مسجد یکخانہ کی تعمیر کے مسئلہ پر حکومت اور وقف بورڈ کا متضاد موقف

انتخابی ضابطہ اخلاق کے اختتام کے بعد تعمیر، صدرنشین وقف بورڈ محمد سلیم کا بیان ، دوبارہ تعمیر حکومت کے سیکولرازم کا امتحان
حیدرآباد ۔ 8۔ مئی (سیاست نیوز) مقدس ماہِ رمضان میں مسجد یکخانہ عنبرپیٹ کیا دوبارہ آباد ہوجائے گی؟ یہ سوال عام مسلمانوں بالخصوص عنبرپیٹ کے مقامی افراد میں بحث کا موضوع بن چکا ہے ۔ بلدی حکام کی جانب سے مسجد کی شہادت کے بعد وقف بورڈ ، حکومت اور عہدیداروں نے اس مسئلہ کو اس قدر الجھادیا ہے کہ اب وہاں دوبارہ مسجد کی تعمیر آسان نظر نہیں آتی۔ مقامی مسلمانوں کو اس بات کا دکھ ہے کہ رمضان المبارک کے باوجود مسجد یکخانہ عبادتوں اور سجدوں سے محروم رہے گی۔ رمضان کے دوران ہر مسجد میں مصلیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اور مسجد یکخانہ کے اطراف کی مسلم آبادی کو اس بات پر تشویش ہے کہ بلدی حکام نے مسجد کو ملبہ میں تبدیل کردیا اور پولیس نے علاقہ کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے ۔ پولیس اور بلدی حکام کی جانب سے کسی بھی تعمیری کام کی فوری طور پر اجازت دیئے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ یہ مسئلہ فرقہ وارانہ رنگ لے چکا ہے۔ بی جے پی اور دیگر فرقہ پرست تنظیمیں مسجد کی تعمیر نو کو روکنے کا تہیہ کرچکی ہے ۔ ایسے میں وقف بورڈ کیلئے دوبارہ تعمیر کا کام شروع کرنا آسان نہیں ہوگا۔ مسجد کے انہدام کے بعد وزیر داخلہ اور صدرنشین وقف بورڈ کی جانب سے متضاد بیانات منظر عام پر آگئے ، جس نے بلدی عہدیداروں کو یہ موقف اختیار کرنے میں سہولت پیدا کردی کہ مسجد یکخانہ غیر آباد مسجد تھی ۔ کسی اور مقام پر سرکاری یا بلدی کی اراضی فراہم کرنے سے متعلق بیان نے مسلمانوں کو مایوس کردیا۔ علمائے کرام کی جانب سے شرعی موقف کی وضاحت کے بعد وزیر داخلہ نے اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کا تیقن دیا ہے ۔ انہوں نے وقف بورڈ کے تحت بہت جلد تعمیری کام کے آغاز کی بات کہی لیکن بنیادی صورتحال مختلف ہے۔ رمضان المبارک کے دوران تعمیری کام کا آغاز ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ صدرنشین وقف بورڈ محمد سلیم نے وضاحت کی کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کے اختتام کے بعد مسجد کے تعمیری کام کا آغاز کیا جائے گا۔ ایک طرف حکومت کے وزیر جلد تعمیر کا تیقن دے رہے ہیں تو دوسری طرف صدرنشین وقف بورڈ نے انتخابی ضابطہ اخلاق کو تعمیری کام میں رکاوٹ قرار دیا ہے ۔

ایسے میں حکومت اور وقف بورڈ کے درمیان تال میل کی کمی صاف طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ وقف بورڈ کے پاس مسجد کے وقف ہونے سے متعلق تمام دستاویزات موجود ہیں۔ آندھراپردیش گزٹ مورخہ 17 جون 1982 ء کے سیریل نمبر 52 میں مندر کے قریب مسجد یکخانہ قدیم کا تذکرہ موجود ہے جس کے تحت 419.2 مربع گز اراضی موجود ہے۔ سیریل نمبر 55 کے تحت عاشور خانہ حضرت عباس کا اندراج ہے جس کے تحت 359 مربع گز اراضی موجود ہے۔ واضح طور پر وقف ریکارڈ کی موجودگی کے باوجود مجلس بلدیہ کو انہدامی کارروائی سے روکا نہیں جاسکا۔ بی جے پی نے مسجد کی دوبارہ تعمیر کے خلاف دھمکی دی ہے ، ایسے میں حکومت کے لئے دوبارہ تعمیر کرنا کسی آزمائش سے کم نہیں ہے۔ مقامی مسلمانوں کا احساس ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے دوبارہ تعمیر کے آغاز میں تاخیر کی گئی تو یہ ایک مستقل تنازعہ کی شکل اختیار کرلے گا۔ واضح رہے کہ گریٹر حیدرآباد کے حدود میں 100 سے زائد تاریخی مساجد ابھی بھی غیر آباد ہیں۔ ان میں سے کئی آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا تو باقی غیر مجاز قابضین کے قبضہ میں ہیں۔ ٹی آر ایس حکومت اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے بلند بانگ دعوے کرتی ہے لیکن مسجد یکخانہ کی شہادت اس کے دعوؤں کو کھوکھلا ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔ ہر طرف سے تسلی اور تیقنات کے ذریعہ مسلمانوں کو خاموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کے کام کو روکنے کیلئے جس ہجوم نے ہنگامہ آرائی کی ، اس کی قیادت بتایا جاتا ہے کہ مقامی ٹی آر ایس رکن اسمبلی کے قریبی افراد کر رہے تھے جن کے خلاف پولیس نے مقدمہ بھی درج کیا ہے۔

مسجد یکخانہ عنبرپیٹ کے تعمیری کام کا جلد آغاز : محمود علی
علماء کی رائے کا احترام،عوام سے پرسکون رہنے کی اپیل
حیدرآباد ۔ 8۔ مئی (سیاست نیوز) وزیر داخلہ محمد محمود علی نے کہا کہ ریاستی وقف بورڈ کے تحت مسجد یکخانہ عنبرپیٹ کی تعمیر کا کام بہت جلد شروع کیا جائے گا۔ مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں پھیلی بے چینی حکومت پر بڑھتی تنقیدوں کے پس منظر میں وزیر داخلہ نے آج ایک بیان جاری کیا ۔ انہوں نے کہا کہ مجلس علمائے دکن نے مسجد یکخانہ کی اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کا مطالبہ کیا ہے اور حکومت اسے پورا کرے گی ۔ انہوں نے مجلس علمائے دکن کے اس خیال سے کہ ازروئے شریعت جس زمین پر ایک بار مسجد تعمیر کی جاتی ہے ، وہ زمین تاقیامت مسجد ہی کہلاتی ہے، اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی حکومت ہمیشہ علماء کے فیصلوں کا احترام کرے گی۔ وزیر داخلہ نے سوشیل میڈیا پر افواہیں پھیلانے والوں سے کہا کہ وہ غیر ضروری مواد کو عام نہ کریں، اس سے عوام میں غلط پیغام پھیلنے کا اندیشہ ہے ۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ بغیر تصدیق کے سوشیل میڈیا کی خبروں پر بھروسہ نہ کریں۔ محمود علی نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ اس معاملہ پر اطمینان رکھیں اور حکومت کا ساتھ دیں۔