مسلمانوں کا ووٹ منصفانہ معاشرہ کا ضامن

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
انتخابات کا انعقاد اس لیے ہوتا ہے کہ عوام اپنے مستقبل کو روشن ، ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے لیے ایک فعال ، دور اندیش رہنما کو منتخب کر کے اقتدار حوالے کیا جائے ۔ تلنگانہ کے عوام نے حصول تلنگانہ کی جدوجہد بھی اس غرض سے کی تھی اور اس جوش و جذبہ سے ٹی آر ایس پارٹی کی قیادت کو اقتدار حوالے کیا تھا اب پھر ایک بار عوام الناس کو اس پارٹی کو پرکھنے اور اس کی قیادت کی کارکردگی کا جائزہ لے کر ووٹ دینے کا موقع مل رہا ہے ۔ تلنگانہ کے یہ انتخابات ریاست کے ان تمام مظلوم طبقات کے لیے اہم ہیں خاص کر مسلمانوں کے لیے ان انتخابات کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ کیوں کہ حکومتوں نے ہمیشہ ان کے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے ۔ مسلمانوں کے ووٹوں کا فیصلہ ہی ریاست سے لے کر مرکز تک ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے یا مسائل سے دوچار کرنے والی پارٹی کو اقتدار تک پہونچائے گا ۔ رائے دہی کا دن 7 دسمبر 2018 مقرر ہے ۔ یہ ان تمام مسلم رائے دہندوں کے لیے فکر صحیح کے ساتھ ووٹ دینے کا خاص موقع ہے ۔ اس موقع سے دانشمندانہ طور پر استفادہ کریں تو ریاست میں موافق سیکولر ہندوستان پارٹی کو اقتدار ملے گا اور مرکز میں فرقہ پرست طاقتوں کا اثر زائل ہوجائے گا ۔ مسلمانوں کو ان کے ووٹ کی اہمیت سے واقف کروانے کے لیے اخبارات ، ٹی وی چیانلوں ، دینی اجتماعات کے ساتھ ساتھ سوشیل میڈیا پر بھی اچھی اچھی پوسٹ گشت کی جارہی ہیں ۔ مسلمانوں کے لیے اس وقت ایک منصفانہ معاشرہ اور انصاف پسند حکمراں کی ضرورت ہے ۔ مسلمان اگر سوال کرتے ہیں کہ انہیں ایک منصفانہ معاشرہ کیوں ضروری ہے تو پھر وہ اپنے اور اپنی اولاد کے مستقبل کی فکر نہیں رکھتے ۔ جو قومیں منصفانہ معاشرہ کے حصول کے لیے کوشاں ہوتی ہیں انہیں ہر قدم پر کامیابی ملتی ہے ۔ منصفانہ معاشرہ کے حصول کی خاطر لوگ زندگیاں وقف کردیتے ہیں اور ضرورت ہو تو اپنی زندگیوں کو داؤ پر بھی لگا دیتے ہیں تاکہ ان کی قربانیوں سے ان کی آنے والی نسلوں کو ایک منصفانہ معاشرہ نصیب ہوجائے ۔ منصفانہ معاشرہ کا مطلب ہے کہ عزت ، عزت نفس ، اناج ، علاج اور تعلیم کے حصول تک سب کی رسائی ہو ۔ مسلمانوں کو ان چیزوں تک رسائی سے اب تک روکا جاتا رہا ہے ۔ یہ رسائی اب مزید مشکل بنادی گئی ہے کیوں کہ فرقہ پرستوں نے اقتدار کو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے ۔ کل تک منصفانہ معاشرہ تک رسائی معاشرہ کے بالائی طبقات کو پیدائشی طور پر حاصل ہوتی تھی ۔

اب یہ رسائی فرقہ پرستوں نے حاصل کرلی ہے ۔ یہ لوگ اپنے سامنے والی نسلوں اور طبقات کو خاص کر مسلم طبقہ کی محرومیوں کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ انہیں مزید سماجی محرومیوں کا شکار بنا دیتے ہیں ۔ مسلمانوں کو معاشرہ کے محروم اور مظلوم افراد بنا کر رکھ دینے سے ہی اقتدار کو مضبوط بنا لیتے ہیں ۔ اس کے برعکس مسلمانوں کا رویہ بھی افسوسناک ہے وہ اپنی محرومیوں کے خلاف جدوجہد نہیں کرنے کی بھی قسم کی عملی یا فکری کوشش کر کے اپنی زندگیوں کو بہتر نہیں بناتے اس لیے ہر گذرتا دن ان کے لیے تباہی کی جانب لے جارہا ہے ۔ اگر مسلمان آج کمزور قوم بنادی گئی ہے تو ان کے لیے آنے والا کل بھی کمزور مستقبل کا اشارہ دے گا اگر مسلمان اس کمزور موقف سے باہر نکلنے کی از خود جدوجہد نہ کریں انہیں پسماندگی کی کھائی ہی میں ڈھکیلا جائے گا ۔ اگر مسلمان یہ تصور کر کے جدوجہد شروع کریں کہ آج کا کمزور کل کا طاقتور ہوگا اور آج کا طاقتور کل کمزور ہوجائے گا تو بلا شبہ طاقتور کا اثر کل بے اثر ہوگا اور بے اثر مسلمان با اثر بن جائیں گے ۔ مسلمانوں کو تو یہ بات سب سے زیادہ یقین کامل کے ساتھ ذہن نشین ہوگی کہ رب العالمین انسانوں کو کیا قوموں کے درمیان بھی دلوں کو پھیرتا رہتا ہے اور زندگیوں کو سنوارتا اور بگاڑتا ہے ۔ اچھے کام اور نیک عزم کے ساتھ جدوجہد کی جائے تو ان کی کمزوری دور ہوجائے گی ۔ ساری بنی نوع انسان کی تاریخ گواہ ہے بلکہ خود مسلمان اپنی تاریخ کا جائزہ لیں تو وہ کل جہاں تھے آنے والے کل کو وہاں پہونچ سکتے ہیں ۔ آج جو طبقہ ان کی ماضی کی تاریخ کو مٹانے ان کے ناموں کو تبدیل کرنے لگا ہے یہ عمل کل الٹا بھی ہوسکتا ہے ۔ مسلمانوں نے اگر اپنی زندگیوں کا محاسبہ کیا اور سیدھی سادی کامن سنس سے بھی کام لیا تو اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھ کر اچھے لیڈر کا انتخاب کرے تو اس کو پریشانیوں سے نجات ملے گی ۔ مسلمانوں کے ووٹ کی کافی اہمیت ہے اس لیے فرقہ پرست طاقتیں اپنے فرقہ پرست نظریہ کے حامل سرکاری عملہ کو ووٹر لسٹ سے مسلمانوں کے نام حذف کروا کر انہیں ووٹ سے محروم کررہی ہے تاکہ ان کا ووٹ فیصد کم ہوجائے تو فرقہ پرست کو یکطرفہ کامیابی مل سکے ۔ مسلمانوں کو مختلف عنوانات سے گمراہ کرنے یا انہیں ووٹ سے دور رکھنے کے لیے دیگر مشاغل میں مصروف کرنے کی بھی کوشش ہوسکتی ہے ۔ مسلمانوں کو خاص کر ان مسلمانوں کو جو تبلیغ دین میں مصروف ہیں اور اس کے لیے اجتماعات کے ذریعہ گمراہی کا شکار مسلمانوں کا ایمان پختہ بنانے کی فکر کرتے ہوئے دینی اجتماعات منعقد کرتے ہیں ان کا یہ ایک جذبہ ایمانی کا مظہر ہے مگر خاص موقعوں پر اس طرح کے دینی اجتماعات منعقد کئے جائیں تو مسلمانوں کو سیاسی ناکامیوں کا شکار ہونا پڑے گا ۔ سوشیل میڈیا پر پوسٹ ہونے والا ایک بیان یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ہندوستان میں آنے والے چند مہینے انتخابات کے لیے اہم ہیں اور انہی مہینوں میں دینی اجتماعات کے انعقاد کے ذریعہ لاکھوں مسلمانوں کو ان کے آبائی علاقوں سے دور لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ جب مسلمان اپنے علاقہ کے انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے تو ان کا ووٹ ضائع ہوگا اور وہ ووٹ نہیں ڈال سکیں تو ان کا خاندان بھی ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے باہر نہیں نکلے گا ۔ اس طرح ان کے ووٹ کی کمی سے فرقہ پرستوں کا ووٹ فیصد بڑھ جائے گا ۔ بے خیالی یا لا علمی کے نتیجہ میں اٹھنے والا قدم بھاری نقصان سے دوچار کرسکتا ہے ۔ ہندوستان بھر میں آئندہ بڑے دینی اجتماعات منعقد کروائے جارہے ہیں یہ اجتماعات 23 نومبر 2018 سے 28 مارچ 2019 تک ملک کے مختلف حصوں میں منعقد ہوں گے ۔ تقریبا 8 بڑے عالمی اجتماعات ہوں گے تو ظاہر بات ہے کہ ان اجتماعات میں شرکت کے لیے کئی ریاستوں ، شہروں ، دیہاتوں سے مسلمانوں کی بڑی تعداد اجتماعات میں شرکت کرے گی اور یہ لوگ اپنے گھروں اور علاقوں سے دور رہیں گے تو ووٹ نہیں ڈال سکیں گے ۔ ایک فرد یا صدر خاندان کا گھر سے دور رہنا سارے ارکان خاندان کو ووٹ سے محروم کردے سکتا ہے ۔ دینی اجتماعات میں شرکت کرنا بلا شبہ ایمان کی تازگی کے لیے ضروری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم پہلو کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ آیا اس طرح بڑی تعداد میں مسلمانوں کا ووٹ ضائع ہوجائے تو ان پر کس طرح کی قیادت مسلط ہوگی ۔ تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات اور آنے والے سال لوک سبھا کے انتخابات دونوں ہی مسلمانوں کے لیے اہم ہیں اس لیے انہیں اپنے اہل خانہ کے ووٹ کو مضبوط موقف منصفانہ معاشرہ تشکیل دینے کے لیے استعمال کرنے کا عہد کرلینا چاہئے ۔ منصفانہ معاشرہ انہیں شرافت انسانیت اور ترقی سے کبھی محروم نہیں ہونے دے گا ۔ یہ خبر بھی غور طلب ہے کہ تلنگانہ میں 30 لاکھ رائے دہندوں کے نام فہرست رائے دہندگان سے حذف کردئیے گئے ہیں ۔ قطعی فہرست میں جب 30 لاکھ ووٹرس غائب ہیں تو اندازہ کیجئے کہ یہ حکومت آگے اپنی مرضی سے کس طرح تبدیلیاں لاتے جائے گی اور مسلم طبقہ کو مزید محرومیوں کا شکار بنادے گی ۔۔
kbaig92@gmail.com