مسلم رائے دہندوں میں احساس فرض کا مظاہرہ ضروری

اے پی ڈائری خیراللہ بیگ

آندھرا پردیش میں تلنگانہ اور سیما آندھرا کے قائدین کے درمیان سیاسی تنازعات اور طویل جد وجہد کے بعد عام انتحابات و اسمبلی کے لئے ہونے والی رائے دہی سیاسی افق پہ طاری اک بدترین طویل سیاسی جمود کو ختم کردے گی ۔ تلنگانہ میں معلق اسمبلی وجود میں آتی ہے تو یہ نئی ریاست کے لئے بدشگونی ہوگی ۔ آئندہ چند ہفتوں میں ملک کے نقشہ پر نمودار ہونے والی 29 ویں ریاست تلنگانہ کے اندر ابھی سے بعض پارٹیوں نے اپنا فرقہ وارانہ چہرہ دکھانا شروع کردیا ہے ۔ اس سے نئی ریاست کو ناقابل تلافی نقصان اور لاتعداد بحرانوں سے دوچار کیا جاسکتا ہے ۔

بی جے پی سے ہاتھ ملانے والی پارٹیاں تلنگانہ میں فرقہ پرستی کا زہر پھیلا کر فرقہ پرست ٹولے کو مضبوط بنائیں تو پھر یہاں کے مسلمانوں کو تلنگانہ کے حق میں جدوجہد کرنے کا خمیازہ بھگتنے کے لئے تیار رہنا پڑے گا یا پھر ہوش سے کام لے کر اپنا ایک مضبوط سیاسی قلعہ بنانے کی جانب قدم اٹھائیں تو فرقہ پرستوں کے حوصلوں کو کمزور کرنے میں مدد ملے گی ۔ تلنگانہ حاصل کرنے کے لئے سجائے گئے اسٹیج پر مسلمانوں کو بھروسہ اور یقین دلانے والی پارٹیوں میں سب سے آگے ٹی آر ایس تھی اب اس کے سربراہ چندر شیکھر راؤ نے مسلمانوں کو اسمبلی میں نمائندگی دینے کے لئے 5 سال تک انتظار کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔ یہ مشورہ شاید اس لئے ہے کہ انھیں بھی شبہ ہے کہ وہ اسمبلی انتخابات میں اپنے قدم مضبوطی سے جماسکیں گے یا نہیں کیوں کہ تلنگانہ بنانے کا وعدہ کرکے کانگریس نے اپنے علاقائی قائدین کے سیاسی حوصلوں کو تقویت پہونچائی ہے ۔ انتخابات میں ہر پارٹی اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گی تو مسلمانوں کے ووٹ ان کے لئے اہم ہوں گے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم رائے دہندہ مختلف پارٹیوں میں منقسم ہے جس کی وجہ سے کسی ایک پارٹی کے موقف کو مضبوطی حاصل نہیں ہوسکتی ۔ مسلم رائے دہندوں کو متحد کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انتخابی میدان میں مسلمانوں کو اپنا ہی لیڈر اتارنا چاہئے ۔ علاقائی سطح پر میرٹ کی اساس پر کامیابی کے روشن امکانات رکھنے والے مسلم لیڈر کو امیدوار بنا کر اس کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے تمام مسلمان متحدہ کوشش کریں تو بلاشبہ تلنگانہ میں مسلم سیاستدانوں کی نمایاں اکثریت منتخب ہو کر ایوان اسمبلی میں مضبوط نمائندگی کرسکے گی ۔

مگر اس وقت مسلمانوں کے ووٹ بٹ چکے ہیں کچھ نے کانگریس کو اپنی پارٹی سمجھ لیا ہے تو کسی نے ٹی آر ایس کو اور کسی نے وائی ایس آر ، تلگو دیشم کسی کو مجلس اور کہیں بی جے پی کا ساتھ دینے والے مسلم رائے دہندے بھی ہیں ایسے میں مسلمانوں کی رائے منقسم ہو کر کمزور ہوجاتی ہے ۔ ایک کمزور رائے کا حامل طبقہ ہمیشہ سماج میں ڈرایا دھمکایا جانے کے حربہ کا شکار بنتا ہے ۔ ریاست تلنگانہ ہی نہیں ملک کے کسی بھی علاقہ کا جائزہ لیں تو یہی حال ہے کہ مسلم رائے دہندہ منقسم ہے ۔ ہوتا تو یہ چاہئے کہ مسلمان اپنی سماجی اور سیاسی زندگی کا از سر نو جائزہ لے کر ایک مضبوط تنظیم اور گروپ بناتے ہوئے ایسے امیدوار کو کامیاب بنانے کو یقینی بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں جو ان کے ہی درمیان کا ہونہار میرٹ رکھنے والے لیڈر ہو ۔ بدنصیبی یہ ہے کہ مسلمانوں میں اپنے ہی درمیان موجودہ اچھے لیڈروںکو موقع دینے اور اس کے ہاتھ مضبوط کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔

