مسلمانوں کے بجٹ کا مکمل اور دیانتدارانہ استعمال ناگزیر

تلنگانہ /اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ

مسلمانوں کو خوشی ہورہی ہے کہ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر رائو نے ان کے حق میں ترقیاتی فیصلے کئے ہیں۔ مکہ مسجد اور شاہی مسجد کے ائمہ کرام و دیگر ملازمین تنخواہوں سے محروم ہونے کے باوجود اقلیتی بہبود میں مستقل ملازمین کے تقرر کا اعلان کیا گیا۔ 3000 اردو اساتذہ کے تقررات کے اعلان نے و بلاشبہ اردو دنیا میں مسرت کی لہر پیدا کردیا ہے۔ 10 لاکھ مسلم طلباء کو اسکالرشپ دینے کا وعدہ بھی حیران کن ہے۔ اسمبلی میں چیف منسٹر نے مسلمانوں کی ترقی کے لئے اپنے منصوبوں کی جس طریقہ سے منظر کشی کی ہے وہ حیران کن ہی تو ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے مستقبل کا غائبانہ تعارف ہو۔ چیف منسٹر نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کا وعدہ کیا تھا اس موضوع پر اب وہ بہت کم ہی بول رہے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوگی کا نعرہ اقلیتی بہبود کے بجٹ کی اجرائی اور مکمل خرچ کو یقینی بنانے پر ہی پورا ہوگا۔ حکومت کے سامنے کل تک جو مسلمان ہاتھ پھیلائے ٹھہرے دکھائی دیتے تھے

اب تلنگانہ حاصل کرنے کے بعد ان کے حکمراں نے انہیں سب کچھ دینے کا وعدہ کیا ہے اور اس کو پورا کرنے کی سمت قدم اٹھایا ہے۔ اپنے عزم کے پکے چیف منسٹر کو وقف جائیدادوں کے تحفظ کی بھی فکر ہے۔ دینی درسگاہوں کے تقدس و عظمت کا بھی خیال ہے اس لئے قدیم درسگاہ جامعہ نظامیہ کے لئے مختلف اقدامات کرنے کا اعلان کیا گیا۔ کوئی بھی ریاست نئی ہو یا قدیم ادارتی فیصلہ سازی پر گڈ گورننس کے بانی کی اجارہ داری بنیادی شرط ہے۔ کے سی آر نے اگر یہ اجارہ داری حاصل کی ہے تو وہ تلنگانہ کے عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ یہ بات واضح ہے کہ فرقہ پرستوں کا بہت بڑا ٹولہ حکمرانوں کے موافق مسلم فیصلوں کو روکنے کی کوشش کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم آبادی والے علاقوں میں ترقی ٹھپ ہوئی ہے مگر کے سی آر خود پر کسی ٹولے کو مسلط ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس سال کے بجٹ میں کے سی آر نے مسلمانوں کی ترقی کے لئے جو بجٹ مختص کیا ہے اگر اس کا درست استعمال ہوتا ہے تو مسلمانوں کی بڑی تعداد کو راحت ملے گی مگر اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ گزشتہ سال کے بجٹ میں مسلمانوں کے لئے جو رقم مختص کی گئی تھی اس میں سے 80 فیصد رقم خرچ ہی نہیں کی گئی۔ اقلیتی بہبود کے ذمہ داران کو یہ سچائی معلوم ہو کہ بجٹ خرچ نہ کرنے کی وجوہات کیا ہیں۔ عام طور پر مسلمانوں کو یہ خوش فہمی ہوتی ہے کہ حکومت نے بجٹ میں جورقومات ان کی ترقی کے لئے مختص کئے گئے ہیں

