مسجد کے پیچھے مکان کا ہونا

سوال : زید اپنے گھر سے متصل اپنی مملوکہ اراضی میں مسجد تعمیر کر رہے ہیں۔ مسجد کے مغربی جانب رہنے والے پڑوسی کو اس پر اعتراض ہے اوران کا ادعاء ہے کہ مسجد کے پیچھے گھر ہو تو وہ مکان تباہ ہوجاتاہ ے۔ شرعاً کیا حکم ہے ؟
نام ندارد
جواب : زید اپنی مملوکہ اراضی میںمسجد تعمیر کر رہا ہے تو اس کو اس کا مکمل اختیار ہے، پڑوسی کو اعتراض کا حق نہیں۔ مسجد کے پیچھے مکان ہو تو تباہ ہوجانے کا ادعاء واہمہ پرستی ہے۔ حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک مسلمان کو ایسے توہمات سے بالاتر ہونا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی فاعلِ حقیقی ہے، وہی متصرف بالذات ہے اور ہر خیر و شر اللہ ہی کی طرف سے ہے ۔ نیز مسجد کے پڑوس میں ہونا باعث برکت ہے۔

دوران حج عورت ایام میں کیا کرے ؟
سوال : عورت اپنی ماہواری میں نماز ادا نہیں کرتی اور رمضان ہو تو روزے نہیں رکھتی، روزوں کی قضاء کرتی ہے ، حج کے دوران عورت کے ایام شروع ہوجائیں تو اسے کیا کرنا چاہئے ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمالیں ؟
محمد تنویر احمد، مراد نگر
جواب : مناسک حج ادا کرنے کے دوران عورت کے ایام آجائیں تو حج کے تمام ارکان ادا کرسکتی ہے۔ البتہ مسجد حرام میں داخل نہ ہو اور طواف نہ کرے جیسا کہ صحیح بخاری شریف ج: 1 ص: 223 میں ہے ۔ ’’ عن عائشۃ انھا قالت قدمت مکۃ وانا حائض ولم اطف بالبیت ولا بین الصفا والمروۃ قالت فشکوت ذلک الی رسول اللہ صلی علیہ وسلم فقال افعلی کما یفعل الحاج غیر ان لا تطوفی بالبیت حتی تطھری ۔
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں : میں مکہ مکرمہ آئی جبکہ میں ایام میں تھی میں نے بیت اللہ شریف کا طو اف نہیں کیا اور نہ صفا مروہ کے درمیان سعی کی۔ حضرت عاشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں، میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں معروضہ کی تو آپ نے فرمایا جو حاجی کرتے ہیں وہ کرتی رہو مگر بیت اللہ کا طواف مت کرو جب تک کہ حیض سے پاک نہ ہوجاؤ۔لہذا عورت صرف مسجد حرام نہ جائے اور طواف نہ کرے، اس کے سوا منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ جائے ، رمی ، جمار ، قربانی اور باقی تمام امور انجام دے۔ اگر دس ، گیارہ ، بارہ ذی الحج کے دوران کبھی بھی ایام ختم ہوجائیں۔ بارہ کے غروب آفتاب سے پہلے تک طواف زیارت کرنے کی گنجائش ہے ۔ بارہویں کے غروب آفتاب کے بعد ایام ختم ہوں تو دم حیض منقطع ہوتے ہی غسل کر کے طواف زیارت کرلے تاخیر کرنے کی صورت میں دم واجب ہوگا۔

ایرکنڈیشن صندوق کا کرایہ لینا
سوال : مُردوں کو کئی دنوں تک تازہ رکھتے (یعنی سڑنے گلنے سے محفوظ رہنے) کے لئے ایک ایرکنڈیشن صندوق ایجاد ہوا ہے، جسمیں کسی بھی قوم (مسلم، کافر ، عیسائی وغیرہ) کی لاش کئی دنوں تک محفوظ رہتی ہے۔ کیا کوئی مسلمان ایسے صندوق کو کرایہ پر مہیا کرنے کے کاروبار کرے تو شرعاً آمدنی حلال ہے یا نہیں ؟
حافظ مقصود الرحمن، چلکل پورہ
جواب : شریعت میں میت کو جتنا جلد ہوسکے دفن کرنے کے احکام ہیں۔ اس کے باوجود ضرورۃً تدفین میں تاخیر سے میت کے جسم میں خرابی پیدا نہ ہونے کی خاطر ایرکنڈیشن صندوق میں رکھنا لازمی ہوجائے تو مالکِ صندوق سے کرایہ پر اس کا حصول درست ہے اور مالکِ صندوق کے لئے کرایہ حلال ہے۔

