مسلمانوں، ائمہ کرام، موذنین پر چیف منسٹر کے سی آر مہربان!

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری      خیراللہ بیگ
چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ نے رمضان المبارک کے دوران مسلمانوں، ائمہ کرام اور موذنین پر کئی مہربانیاں کرنے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کا دل جیتنے کی کوشش کی ہے مگر ان کے مخالفین کو یہ ادا پسند نہیں آئی۔ اپنی مخالف پالیسیوں کی وجہ سے کے سی آر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ رمضان المبارک کے دوران جن مسلمانوں نے حکومت کیے مراعات سے استفادہ کیا وہیں مسلمانوں کی بڑی اکثریت نے رمضان المبارک کی برکتوں، سعادتوں کے حصول کے لئے عبادتوں اور ذکر و اذکا میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اسلام کے سنہری دور کی مثال پیش کی جائے تو اس وقت کوئی زکوٰۃ وصول کرنے والا نہیں ہوتا تھا۔ آج کے دور میں صاحب ثروت افراد کو زکوٰۃ کے نصاب کے بارے میں کماحقہ معلومات نہیں۔

افطار اور سحر کرنے کے لئے رزق کا حلال ہونا اور عبادت کے لئے خشوع و خضوع ہونا ضروری ہوتا ہے۔ مگر جب سے فی زمانہ سیاسی افطار اور خانگی افراد کی جانب سے سحری کے انتظامات ہورہے ہیں لوگ اندھا دھند طریقوں سے نوالے اپنے پیٹ میں ڈال لیتے ہیں۔ اس کا ہرگز خیال نہیں کیا جاتا کہ آیا یہ کسب حلال سے حاصل کردہ غذا ہے یا نہیں۔ بہرحال رمضان المبارک کا مبارک مہینہ ختم ہوا اور عیدالفطر کی خوشیاں بھی اب ان لوگوں کو حاصل ہورہی ہیں جنھوں نے رمضان المبارک کی رحمتوں، سعادتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اسلام نے رزق کی اہمیت بتائی ہے اس کو ضائع نہ کرنے کا درس دیا ہے۔ افطار پارٹیوں اور سحری میں رزق کا بے تحاشہ ضائع کیا جانا اور سرکاری افطار کی دعوت میں ٹوٹ کر کھانے کے لئے گرنا ایک معیوب عمل کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ حکومت تلنگانہ کی افطار پارٹی کا سب سے زیادہ چرچا رہا۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے اپنی حکومت کی اقلیت نوازی کا ثبوت دینے کے لئے افطار پارٹی کا منفرد نظام رکھا۔ ریاست کی ہر ضلع کی اہم مساجد میں افطار کا اہتمام کیا گیا۔ شہر حیدرآباد میں بھی مخصوص مساجد کو منتخب کرکے افطار و طعام کا انتظام کیا گیا۔ لوگوں نے تعریفیں کیں اور کہاکہ کے سی آر نے مسلمانوں کو خوش کردیا مگر 12 فیصد تحفظات کا وعدہ افطار پارٹی اور طعام کی نذر کرنے کی کوشش کی۔ سیاسی پارٹیوں خاص کر حکمراں پارٹی کے کارکنوں کو بہرحال رقمی فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ عموماً سرکاری پارٹی کے کارندے اپنی محنت کا صلہ سرکاری کاموں کے فنڈس اور بلدی اُمور کی انجام دہی کے لئے نکلنے والے ٹنڈرس کے حصول کے ذریعہ حاصل کرتے تھے۔ اب ٹی آر ایس حکومت نے پارٹی کارندوں کو افطار اور طعام کے ذریعہ روپیہ کمانے کا موقع فراہم کیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ سیاسی کارندوں کی بڑی تعداد نے تلنگانہ حکومت کی 26 کروڑ کی افطار پارٹی و طعام کے انتظامات میں اپنے لئے کافی حصہ نکال لیا ہے۔ افطار و طعام کرانے کا ارادہ کرنے والے چیف منسٹر نے اپنی صاف نیت کا مظاہرہ کیا مگر درمیانی لوگوں نے افطار کے لئے مختص فنڈس کا اپنے فائدہ کی مد میں استعمال کیا۔ الزامات عائد کئے جارہے ہیں کہ حکمراں پارٹی ٹی آر ایس اور مقامی جماعت کے لوگوں نے افطار و طعام کے انتظامات کے نام پر بڑھا چڑھا کر بل تیار کرلئے۔