کوئی حکمران پارٹی کیساتھ ہے تو کوئی اپوزیشن کی طرفداری کرتا ہے ، کوئی کسی دوسری پارٹی کو عزیز رکھتاہے اس سے مسلمانوں کا مرکزی تصور فوت ہوتا ہے ۔ ایک اور بدنصیبی یہ ہے کہ جن قائدین کو مرکزی موقف عطا کیا جاتا ہے وہ بھی حکمران پارٹی کے لئے بکاؤ بن جاتے ہیں جب مسلم نمائندہ بکاؤ بن جائے تو وہ اپنے رائے دہندوں کے لئے کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتا ۔ بس اسے صرف اپنے بینک بیلنس ، جائیدادوں اور دولت کی فکر رہتی ہے ۔ حیدرآباد میں جن قائدین کو مسلمانوں نے مرکزیت عطا کی آج وہ بلاشبہ طاقتور مرکز میں تبدیل ہوگئی ہے اور یہ طاقت صرف ان کی ذاتی ملکیت بن چکی ہے حالانکہ اس میں تمام رائے دہندوں کا حصہ ہے مگر اس مرکزیت سے صرف ایک خاندان کے افرادہی متصرف ہیں یا پھر وہ لوگ مزے کررہے ہیں جو مرکزیت کی چوکھٹ پر سجدہ کرتے ہیں ۔

شہر حیدرآباد کے تقریباً دولت مندوں ، تاجروں ، ٹھیلہ کے کاروباریوں یا فٹ پاتھ کے ٹھیلہ بنڈیوں کا حال افسوسناک ہے کیوں کہ یہ لوگ انتخابات کے وقت مجبوری کا اظہار کرکے صرف اس مرکزیت کی حامل نام نہاد مسلم نمائندگی کو ووٹ دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں مسائل کا انبار ہر سال بڑھتا رہتا ہے ۔ ادھر عوام کے مسائل کا انبار پہاڑ کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے تو ادھر ان کے لیڈروں کی دولت ، اثاثوں اور عمارتوںکا جال پھیلتا جارہا ہے ۔ جو رائے دہندہ ووٹ دے کر برسوں سے اس چند ٹکے کی نوکری اور چند روپے کے کاروبار میں مصروف ہیں ان کے ووٹ حاصل کرنے والے دن دگنی دولت کے ڈھیر کو سہ گنا، چار گنا بلکہ کئی گنا اضافہ کرتے ہوئے گناہوں کے پہاڑ اپنے اطراف کھڑے کرچکے ہیں ۔ آنے والے انتخابات میں ان کے سامنے ایسی پارٹیاں بھی ہیں جنہوں نے کھلے عام کہہ دیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے حصہ کی نمائندگی کے لئے انتظار کرنا پڑے گا تو یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ مسلمان اب اپنا الگ سیاسی موقف مضبوط کرلیں ۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ مسلم رائے ہندہ متحد ہوجائیں کیوں کہ نریندر مودی کی مقبولیت کی لہر پر اڑتے ہوئے بی جے پی نے تلنگانہ میں اپنے قدم مضبوط بنانے کا قوی منصوبہ بنایا ہے ۔ حیدرآباد میں بی جے پی کے قائدین کو اپنی تعداد بڑھانے کی فکر ہورہی ہے ۔ ضلع حیدرآباد میں اسمبلی کے 15 حلقوں میں 10 پر بی جے پی لیڈروں کو کامیاب کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ بی جے پی کو تو مرکزی قیادت پر زور دیاجارہا ہے کہ حیدرآباد کے 10 حلقوں پر بی جے پی لیڈروں کو ٹکٹ دیا جائے جبکہ قومی قیادت کے تلگودیشم سے اتحاد کی صورت میں اپنے لئے کم ہی نشستیں رکھ لینے کا فیصلہ کیا ۔ لوک سبھا حلقہ حیدرآباد و سکندرآباد کے علاوہ اب ملکاجگیری لوک سبھا حلقہ پر بھی بی جے پی کا امیدوار مقابلہ کرنا چاہتا ہے ۔