جنازہ کی آخری صف
سوال : عرض کرنا یہ ہے کہ ہمارے عزیز نے مجھ سے یہ کہا کہ نماز جنازہ میں آخری صف میں ٹھہرنے کا زیادہ ثواب ہے۔ کیا یہ صحیح ہے ؟
فردوس خان، جھرہ
جواب : شرعاًنماز جنازہ کی آخری صف میں زیادہ ثواب ہے۔ رد ا لمحتار جلد 1 ص : 400 باب الامامہ میں ہے : (قولہ فی غیر جنازۃ) اما فیھا فآخرھا اظہارا للتواضع لأنھم شفعاء فھوا حری بقبول شھادتھم ولان المطلوب فیہ تعدد الصفوف فلو فضل الاول امتنعوا عن التاخر۔

مسجد میں کرنٹ کی چوری
سوال : کارپوریٹ دواخانوں ، ہمہ منزل بلڈنگس اور مکانات میں برقی اور پانی کی چوری عام بات ہے ۔ مگر مساجد اور عبادت گاہوں میں اس طرح کا عمل وہ بھی دو دو Phases ڈال کر کرنٹ سے پانی کا حصول کیا جانا باعثِ تشویش ہے۔ اکثر لوگ مکان سے ہی طہارت اور وضو سے فارغ ہوکر آتے ہیں۔ براہ کرم اس سلگتے مسئلہ کے لئے شریعت میں کیا احکام ہیں ؟ جواب سے ایما فرمائیں تو باعث احسن ہوگا ؟
افروز خان، بازار گھاٹ
جواب : برقی کی چوری خواہ گھر کے لئے ہو یا مسجد کے لئے حکومتی قانون کے منافی ہے اور اس کا مرتکب سزا کا مستحق ہے اور اس طرح کا عمل اسلامی نقطہ نظر سے بھی درست نہیں، عبادت ہی کے لئے صحیح حکومتی احکامات کی خلاف ورزی اور دھوکہ دہی شرعاً قابل قبول نہیں اور اخلاقی اعتبار سے بھی غیر مہذب عمل ہے۔ تاہم مسجد کی کمیٹی برقی چوری کی مرتکب ہو تو وہ جوابدہ رہے گی لیکن اس سے وضو و طہارت حاصل کرنے والوں کے وضو اور طہارت میںکوئی اثر واقع نہیں ہوگا۔ اسلام ایک عالی مذہب ہے، مسلمان قوم دوسری قوموں کے لئے نمونہ ہے اس لئے اس طرح کا عمل، مسجد کمیٹی کو نہیں کرنا چاہئے ۔ اس کے لئے مصارف زیادہ ہوں تو ذرائع آمدنی میں اضافہ کرنا چاہئے تاکہ غیر توکجا مسلمان کو بھی شک و شبہ نہ رہے۔
نماز فجر گھر میں ادا کرنا
سوال : میں تجارت پیشہ ہوں رات میں دکان بند کر کے دس بجے گھر آتا ہوں اور سونے کے لئے مجھے عموماً دیر ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے میں فجر کی نماز گھر میں ادا کرتا ہوں تو کیا یہ جائز ہے ؟
فاروق علی، کالا پتھر
جواب : اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’’ و ارکعوا مع الراکعین ‘‘ یعنی (رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) کے تحت بالغ مرد پر واجب ہے کہ وہ پانچ نمازیں حتی المقدور مسجد میں یا جماعت ادا کرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ منافقوں کے لئے سب سے بوجھل نماز عشاء اور فجر کی ہے اور اگر انہیں علم ہوتا کہ ان میں کس قدر اجر و ثواب ہے تو وہ ان کے لئے گھٹنوں کے بل چل کر آتے‘‘ (بخاری شریف)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے جو شخص اذان سے اور پھر مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے نہ آئے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی (ابن ماجہ) فقہاء نے اس حدیث کو تاکید جماعت پر محمول کیا ہے ۔ پس غیر عذر والے اصحاب کو مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنا ہوگا اور بغیر عذر کے جماعت ترک کرنا درست نہیں۔