انہیں پورا پورا استعمال کیا جائے گا لیکن کڑوی سچائی یہ ہے کہ حکومت معلنہ بجٹ کا 10 فیصد حصہ بھی جاری نہیں کرتی۔ گزشتہ سال بجٹ میں مسلمانوں کی بہبود کے لئے 10,30 کروڑ روپئے مختص کئے گئے تھے لیکن حکومت نے اب تک صرف 200 کروڑ روپئے جاری کئے۔ ٹی آر ایس حکومت نے شادی اسکیم کے تحت فنڈس کا اعلان کیا اس میں سے کتنے غریب مسلم لڑکیوں کی شادی کے لئے رقومات جاری کئے گئے یہ سب نہ سہی متعلقہ محکمہ کے آفیسرس بخوبی واقف ہوں گے۔ سابق کے محکمہ فینانس کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ جو بجٹ مختص کیا گیا تھا خاص کر چار اسکیموں کے لئے مقررہ فنڈس میں سے ایک نیا پیسہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔ اب چیف منسٹر کے سی آر کے ہاتھ میں ہی اقلیتی امور کا قلمدان ہے تو وہ اپنے معلنہ بجٹ میں سے مسلمانوں کے لئے کتنی رقم جاری کریں گے یہ بھی غیر یقینی ہے۔ خود ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی کو بھی اس کا احساس ہوگا کہ ان کی وزارت ریونیو (مال) کو اقلیتی بہبود کے لئے مختص بجٹ کو جاری کرنا مشکل ہے جب شادی اسکیم کے لئے ہی بجٹ کھینچ تان کر جاری کیا جارہا ہے تو غریبوں کی بچیاں شادی کے جوڑے میں بیٹھے ہوئے تو حکومت کے فنڈس کے انتظار میں ہی رہ جائیں گی۔ شادی اسکیم کے لئے مختص کردہ 100 کروڑ روپئے میں سے صرف 20 لاکھ روپئے جاری کردیئے گئے۔ تلنگانہ کے 70 فیصد مسلمان غربت کاشتکار ہیں جو تلنگانہ کے چھوٹے چھوٹے ٹائونس اور دیہاتوں میں مقیم ہیں۔ مسلم آبادی کے لحاظ سے ان کے ارکان کی بڑی تعداد چھوٹے کاروبار، معمولی کاموں میں مصروف رہتی ہے۔ مسلمانوں میں پسماندگی کی اصل وجہ سیاسی سرپرستی سے دوری یا سیاسی امتیازات کا شکار بنایا جاتا ہے۔ اس لئے مسلمانوں کی اکثریت میکانک ہے، ٹرنر فٹر، ویلڈنگ، پان کی دوکان، آٹو چلانے، بس ڈرائیور، پلمبر، ٹیلر، ٹھیلہ بنڈی، فٹ پاتھ کاروبار یا چائے کی چھوٹی ہوٹل لگاکر روزگار حاصل کرتا ہے۔ مسلمانوں کو اگر سرکاری ملازمت دی جاتی ہے تو وہ بھی سب سے حقیر ملازمت ہوتی ہے۔ چپراسی، آفس بوائے، کانسٹیبل یا زیادہ سے زیادہ کوئی ڈی ایس سی کامیاب ہے تو ٹیچر بنادیا جاتا ہے۔ ان مسلمانوں کا خود کا پختہ مکان نہیں ہوتا۔ کھیتی باڑی نہیں ہوتی۔ بینکوں سے قرض نہیں ملتے۔ اسکولوں میں بچوں کے لئے فیس معاف نہیں ہوتی۔ راشن کی دکان سے پورا راشن نہیں ملتا۔ تاہم حکومت کی اولین ترجیح مسلمانوں کو ہر شعبہ میں ترقی دینی ہوتی ہے لیکن ایسا ہو نہیں پاتا۔ کوئی پڑھا لکھا مسلمان اچھی سرکاری ملازمت حاصل نہیں کرسکتا ،مجبور ہوکر وہ آٹو چلاتا ہے۔