بی جے پی گریٹر حیدرآباد صدر بی وینکٹ ریڈی نے اس معاملے میں تیزی دکھاتے ہوئے اپنے لیڈروں پر دباؤ ڈالنا شروع کیا ہے کہ حیدرآباد میں بی جے پی کو زیادہ سے زیادہ حلقے ملنا چاہئے ۔ بظاہر حیدرآباد سکندرآباد میں نریندر مودی کی لہر نہیں ہے مگر پارٹی کے قائدین قومی سطح پر مودی کی لہر کا فائدہ اٹھانے ابھی سے فرقہ پرستی کا کارڈ کھیلنا چاہتے ہیں ۔ حیدرآباد میں فی الحال بی جے پی کے صرف ایک امیدوار کشن ریڈی ہیں جو عنبرپیٹ سے نمائندگی کرتے ہیں ۔ اب وہ عنبرپیٹ کے علاوہ مشیرآباد ، خیریت آباد ، سکندرآباد ، صنعت نگر ، سکندرآباد کنٹونمنٹ ، گوشہ محل ، کاروان ، ملک پیٹ اور یاقوت پورہ پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ اگر تلگو دیشم یا ٹی آر ایس سے اتحاد نہیں ہوا تو بی جے پی شہر حیدرآباد کے تمام اسمبلی حلقوں سے مقابلہ کرے گی اور لوک سبھا کے لئے بھی اپنا امیدوار ٹھہرائے گی ۔

تلگودیشم کے ورکرس کو اس بات پر ناراضگی ہے کہ ان کے پارٹی صدر نے خواہ مخواہ بی جے پی سے راہ و رسم بڑھالی ہے اس سے حیدرآباد کے سیکولر رائے دہندوں میں تلگودیشم کے خلاف نفرت پیدا ہورہی ہے ۔ جب کوئی پارٹی ہر انتخابات میں کسی دوسری پارٹی سے اتحاد کرنے پر غور کرے تو یہی کہا جائے گا کہ اس کا اپنا سیاسی موقف مضبوط نہیں ہے ۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب پارٹی ورکرس انتخابات کے بعد اپنے حلقوں کو خیرباد کہہ کر آرام کی نیند سوتے ہیں جو ورکرس ہر وقت اپنے رائے دہندوں کے درمیان ہوتے ہیں ان کو مضبوط سیاسی موقف حاصل ہوتا ہے ۔ تلگو دیشم ہو یا ٹی آر ایس دونوں کو اپنے اپنے طور پر دوسری اتحادی پارٹیوں کا سہارا تلاش کرنا پڑرہا ہے تو یہ حکومت بنانے کے لئے قطعی اکثریت حاصل کرنا مشکل ہے ۔ بی جے پی کی طرف تلگو دیشم کے علاوہ لوک ستہ پارٹی اور پون کلیان کی نئی پارٹی جنا سینا بھی اتحاد کرنے مائل ہے۔

تلنگانہ کو سنہری ریاست بنانے کا نعرہ دینے والی کانگریس کو بھی سیاسی اتحاد کی تلاش ہے لیکن پردیش کانگریس صدر کی حیثیت سے سابق وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی پونالہ لکشمیا کے تقرر کے بعد کانگریس کو یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ پونالہ اپنی قابلیت سے پارٹی کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بنانے کی کوشش کریں گے ۔ پروفیشنل طور پر بی ای ایم ایس انجینئر پونالہ لکشمیا نے امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 15 سال ناسا میں کام کیا تھا ان کو انگریزی ، تلگو اور اردو پر عبور ہے تو وہ تلنگانہ کے ہر رائے دہندہ کو کانگریس کی جانب متوجہ کرانے کی کوشش کریں گے ۔ راہول گاندھی کی پسند سے ہی پونالہ کو صدر پردیش کانگریس بنایا گیا ہے تو وہ حیدرآباد کے بشمول ، تلنگانہ کو اپنی پیشہ ورانہ خوبیوں اور سیاسی تجربہ کی بنیاد پر ایک اچھا شہر اور ترقی والی ریاست بنانے کی سمت ٹھوس کام کریں گے ۔
kbaig92@gmail.com