مسلمانوں کی پسماندگی کا پیمانہ ناپنے کمیٹی کا قیام

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
مرکز میں نریندر مودی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کی بے حسی حد سے گزر رہی ہے تو آندھراپردیش اور تلنگانہ کے لئے یہ افسوسناک وقت ہے خاص کر تلنگانہ کا سب سے غمناک پہلو یہ ہے کہ اس پسماندہ علاقہ میں موت کو دوا سمجھا جارہا ہے کیوں کہ آندھراپردیش کی تقسیم کے دوران جو قانون بنایا گیا تھا اس کے تحت دونوں ریاستوں کے لئے خصوصی پیاکیج دینے مرکز نے وعدہ کیا تھا۔ اب دونوں ریاستوں کے قائدین شکوہ کریں تو کس سے، شکایت کریں تو کیا اک رائیگاں عمل کی ریاضت کے ساتھ پارلیمنٹ میں شور مچارہے ہیں۔ آندھراپردیش اور تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے راجیہ سبھا کے ارکان نے وزیراعظم نریندر مودی کے تیقن کے مطابق ان علاقوں کی ترقی کے لئے سابق حکومت کی جانب سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایوان میں احتجاج کیا۔ راجیہ سبھا میں کانگریس کے ارکان جے ڈی سیلم اور سبی رامی ریڈی (آندھراپردیش) اور تلنگانہ کے رکن کانگریس وی ہنمنت راؤ نے ایوان میں ڈپٹی چیرمین پی جے کورین کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے کہاکہ دونوں ریاستوں کے ساتھ مرکز کا سلوک یکسر غیر متوقع ہے۔ ان ارکان کے مطالبہ کی کئی اپوزیشن پارٹیوں نے بھی حمایت کی ہے جس میں سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، جنتادل (یو) اور سی پی آئی ایم بھی شامل ہیں۔ اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد، سماج وادی پارٹی لیڈر رام گوپال یادو اور جنتادل یو لیڈر شرد یادو نے مودی حکومت کے اس سوتیلے پن پر تنقید کی کیوں کہ وزیراعظم جیسی جلیل القدر شخصیت نے ہی تیقن دیا تھا کہ وہ سابق حکمرانوں کے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے دونوں ریاستوں کے ساتھ انصاف کریں گے لیکن قیام تلنگانہ کے 9 ماہ گزر چکے ہیں کسی بھی قسم کی ریاست کو مرکز سے راحت حاصل نہیں ہوئی۔

گوکہ ذرا سی بات پر مرکز کے وعدے وفا نہ ہوئے لیکن اتنا تو ہوا کہ کچھ لوگ پہچانے جاچکے ہیں۔ مودی حکومت سے اپنا حق حاصل کرنے کے لئے تلنگانہ اور آندھراپردیش کو جدوجہد کرنی ہے خاص کر تلنگانہ کے خالی سرکاری خزانے کو بھرنے کے لئے مرکز سے امداد ضروری ہے۔ جس ریاست میں سرکاری خزانے خالی ہوتے ہیں وہاں جب حکومت کس طبقہ کو خوش کرنے کے لئے ترقیاتی و فلاحی اقدامات کا مظاہرہ کرتی ہے تو اس پر یقین کرلینا ممکن ہوتا ہے یا نہیں یہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کی کوششوں پر منحصر ہے۔ فی الحال اُنھوں نے اپنے انتخابی وعدہ کو پورا کرنے کے لئے مسلمانوں کو ترقی دینے کی شروعات کی ہے اس خصوص میں مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی اور معاشی صورتحال کا اندازہ کرنے کے لئے ایک جامع رپورٹ تیار کرنے کے لئے تحقیقاتی کمیشن کو تشکیل دیا ہے۔ چیف منسٹر کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ملک بھر کے مسلمانوں کی پسماندگی کے تعلق سے واضح رپورٹس سچر کمیٹی اور دیگر کمیٹیوں کی تحقیقات کی شکل میں موجود ہے۔ اس کے باوجود اگر تلنگانہ کے مسلمانوں کی معاشی، تعلیمی اور سماجی صورتحال سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے رپورٹ تیار کروائی جارہی ہے تو یہ صرف سیاسی مظاہرہ سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا۔ مسلمانوں کے مستحق افراد کے لئے تحفظات فراہم کرنے پر کئی سفارشات موجود ہیں تاہم چیف منسٹر نے اپنے اطمینان کے لئے اپنی نگرانی میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا ہے تو ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی مجموعی طور پر سماجی، تعلیمی اور معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے اقدامات کریں گے اور اس طرح کے کاموں کی انجام دہی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کریں گے۔ مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار میں تحفظات فراہم کرنے پر توجہ دینے والے چیف منسٹر کو اس سلسلہ میں جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے مگر انھیں خالی سرکاری خزانے کی جانب سے اجازت نہیں ملے گی۔ اُنھوں نے ریٹائرڈ آئی اے ایس آفیسر جی سدھیر کی قیادت میں کمیٹی تو تشکیل دی ہے اب اس کمیٹی کا کام ہے کہ وہ مسلمانوں کے تعلق سے مکمل ڈاٹا تیار کریں۔

