مسلم معاشرہ کیلئے حیات بخش راہیں تلاش کون کرے گا ؟

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
نئی ریاست تلنگانہ اور آندھراپردیش میں دُکھی انسانوں کو تلاش کرنے والی نگاہیں اور فلاحی کام انجام دینے والی تنظیمیں کتنی ہوں گی اور ان کی کارکردگی خاموشی سے کتنے انسانوں کو راحت پہنچا رہی ہے، یہ ایک طویل فہرست ہے۔ رمضان المبارک کے موقع پر بعض تنظیموں نے غریبوں، مسکینوں، محتاجوں و مستحقین کی فہرست تیار کرکے ان میں رمضان راشن کٹس اور دیگر اشیاء کی سربراہی کو یقینی بناکر دُکھی انسانوں کی مدد کا اہم فریضہ پورا کیا اور یہ عمل جاری ہے۔ دواخانوں میں زیرعلاج غریب مریض ہوں یا ان کے افراد خاندان ان کی اپنی ایک الگ سانحاتی زندگی ہوتی ہے۔ غریبوں، مسکینوں یا مریضوں کیلئے دنیا کی سب سے اچھی دوا ان سے محبت اور توجہ ہے۔ معروف حکیم لقمان بھی یہی کہتے ہیں کہ دُکھی انسان کیلئے سب سے اثرانداز دوا ’’محبت اور توجہ‘‘ ہے۔ حکومت کی سطح پر غریبوں کی امداد کے کاموں میں آروگیہ شری کے ذریعہ علاج سے کئی غریب خاندانوں کو راحت ملی تھی۔ اب تلنگانہ کی نئی حکومت نے بھی اس اسکیم کو دیہی علاقوں کے چھوٹے چھوٹے دواخانوں تک وسعت دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔

اس اقدام کے ساتھ ریاست کے دوردراز والے علاقوں میں غریبوں کو قابل دسترس اور قابل رسائی علاج معالجہ حاصل ہوگا۔ حکومت نے دیہی علاقوں میں 25 بستروں والے دواخانوں تک آروگیہ شری اسکیم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے آروگیہ شری اسکیم کے تحت صرف 50 بستروں والے دواخانوں یا اس سے زائد بستر والے دواخانوں میں علاج کیا جاتا تھا ۔ اسکیم کے تحت پہلے 9.38 مختلف امراض کا علاج ہوتا تھا۔ اب اس میں 100 سے زائد امراض تک وسعت دی گئی ہے۔ ان میں ڈینگو اور ملیریا جیسے موسمی امراض کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ جو کام سرکاری سطح پر نہیں ہوتا یاغریبوں کو سرکاری علاج سے افاقہ نہیں ہوتا، ان مریضوں کیلئے خانگی چیاریٹبل ادارہ کام کررہے ہیں۔ روزنامہ ’سیاست‘ کے ملت فنڈ سے بھی کئی ضرورت مندوں کو راحت فراہم کی جاتی رہی ہے۔ فلاحی اداروں کے ارکان یا خانگی و ذاتی طور پر غریبوں کی مدد کرنے والے افراد کو اندازہ ہے کہ دواخانوں میں زیرعلاج غریبوں کے مسائل کیا ہوتے ہیں، ان کے لواحقین پر کیا گذرتی ہے۔

اس لئے کئی فلاحی ادارے غریبوں میں دواؤں کی سربراہی یا امداد دیتے ہیں۔سرکاری دواخانوں میں مفت کھانے کا انتظام، میوہ جات کی تقسیم کا کام رضاکارانہ طور پر انجام دیئے جاتے ہیں۔ دُکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنا ہی ایک بڑا ثواب جاریہ ہے اور صدقہ بھی کہا جاتا ہے۔ دوسروں کے لئے خوشی ڈھونڈ لینے والے اپنے لئے بھی خوشی حاصل کرلیتے ہیں۔ رمضان المبارک میں زکوٰۃ، صدقات اور فطرہ کے بارے میں مسلمانوں کو ہزارہا تلقین کرنے والے علماء و اکابرین اپنے مقاصد میں اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب مسلمانوں کی کثیر تعداد اس دینی فریضہ کی تکمیل کے دوران مستحقین اور مسکینوں کی درست نشاندہی کریں۔ ان دنوں غرباء و مساکین کی نشاندہی ایک مشکل امر بنتا جارہا ہے کیونکہ بھیک مانگنے والوں کی بڑھتی تعداد میں ایسے لوگ بھی شامل ہوتے جارہے ہیں جو قطعی بھیک لینے کے مستحق نہیں ہیں۔ مگر مسلم معاشرہ میں ایک رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے وہ یہ ہے کہ تندرست و توانا افراد بھی بھیک کے سہارے اپنی زندگیاں گذارنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

