مسلم حکمرانوں کی یاد

دل ہمارے یادِ عہدِ رفتہ سے خالی نہیں
اپنے شاہوں کو یہ اُمت بھولنے والی نہیں
مسلم حکمرانوں کی یاد
دنیا کی بڑی طاقتوں کے طور پر تسلیم کئے جانے والے ممالک امریکہ اور برطانیہ کے قائدین نے اب یہ اعتراف کرنا شروع کیا ہے کہ اگر عراق کے معزول صدر صدام حسین اور لیبیا کے کرنل معمر قذافی بقید حیات ہوتے تو دنیا کی ایک بہترین مقام کی حیثیت رکھتی۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ری پبلیکن پارٹی کے اعلیٰ امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگر مشرق وسطیٰ کی دو طاقتور شخصیتیں صدام حسین اور معمر قذافی آج بھی اقتدار پر ہوتے تو دنیا میں امن و امان پایا جاتا۔ سوپر پاور ملک امریکہ کے قائدین کو آج کے تشدد پسندانہ حالات میں صدام حسین اور معمر قذافی کی یاد ستا رہی ہے تو یہ محض ان حکمرانوں کی حسن کارکردگی اور آمریت پسندی کی آڑ میں نظم و ضبط پر قابو رکھنے کی صلاحیتیں ہیں۔ یہ بات اب شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ مشرق وسطیٰ خاص کر عالم عرب میں داعش کی بڑھتی سرگرمیوں کی اصل وجہ طاقتور عرب قائدین کی عدم موجودگی ہے۔ شام، یمن اور دیگر ملکوں میں آج جو حالات پیدا ہوئے ہیں، مضبوط قیادت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیر نے 2003ء میں عراق پر حملے کرنے امریکہ کے اتحادی افواج شامل ہونے پر عراقی عوام سے معذرت خواہی کی ہے۔ ان کی یہ معذرت خواہی تاخیر سے ہی سہی مگر اس غلطی کو تسلیم کرلیا گیا ہے کہ عراق جنگ کے لئے مغربی طاقتوں کی کارروائیاں محض شبہ کی بنیاد پر کی گئی تھیں کہ عراق میں وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں جبکہ عراق میں تباہ کن ہتھیاروں کی موجودگی سے متعلق انٹلیجنس کی رپورٹ سراسر حقائق سے بعید تھی۔ صدام حسین کی بے دخلی کی سزا ساری بڑی طاقتوں کو مل رہی ہے۔ اگر صدام حسین برسراقتدار رہتے ہوتے تو مشرق وسطیٰ کی موجودہ کیفیت کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ٹونی بلیر نے داعش کے ابھرنے کی اصل وجہ عراق جنگ ہی بتائی ہے۔ سچائی یہی ہے کہ مغربی طاقتوں کی فوجی کارروائیوں نے داعش جیسی تنظیموں کو ابھرنے کا موقع فراہم کیا۔ بلاشبہ  2003ء میں صدام حسین کو عراق سے جن طاقتوں نے بے دخل کیا تھا، وہی طاقتیں آج 2015ء کے عراق کے حالات کے لئے ذمہ دار ہیں۔ امریکی صدارتی امیدوار ٹرمپ اور سابق وزیراعظم برطانیہ کی یہ ذاتی رائے موجودہ عالمی صورتِ حال کے تناظر میں صدفیصد درست سمجھی جائے تو پھر عالمی عدالتوں کو ان خاطی حکمرانوں کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی رکاوٹ مانع نہیں ہونی چاہئے جنہوں نے عراق اور لیبیا کے علاوہ دیگر ملکوں میں تباہی برپا کی تھی۔ ساری دنیا میں سب سے زیادہ بدامنی کی کیفیت مشرق وسطیٰ میں دیکھی جارہی ہے اور اس کے اثرات سے مغرب و یوروپ بھی متاثر ہورہا ہے۔ سعودی عرب سے لے کر امریکہ تک صدام حسین اور معمر قذافی جیسے قائدین کی کمی کو اچھے یا برے تناظر میں محسوس کیا جارہا ہے تو دنیا کو لاحق ناقابل یقین اور ہولناک خطرناک سے محفوظ رکھنے کا کوئی ٹھوس منصوبہ نہ ہونے کا نتیجہ بھی بھیانک ہوگا۔ شام میں جن طاقتوں کے حوصلے بلند ہیں، ان کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر اور لاکھوں ہلاک ہوئے ہیں۔ کل تک جو طاقتیں صدام حسین اور معمر قذافی کو آمریت پسند حکمراں مان کر میلی آنکھ سے دیکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتی تھیں، اتحادی فوج بناکر اپنے ناپاک مقاصد کو حاصل کرنے کی غرض سے تباہ کن جنگ شروع کی اور اس جنگ نے جہاں بڑی طاقتوں کو مالی طور پر کمزور بنادیا تو وہیں دنیا کو ایک ایسی تباہ کن صورتِ حال کی جانب ڈھکیل دیا کہ آج یہی طاقتور ملکوں کے قائدین صدام حسین اور معمر قذافی جیسے حکمرانوں کی کمی کو محسوس کررہے ہیں۔ ماضی سے الگ رہ کر حال تو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم حکمرانوں کے خلاف جن مغربی و یوروپی حکمرانوں نے غلطیاں کی تھیں، اب ان کے ہی شہری اپنے سیاست دانوں اور حکمرانوں کی خرابیوں کا ذکر کررہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مغربی ممالک کے حکمرانوں نے اپنی خود غرضی کی بناء پر دنیا بھر میں ان ممالک کے مفادات کی پرواہ کئے بغیر ہنگامے کھڑا کئے اور اور ان ممالک کو انتشار کا شکار بنادیا۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ یہ سب مسلم ممالک ہیں، حالانکہ اس کے لئے مغربی ممالک کے سرغنہ ’’امریکہ ‘‘نے جمہوریت کے فقدان کا بہانہ بنایا تھا لیکن موجودہ حالات ثابت کرتے ہیں کہ عراق اور لیبیا ابھی جمہوری طرز حکومت کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے وہاں کے عوام جمہوری منتخبہ حکمرانوں کی بہ نسبت ڈکٹیٹرس کو ترجیح دیتے تھے۔