اس کے برعکس کوئی پڑھا لکھا ہندو آٹو چلانے کی فکر رکھنے کے بجائے کوئی اچھی ملازمت کرنے کی جستجو کرتا ہے اور اس کی جستجو اس لئے بھی کامیاب ہوتی ہے کیوں کہ وہ ہندو ہے۔ اگر یہی جستجو مسلمان کرتا ہے تو اس کے حق میں صرف انکار ہی آتا ہے ہر جگہ انکار کی صدا سن کر پڑھا لکھا مسلم نوجوان چھوٹے چھوٹے حقیر کاموں اور ملازمتوں کو ہی غنیمت جانتا ہے۔ مسلمانوں کی پسماندگی خاص کر تلنگانہ کے شہروں اضلاع کے مسلمانوں کی پسماندگی کی وجہ یہ ہے کہ حضور نظام کے دور کے بعد جو حکومتیں تھیں مسلمانوںکو اصل دشمن کہنے لگیں اور ان کی زبان اردو کو سب سے پہلے مدرسوں اسکولوں اور تعلیم سے چھین لیا گیا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو ذہنی جھٹکا لگا اس کے بعد انہوں نے اردو کے زوال کا ماتم کرتے ہوئے اس زبان کو فروغ دینے کی جدوجہد کے ساتھ دیگر زبانیں جیسے تلگو اور انگریزی پر عبور حاصل کرنے اسکولوں میں تلگو میڈیم پڑھنے کی کوشش نہیںکی، نتیجہ میں سرکاری ملازمتیں ہاتھ سے نکل گئیں۔ ایک طرف حکومت کی تعصب پسندی نے مسلمانوں کی ترقی کے ہر در کو بند کردیا تو دوسری طرف ہندوئوں کے لئے ترقی کا ہر محاذ کشادہ ہوتا گیا۔ امتیازات کا شکار مسلمانوں کی بڑی تعداد دینی مدرسوں کا رخ کرکے بھی اپنے بچوں کا مستقبل محدود سطح تک ہی سمٹ کر رکھ دیا۔ تلنگانہ تحریک سے مسلمانوں میں جو امیدیں پیدا ہوئی تھیں اس کو پورا کرنے کے لئے ابتداء میں تلنگانہ کی دم بھرنے والی پارٹیوں خاص کر ٹی آر ایس نے مسلمانوں کو سیاسی طور پر بااختیار بنانے میں تعصب کا مظاہرہ کیا۔ خود کے سی آر نے اعلان کیا تھا کہ وہ 2014 ء کے انتخابات میں کسی بھی مسلمان کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیں گے۔ کیوں کہ مسلمانوں میں انتخابات جیتنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ ضلع محبوب نگر کے مسلم امیدوار ابراہیم کے ساتھ کیا ہوا۔ یہی سیاسی پارٹیاں خوب جانتی ہیں اگر ہمت کرکے کسی مسلم امیدوار کو میدان میں اتارا جاتا ہے تو اس کے خلاف ساری کٹرپسند فرقہ پرست طاقتیں متحد ہوجاتی ہیں ۔

بی جے پی امیدوار کو کامیاب بنانے کے لئے بی جے پی ایم پی اداکارہ ہیما مالینی کو بھی انتخابی مہم کے لئے طلب کیا گیا تھا۔ ابراہیم کی شکست کے لئے سارا زعفرانی ٹولہ متحرک ہوگیا تھا اس کے بعد کسی بھی پارٹی کو مسلم امیدوار کے نام ٹکٹ جاری کرنے کی ہمت نہیں ہوئی اور نہ ہی مسلمانوں نے فرقہ پرستوں کے خلاف خود کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ مذہبی شدت پسندی میں اضافہ کے سبب مجموعی طور پر مسلمانوں کے ساتھ مناسب سلوک نہیں ہوتا ہے اب کے سی آر نے ہمت رکھ کر مسلمانوں کے ساتھ مناسب سلوک اختیار کرنے کی کوشش کی ہے تو ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ دیانتداری سے بجٹ کا ایک ایک پائی جاری کریں گے۔ ان کے سامنے کچھ کرنے کی منزل تو ہے مگر ان کے پیچھے مخالفت میں آواز دینے والی طاقتیں بہت ہیں اگر وہ کام کرتے ہیں تو مسلمانوں کے مستقبل کو سنواریں گے اور پیچھے سے آنے والی آوازوں پر دھیان دیتے ہیں تو مسلمان کے حق میں اٹھنے والے قدم کیا رک جائیں گے۔ حکومت کی اس اداکاری سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان حکومت کے بھروسے پر نہ رہیں ۔ فنڈس کے پوری طرح استعمال کے لئے جدوجہد کرنا ہر ایک بااثر مسلمان کا کام ہے جو مسلمان حکومت کے ایوانوں تک رسائی رکھتے ہیں ان کا کام ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے اٹھائے گئے حکومت کے قدموں کو اس کی منزل تک پہنچانے میں مدد کریں اور محرومیوں کا شکار مسلمان بھی اب اتنے ناداں نہ رہیں کہ ان کی بہبود کا دم بھرنے والے ان کے لئے سچ مچ میں کام کریں گے۔
kbaig92&gmail.com