شہر کے ہر ٹریفک سگنل ہو یا مساجد، فٹ پاتھ ہوں یا گلی کوچے، ٹھیلہ بنڈیوں کے قریب ہوں یا مندروں کے آس پاس برقعہ پوش خواتین کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا جارہا ہے اور یہ رجحان معیوب حد تک بڑھ رہا ہے۔ مسلم افراد، خیرخواہ انسان ان کی مدد کرتے ہیں۔ خیرات کرنے میں کوئی برائی نہیں مگر اس سے سماجی سطح پر معیوب رجحان کو فروغ حاصل ہورہا ہے جو غریبی کا ڈھونگ کرکے بھیک مانگتے ہیں لیکن ان کی زندگیوں میں آرام ہی آرام ہوتا ہے۔ ان کے افراد خاندان کو کام کرنے سے چڑ ہوتی ہے۔ گھروں میں کلر ٹی وی، ہوٹلوں کی بریانی اور گٹکھے و پانوں سے روزانہ کی زندگی بسر ہوتی ہے تو دوسری طرف مستحقین اور مساکین اپنے حصہ کی خیرات سے محروم ہوجاتے ہیں۔ فقیروں کی تعداد بڑھانے کے قصوروار مسلم معاشرہ یا انسانی زندگی کے وہ لوگ ہیں جو اپنے لئے نیکی حاصل کرنے یا ضرورتمندوں کی مدد کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ شہر میں ایک گداگر کی روزانہ خیرات پر ملنے والی رقم 300 تا 600 ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ جن دوکانداروں کو چلر کی ضرورت ہوتی ہے وہ اپنی ضرورت ان ہی فقیروں کے پاس موجود ریزگاری سے پوری کرلیتے ہیں۔ فقیروں کے پاس جمع ریزگاری لے کر انہیں بڑی نوٹ دیتے ہیں۔ ہر فقیر اپنی دن بھر کی خیرات کی رقم سکوں کی شکل میں 300 تا 600 روپئے حاصل کرتا ہے تو نوٹوں کی شکل میں ملنے والی خیرات کا کوئی اندازہ نہیں۔ غیرمسلم گداگروں کی تعداد بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ شہر میں جگہ جگہ مسلم یا برقعہ پوش ہی نظر آئیں گے۔

گنے چنے غیرمسلم گداگر ہوں تو بھی ان کی گشت کے ٹھکانے مخصوص ہوتے ہیں جو بھیڑبھاڑ والے مقامات سے دور ہیں۔ ہر جگہ مسلم گداگری کو دیکھ کر معاشرہ میں ایک غلط تاثر یہ ملتا ہیکہ مسلم طبقہ کے زیادہ سے زیادہ ارکان غربت کا شکار ہیں حالانکہ ان گداگروں کی حوصلہ افزائی کرنے والوں میں ہم ہی شامل ہیں، ایک طرح سے ان کی عادت خراب ہورہی ہے اور مسلمانوں کے اندر اگر ایک گروپ مانگنے اور خیرات پر زندگی گذارنے کا عادی ہونے لگے تو آگے چل کر مسلم معاشرہ میں ورک فورس کم ہوجائے گا۔ آج بھی کئی دوکانداروں، مکینوں کو خادماؤں، نوکروں اور خدمت گاروں کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ غریبوں کی آرام طلبی یا گداگری کی عادت میں اضافہ ہے۔ اگر خیرات و امداد کے خواہاں شہریوں میں موجودہ معاشرہ کی خرابیوں کا اندازہ ہوجائے تو وہ اپنی محنت کی کمائی کا صدقہ یا خیرات کا صحیح درست استعمال مسکینوں کیلئے کرتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ مسکینوں ضرورتمندوں کی نشاندہی کیسے ہو۔ اس کے لئے کئی فلاحی اداروں کو ہی آگے آنا ہوگا۔ مسلمانوں میں غربت کم اور دور کرنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ایک طریقہ یہ بھی ہے جو بہتر ثابت ہوسکتا ہے کہ خیرات یوں ہی تقسیم کرنے سے پہلے اسے اجتماعی طور پر ایک جگہ جمع کرکے فلاحی کام انجام دیئے جائیں اور سب سے خاص توجہ معیشت پر ہونی چاہیئے۔

