین خانگی پیشہ ورانہ انسٹی ٹیوٹس میں کوچنگ نہیں لے پاتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان میں سے کامیاب ہونے والے مسلم نوجوانوں کی تعداد صفر سے کچھ ہی اوپر ہوتی ہے۔ باقی10% امیدوار ہی کامیاب ترین انسٹی ٹیوٹس میں کوچنگ لے پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے کامیاب ہونے والے افراد کی تعداد صفر سے کچھ اوپر ہوتی ہے۔ ان خانگی اداروں میں کوچنگ لینے والے مسلم نوجوان ہی کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ملک بھر میں ان خانگی اداروں میں کوچنگ کیلئے سالانہ خرچ تقریباً دو کروڑ روپئے ہوتا ہے جو انفرادی مالی استطاعت رکھنے والے چند اور اداروں سے اسپانسر ہونے والے زیادہ تر امیدوار شامل ہوتے ہیں۔
یہ طئے ہے کہ ملک کے نظم و نسق کے اہم شعبوں بلکہ ہر شعبہ میں فائیلوں پر نوٹ لکھ کر شروعات کرنا اور فائیلوں پر آخری فیصلہ کرنا 95 فیصد تک سرکاری افسروں کا کام ہوتا ہے۔ جو ادارے و تنظیمیں اس ملی ، فلاحی مہم میں لگی ہوئی ہیں ان کو ایک دوسرے سے مستقل طور پر صنعتی و تکمیلی تعاون کرنا چاہیئے یہ لوگ کم سے کم سال میں 2 یا 3 مرتبہ مل کر مبادلہ اطلاع و گفت و شنید کرلیا کریں، ساتھ ہی ملک کے دیگر اہم بصیرت و عمل اور اہل استطاعت اداروں، تنظیموں سے بھی ربط میں رہیں اور ایک منظم طریقہ سے ملت کے نوجوانوں کو سیول سرویس کیلئے تیار کریں تاکہ مسلم معاشرہ تاریکی سے روشنی میں بدل جائے۔ مسلم ذہین نوجوانوں کو سرکاری اعلیٰ عہدوں پر بٹھانے کیلئے بڑے پیمانے پر ادارہ ساز اقدام کریں۔ مسلم ذہین نوجوان اگر اپنی سخت محنت کے ذریعہ سول سرویس سے آئی اے ایس، آئی پی ایس یا دیگر اہم سرویس میں کامیاب ہوکر ملک کے نظم و نسق کے اہم عہدوں پر فائز ہوکر ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کرسکتے ہیں۔ اس سے ملک ہمہ جہت انداز سے فروغ پائے گا۔