دوسری جانب ٹی آر ایس حکومت کی اقلیت نواز افطار پارٹی اور رمضان پیاکیج کا بعض خود ساختہ سیکولر کارکنوں اور سنگھ پریوار کے کارکنوں نے غلط مطلب اخذ کرکے اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جبکہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے ، ہر مذہب کے لئے کچھ نہ کچھ فنڈس مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بونال، بتکماں اور ونائک چتورتھی کے لئے انھوں نے سرکاری ریاستی فیسٹیول سے تعبیر کیا اور کرسمس کا اہتمام بھی بڑے پیمانہ پر کیا گیا۔ اس وقت کسی نے کچھ نہیں کہا۔ رمضان پیاکیج پر لوگوں کو اعتراض ہونے لگا ہے۔ اس حکومت نے کرسچن بھون بنانے کے لئے 10 کروڑ روپئے دیئے تھے اور رمضان پیاکیج پر 26 کروڑ روپئے خرچ کئے اس کے فوری بعد گوداوری پوشکرالو کے لئے 600 کروڑ روپئے خرچ کئے جارہے ہیں۔ 26 اور 600 کروڑ روپئے میں فرق ہوتا ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر نے افطار پارٹیوں پر ہی پیسے خرچ نہیں کئے بلکہ ائمہ کرام اور موذنین کے لئے ماہانہ 1000 روپئے کا وظیفہ جاری کرتے ہوئے 12 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں۔ اس سے ریاست بھر کی 5000 چھوٹی مساجد کے اماموں او رموذنوں کو فائدہ ہوگا۔ اس سے مساجد میں مستقل طور پر موذنین اور امام حضرات کا انتظام بھی ہوگا۔ اکثر یہ حضرات مساجد کمیٹی کی ادا کردہ تنخواہوں سے مطمئن نہیں ہوتے اور امامت ترک کردیتے ہیں یا موذنی کی خدمت بند کرکے چلے جاتے ہیں۔ اب ماہانہ 1000 روپئے کا وظیفہ جس مسجد میں ملے گا وہاں ملازمت مضبوط ہونے کی توقع پیدا ہوگئی ہے۔ عام طور پر حکومت اپنی پالیسیوں کی چھتری میں سیاست کرتی ہے مگر ٹی آر ایس نے کھلے طور پر دلجوئی کی سیاست کی ہے تو اس میں حرج بھی کیا ہے۔ سب مذاہب کے لوگ خوش ہیں۔ ان کے بنیادی مسائل جوں کا توں ہوں تو کوئی بات نہیں۔ حکومت نے اپنے طور پر کچھ تو پہل کی ہے۔ شہر میں اور اضلاع میں بلدی ملازمین کی ہڑتال کے باعث کوڑا کرکٹ کا انبار لگ گیا جو حکومت کی کمزوریوں کو ظاہر کررہا تھا۔ بلدی ملازمین کی ہڑتال ختم کرانے کی کوشش تک عیدالفطر کے پاکیزہ ماحول میں نظم و نسق کی خرابیوں کے باعث خلل پیدا ہوتا رہا۔ جن روزہ داروں، عبادت گذاروں نے سارا مہینہ خشوع و خضوع کے ساتھ مقدس مہینے کی سعادتیں حاصل کی اور شب قدر کی تلاش میں مساجد بھری رہی تھیں، تاریخی مکہ مسجد اور مسجد چوک میں عبادتوں کے سرور اور لطف کی بات ہی اور ہوتی ہے۔

دیگر مساجد میں بھی عبادت گذاروں کی کثیر تعداد رمضان کی اہمیت سے واقف مسلمانوں کی اکثریت کو واضح کررہی تھی لیکن یہی اکثریت چاند رات سے سال بھر مساجد میں نظر نہیں آتی۔ مسجد عزیزیہ میں نماز تراویح اور طاق راتوں کا خصوصی اہتمام عبادت گذاروں کے لئے ایک پسندیدہ مقام بنتی جارہی ہے۔ تفسیر قرآن کے ساتھ حالات حاضرہ کے تناظر میں آسان و سہل انداز میں مسلمانوں میں دین کی بیداری کا مستحسن کام ہورہا ہے۔ جن مسلمانوں کا ماضی روشن تھا اب ان کا مستقبل تاریک کیوں ہورہا ہے۔ اس پر توجہ دلانے میں بعض علماء سرگرم ہیں۔ تبلیغ کا کام کرنے والوں نے اپنی جستجو کو ایک نئی سطح دی ہے اس لئے شہر میں اضلاع میں دنیا بھر سے جماعتوں کی شکل میں آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی اس لئے مسلمانوں کو عمل پر دھیان دینے اور اپنے اخلاق میں نوری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ لیلۃ القدر کو رو رو کر گڑ گڑا کر دعائیں مانگنے والوں کو ان کے مقاصد میں کامیابی ضرور ملے گی اس امید کے ساتھ کہ مسلمان ماہ مقدس کے دوران حاصل ہونے والی روحانی کیفیت کو ماباقی ایام میں فضولیات کی نذر کرنے سے گریز کریں گے۔ بس یاد رہے کہ دھڑکتے دلوں کے ساتھ جب آنسو بہتے ہیں تو عرش کی بھی کیفیت مخصوص ہوتی ہوگی۔
kbaig92@gmail.com