جگہ جگہ گداگری کے مظاہروں کے سدباب کا واحد طریقہ ہرکس و ناکس کو خیرات دینے سے گریز کرنا ہوگا۔ مگر یہ کس حد تک ممکن ہے یہ غور کرنا ہر فرد اور صدقہ و خیرات کے خواہاں افراد کا کام ہے کہ آیا ان کے اس نیک عمل سے کسی کو راحت مل رہی ہے یا غلط رجحان پیدا ہورہا ہے۔ ان کا یہ عمل کہیں مسلم معاشرہ کی عام شبیہ کو بگاڑنے کا سبب تو نہیں بن رہا ہے۔ آج مسلم معاشرہ کی پسماندگی کے حوالہ سے حکومت سے کئی توقعات وابستہ کرلی گئی ہیں جبکہ مسلم معاشرہ کے خیر خواہ حضرات کی اکثریت اتنی ہے کہ وہ اگر چاہیں تو اپنے معاشرہ کو پسماندگی کی کھائی سے نکال سکتے ہیں۔ حکومت پر تکیہ کرنے کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہمارے بچے ترقی کے میدان میں رینگ رہے ہیں۔ تعلیم کے شعبوں میں تحفظات کا انتظار کرکے مستقبل پر تالا لگاچکے ہیں۔ تلنگانہ کی نئی حکومت نے 12فیصد تحفظات دینے کا وعدہ کیا تھا مگر یہ کس طرح ممکن ہوگا۔ کابینہ میں 12فیصد تحفظات دینے کیلئے کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ کمیٹی قانونی باریکیوں کا جائزہ لینے کے بعد مسلمانوںکو 12فیصد تحفظات دینے یا نہ دینے کی رپورٹ پیش کرے گی۔ اس وقت تک حکومت کے پانچ سال نکل جائیں گے، پھر نئی حکومت آئے گی اور اس کی اپنی اقلیتوں کیلئے الگ پالیسی ہوگی۔ گذشتہ 60سال سے یہی کچھ ہوتا آرہا ہے اور مسلم طبقہ انہی بھول بھلیوں کا شکار بن کر اپنی نسلوں کو سڑکوں پر بھیک مانگنے کی نذر کرنے کی غفلت میں مبتلاء ہے۔

بہرحال رمضان میں خیرات کرنے والوں اور خیرات لینے والوں کے درمیان نیکیاں کس کو حاصل ہوئیں اور مسلم معاشرہ کو کیا ملا ، یہ سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد نے جہاں حلیم کھانے پر کروڑہا روپئے خرچ کرلی ہے وہیں معاشرہ میں پائی جانے والی خرابی کو فروغ دیا ہے۔ دولت مندوں، سرمایہ داروں، مذہبی اجارہ داروں، نو دولتیوں، فراڈ کرنے والوں، مڈل کلاسیوں، سیاسی اُٹھائی گیروں سے آراستہ مسلم معاشرہ میں پیدا ہونے والی خرابیاں عام اور سادہ لوح مسلمانوں کو دھیرے دھیرے زندہ دفن کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ اس معاشرہ نے ذہنی بربادی میں اتنی زندگیاں گذاردی ہیں کہ اب سدھار لانے کی فکر کرنے کی ہمت کون کرے گا۔؟ یہ سب بھول جاؤ، آگے چلو یا سب چلتا ہے پر ہی اٹکے رہیں تو پھر مسلمان اپنے لئے، آنے والی نسل کیلئے حیات بخش راہیں تلاش نہیں کرسکیں گے۔
kbaig92@gmail.com