یتیموں کی کفالت
سوال : ہندہ کے ایک بھائی عمر الدین فوت ہوچکے ہیں۔ ان کی ایک لڑکی فاطمہ تقریباً تیرہ سالہ کو اور ایک لڑکے زید تقریباً گیارہ سالہ کو اپنی پرورش میں رکھی اور ان کی تعلیم و تربیت اور ان کے تمام اخراجات و ضروریات کی کفالت کی ۔ ماشاء اللہ اب ان کی عمریں علی الترتیب تریباً 22 ، 20 سال ہے۔ ہندہ کے شوہر اور ہندہ نے ان دونوں کی ولدیت میں از ابتداء تا انتہا ان کے حقیقی والد کا نام ہی لکھوایا۔ ان کے والد کی وفات ہوجانے کے سبب صدر بالا فریضہ ادا کرتے رہے ہیںاور وہ دونوں بھی ہندہ کے زیر پرورش ہیں۔ شرعاً اس طرح مرحوم بھائی کے بچوں کی پرورش و کفالت اپنے پاس رکھ کر کرنا شرعاً غیر درست یا قانون اسلامی کی رو سے منع ہے ؟
نسرین سلطانہ ، محبوب نگر
جواب : اسلام کمزوروں ، محتاجوں ، بیواؤں اور یتیموں کی مدد و دستگیری کی تلقین کرتا ہے ۔ قرآن پاک و احادیث مبارکہ میں اس کی بڑی ترغیبات وارد ہیں۔
یتیم بچوں کی کفالت اور ان کے تمام اخراجات کی تکمیل خورد و نوش و تعلیم و تربیت کی اہم ترین ذمہ داری کو پورا کرنا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بہت پسندیدہ و محمود ہے۔ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیموں کی کفالت پر بڑی خوشخبری ارشاد فرمائی ہے کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں اس طرح جنت میں (یعنی قریب) رہیں گے جیسے کہ شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی قریب ہوتے ہیں۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں انگلیوں سے درمیان میں کچھ کشادگی کے ساتھ اشارہ فرمایا ۔ انا و کافل الیتیم لہ و لغیرہ فی الجنۃ ھکذا و اشار بالسبابۃ والو سطیٰ و فرج بینھما شیئاً رواہ البخاری (مشکوۃ المصابیح ص : 422 باب الشفقہ والرحمۃ علی الخلق)
البتہ شریعت نے اس بات سے منع کیا ہے کہ کسی اور کی اولاد کو اپنی طرف منسوب کیا جائے اور اس کو اپنی اولاد ہونا ظاہر کیا جائے اور ولدیت کی جگہ اس کے حقیقی والد کے بجائے اپنا نام بتایا جائے۔ ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے : اُدعوھم لاٰباھم ھو اقسط عنداللہ … اے ایمان والو (اپنے منہ بولے لڑکوں کو ان کے (حقیقی) باپ کے نام سے پکارو اللہ سبحانہ کے پاس قرین انصاف یہی بات ہے۔
ہندہ نے اپنے کے ایک لڑکا و لڑ کی کی صغر سنی سے پرورش کر کے ان کی تعلیم و تربیت و دیگر ضروریات زندگی کی کفالت کی ہے اور ان کو اپنی طرف اور اپنے شوہر کی طرف منسوب نہیں کیا ہے بلکہ ان کے حقیقی والد مرحوم ہی کی طرف ان کو منسوب کیا ہے تو شرعاً یہ امر منع نہیں بلکہ قابل تحسین و لائق تقلید ہے۔

حضرت نوح کو آدم ثانی کہنا
سوال : حضرت آدم علیہ السلام پہلے پیغمبر ہیں اور حضرت نوح علیہ السلام کو آدم ثانی کہا جاتا ہے ۔ کیا حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان کوئی پیغمبر ہوئے ہیں اور کیا حضرت یونس علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے ہیں یا بعد میں ؟
(2 نماز فجر کے فرض کے بعد اور نماز عصر کے فرض کے بعد تسبیح فاطمہ پڑھ کر ہتھیلیوں پر پھونک کر بدن پر ملنا کیا ہے ؟ کیسا ایسا کرسکتے ہیں ؟
(3 سورج کی تمازت سے جو پانی گرم ہوتا ہے اس سے وضو کرنا کیسا ہے ؟
حافظ کمال الدین، ملک پیٹ
جواب : حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ ا لسلام کے درمیان متعدد انبیاء جیسے حضرت شیث ، حضرت آنوش ، حضرت اخنون یعنی حضرت ادریس کے علاوہ دیگر انبیاء علیھم السلام کا بھی ذکر ملتا ہے ۔ حضرت نوح کے زمانے میں طوفانِ نوح کی بناء ساری دنیا غرق ہوکر ختم ہوگئی تھی، پھر حضرت نوح علیہ السلام ، بعد طوفان پہلے نبی تھے۔ پھر ایک نئی دنیا کا وجود ہوا، اس لئے آپ کو آدم ثانی بھی کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کئی انبیاء اور کئی صدیوں بعد حضرت یونس علیہ السلام کا عہد شروع ہوتا ہے۔
(2 احادیث مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرمانے سے قبل ’’ معوذتین‘‘ اور دیگر آیات قرآنی تلاوت فرماکر دم کرلیا کرتے تھے ۔ لہذا اگر کوئی بعد نماز فجر اور بعد نماز عصر تسبیح فاطمی پڑھ کر ہتھیلیوں پر پھونک کر بدن پر مل لے تو شرعاً کوئی حرج نہیں۔
(3 سورج کی تمازت سے گرم ہوئے پانی سے شرعاً وضو کیا جاسکتا ہے۔ طبی نقطہ نظر سے کوئی بات ہو تو وہ الگ بات ہے۔