مسلم غلبہ والے علاقوں میں بہبودی انفراسٹرکچر اور ادارہ جاتی میکانزم کی دستیابی کو یقینی بنایا گیا تو یوںسمجھئے کہ مسلمانوں کی پسماندگی چٹکی میں دور ہوجائے گی۔ مسلمان حکومت تلنگانہ کی اس کوشش کو شہرت کی چال کہیں گے یا اپنی رسوائی سمجھیں گے کیوں کہ مسلمانوں کی پسماندگی معلوم کرنے کے باوجود اگر راحت نہیں پہونچائی گئی تو اسے رسوائی ہی کہا جائے گا۔ کیوں کہ تلنگانہ چیف منسٹر کی اس کوشش سے پہلے ہی مرکز نے مسلمانوں کی پسماندگی پر افسانے کی شکل میں سچر کمیٹی رپورٹ تیار کی تھی۔ اس رپورٹ کے باوجود مسلمانوں پر طاری کردہ معاشرہ کی وحشتیں دور نہیں کی جاسکیں اور اس طرح سیاسی پارٹیوں کی چالاکیوں کا شکار ہونا ان کا مقدر بن گیا ہے۔ اب یہ مسلمان جہاں بھی جاتے ہیں ویرانے ان کا تعاقب کرتے رہتے ہیں۔ تلنگانہ کے مسلمانوں کو بھی چیف منسٹر کی اس خوش فہمی والی کوششوں سے زیادہ اُمیدیں باندھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے بل پر ہی اپنی تعلیمی و معاشی و سماجی زندگی کو بہتر بنانے کی فکر رکھنی ہوگی کیوں کہ اس وقت مرکز میں موجود مودی حکومت اور اس کے حامیوں کی سب سنگ ملامت کے رُخ اک ہی جانب یعنی مسلمانوں کی طرف ہیں۔ اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے جن مسلمانوں نے شادیوں کے اہتمام میں شان و شوکت کا مظاہرہ کیا تو وہ ان پر ایک کھانا اور ایک میٹھا کی مہ کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ مسلم معاشرہ کو بے جا اسراف سے بچانے کے لئے کی جارہی مہم کو صرف ایک گوشے سے چلانے کی کوشش سمجھ کر نظرانداز کردیا گیا تو پھر مسلمانوں کو خوشیوں کے تر نوالے کھلانے والے ایک دن انھیں روتا چھوڑ دیں گے۔ مسلمانوں کو اپنی خوشیوں کے موقع پر آب و دانہ پر ہونے والی فضول خرچیوں کو بدلنے پر توجہ دینا ہوگا۔

اس کے بعد ہی مسلمانوں کے لئے جو کہی گئی بات کہ آپ شاہین تو اس کے لئے چٹانوں پر بیٹھنے کی جستجو کرنا ضروری ہے لیکن جن مسلمانوں کو اپنے علاقوں کی مساجد کے کھنڈر بن جانے پر افسوس نہیں ہوتا۔ انھیں نئے شاندار شادی خانوں کے قیام پر خوشی ضرور ہوتی ہے انھیں ایک کھانا اور ایک میٹھا مہم کا راستہ روکنے کے لئے بہانہ تلاش کرتے دیکھا جاتا ہے۔ ایسے لوگ ہی یوں گلیوں بازاروں اور شادی خانوں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں جیسے اس دنیا میں ابھی آئے ہوں۔ عمر گنوانے کے لئے ان کی ایسی عادتوں نے ہی مسلمانوں کو سماجی، تعلیمی اور معاشی پسماندگی کے دلدل میں ڈھکیل دیا ہے۔ اب ان کے آگے پیچھے، دائیں بائیں لہراتے مایوسی کے سائے ہی ہوں گے۔ چیف منسٹر کے سی آر ہوں یا مرکز کی کوئی بھی مسلم ہمدرد حکومت یہ صرف وعدے کرنے کی حد تک نمایاں دکھائی دیں گے۔ اصل کوشش تو خود مسلمانوں نے ترک کی ہے وہ ہی انھیں پسماندہ بنارہی ہے۔ اصل کوشش اپنی زندگیوں کو سادگی سے گزارنے اور آمدنی میں سے بچت کو ترجیح دینی ہوگی ورنہ اس ملک میں مسلمان صدیوں سے ظلم سہتا آرہا ہے یہاں مسلمان کی اہمیت اب اس گائے سے بھی کم ہے جس گائے کے ذبیحہ پر کرتے ہیں جو لوگ ماتم ان کی نظر میں مسلمان کے قتل کا کوئی غم نہیں ہوتا۔ ہر طرف مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلا جارہا ہے تو ایسے میں کسی علاقہ کی حکومت کی جانب سے ان کی پسماندگی کا پیمانہ ناپنے کی کوشش کا مطلب یہی ہوگا کہ مسلمان کہی سنی پہ بہت اعتبار کرنے لگتے ہیں تو وقت آنے پر سنگسار کرنے والوں کی زد میں آتے ہیں۔
kbaig92@gmail.com