مسلم دنیا اور دہشت گردی

ترے بندے ٹکے کے بھاؤ میں نیلام ہوتے ہیں
بتا انساں کے جسموں کی لگیں گی بولیاں کب تک
مسلم دنیا اور دہشت گردی
سعودی عرب کے شاہ سلمان نے دہشت گردی کے خلاف جاری کوششوں کو دوگنا کرنے پر زور دیتے ہوئے ساری دنیا کی بڑی طاقتوں سے کہا کہ آج جن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس کی وجوہات کا پتہ چلاکر عالمی دہشت گردی کی بڑھتی شاخوں کو کانٹا جانا چاہئے۔ ترکی جی۔ 20 چوٹی کانفرنس کے موقع پر جمع عالمی قائدین سے شاہ سلمان کی مخاطبت اہمیت کی حامل ہے۔ بحیثیت ایک مسلم حکمراں شاہ سلمان کو کئی اہم قدم اٹھانے ہیں۔ دہشت گردی کی آڑ میں اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے والی طاقتیں سارے عالم اسلام کو نازک حالات سے دوچار کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ اسلام دشمن طاقتوں کا آلہ کار بن کر جو تنظیمیں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں ، ان کا پردہ فاش کرنے کے لئے سعودی عرب کے بشمول تمام عرب اقوام کے ساتھ مسلم دنیا کے سربراہان مملکت کو یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔ ترکی میں منعقدہ چوٹی کانفرنس کی میزبانی کرنے والی حکمرااں پارٹی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی ہے جس نے حالیہ انتخابات میں ترکی کے عوام کا تازہ خط اعتماد حاصل کیا ہے۔ اس کانفرنس سے چند ہفتے قبل ہی ترکی میں بھی دہشت گرد حملے ہوئے ہیں۔ یہ حملے بلاشبہ انسانیت کے دشمنوں کی کارستانی ہیں مگر ان کا خاتمہ کرنے کیلئے عالم اسلام کو اپنے فرائض کی جانب سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی برادری کو ساتھ لے کر مسلمانوں اور اسلام کیخلاف جاری اس طرح کی گھناؤنی سازشوں کو بے نقاب کرنے کیلئے سعودی عرب کے حکمراں اپنا حصہ ادا کرسکتے ہیں مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ ہر واقعہ کے بعد عالمی سطح سے لے کر علاقائی سطح تک صرف اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کو اس مذہب سے مربوط کردیا جاتا ہے، بظاہر عالمی طاقتیں اسلام دشمنی سے متعلق عام رائے کو پس پشت ڈال کر ایسا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کا تعلق اسلام سے ہے۔ اس طرح کے تاثر کا ساری دنیا کے عوام الناس پر منفی اثر پڑتا ہے۔ پیرس میں ہوئے دھماکوں اور حملوں کے بعد سارے یوروپ میں دھاوے کرتے ہوئے مسلمانوں کو خوف زدہ کردیا جارہا ہے۔ امریکہ سے لے کر دیگر مغربی ملکوں میں مسلمانوں کے اندر خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرکے عام مسلم شہریوں کو دیگر اقوام کے سامنے مشکوک بنایا جارہا ہے۔ اس سے نفرت پھیل رہی ہے۔ پیرس حملوں کے بعد اسلام فوبیا تیزی سے پھیلایا جارہا ہے۔ گزشتہ جنوری میں ہفتہ وار اخبار ’’چارلی ہیبڈو‘‘ کے دفتر حملہ کے بعد سے فرانس میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا عمل عام ہوگیا ہے۔ 2015ء کے پہلے نصف حصہ میں زائد از 220 مخالف مسلم حملے ریکارڈ کئے جاچکے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ملکوں میں مسلمانوں کو مشکوک نگاہی سے دیکھا جاتا ہے۔ اسلام دشمنی کے واقعات میں تشدد کرنے کے علاوہ مساجد پر حملے کرنے کے واقعات میں شامل ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جب کبھی ایسے دہشت گرد حملے ہوئے ہیں۔ عالمی قائدین ان حملوں کے لئے مذہبی اصطلاح کا استعمال نہ کریں۔ اگر فرد واحد کی کارستانی کو مذہبی اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے سارے عالم اسلام کو مشکوک بنادیا جائے تو حالات پہلے سے زیادہ ابتر ہوں گے۔ جن ملکوں کو دہشت گرد حملوں کا سامنا ہے، وہ ممالک سب سے زیادہ متاثر ہیں اور اس میں مسلمان اقلیت میں ہوتے ہیں تو یہاں ان مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی جاتی ہے۔ اگرچیکہ حکومت کی سطح پر فرانس کے وزیراعظم نے ایک سے زائد مرتبہ کہا ہے کہ فرانس کی جنگ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے ہے، مسلمانوں سے نہیں لیکن داخلی طور پر مسلمانوں کے خلاف جاری نفرت کی مہم کو روکنے کے لئے سرکاری سطح پر کچھ نہیں کیا جاتا۔ معاشرہ میں نفرت پھیلاکر اچھائی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس میں شک نہیں کہ اس دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر عالمی طاقتوں نے اب تک بیروت، شام، عراق، افغانستان اور دیگر کئی ممالک میں حملے کئے ۔ لاکھوں مسلمانوں کی جانیں لی ہیں مگر ان کارروائیوں کو جائز قرار دے کر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی اپنی حرکتوں کا جائزہ نہیں لیا جاتا۔ ایسے حالات میں سعودی عرب کے بشمول تمام طاقتور مسلم ملکوں کو ایک ایسا لائحہ عمل اور حکمت عملی تیار کرنی چاہئے جس کی مدد سے مسلم دنیا کو نقصان پہونچانے کے لئے سرگرم طاقتوں کو سبق سکھایا جائے، مگر گزشتہ کئی برسوں سے عالم عرب یا عالم اسلام کے خلاف جاری خفیہ مہم کو روکنے کی ہرگز کوشش نہیں کی گئی۔ ترکی میں چوٹی کانفرنس کے دوران شاہ سلمان کا خطاب عالمی برادری کی توجہ اس نازک صورتحال کی جانب مبذول کرانے کے ساتھ مسئلہ کا حل نکالنے کے لئے اپنی حکومت اور مسلم دنیا کے حکمرانوں کو یکجا کرنے کی کوشش پر مبنی ہوتا تو شاید اسلام دشمنی میں حد سے آگے نکلنے والی طاقتوں کو یہ پیام ضرور ملتا کہ اب اسلام کے نام پر مسلمانوں کو نقصان پہونچانے اور خوف زدہ کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