مسجد کے علاوہ نماز کیلئے مختص جگہ میں نماز کا حکم

سوال : میں امریکہ میں مقیم ہوں، میرے ساتھ چند مسلم نوجوان ہیں۔ ہمارے محلہ میں مسجد نہیں ہے ، معلوم کرنا یہ ہے کہ اگر کسی آبادی سے مسجد کچھ کم یا زائد تین کیلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہو کہ جس کی وجہ سے مسلمانوں کا نماز پنجگانہ میں شریک ہونا دشوار ہو اور ایسی صورت میں مقامی مسلمان کسی ایک مکان کو مرکز بنائیں اور وہاں جمع ہوکر نماز پنجگانہ کا باجماعت اہتمام کریں تو جماعت کا ثواب اور مسجد میں نماز ادا کرنے کی فضیلت حاصل ہوگی یا نہیں ؟
حافظ مصلح الدین، ای میل
جواب : کسی مسلم آبادی سے مسجد دور ہونیکی وجہ اگر وہاں کے مسلمان کسی مکان کو عارضی طور پر باجماعت نماز ادا کرنے کے لئے مختص کرلیں تو بفحوائے حدیث پاک ’’ صلوٰۃ الرجل فی جماعۃ تضعف علی صلوٰتہ فی بیتہ و فی سوقہ خمسا و عشرین ضعفا … صلوٰۃ الجماعۃ افضل من صلوٰۃ الف بسبع و عشرین (رواہ البخاری) پچیس گنا یا ستائیس گنا مضاعف اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے ۔ تاہم مسجد کی فضیلت جو احادیث میں وارد ہے وہ اس عارضی مکان کو نہ فضیلت حاصل رہے گی نہ ہی آداب مسجد اس میں شرعاً ملحوظ رہیں گے چونکہ اسلامی معاشرہ میں مسجد کو بنیادی اہمیت و مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ ہجرت فرماکر سب سے پہلے اپنے اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مل کر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر فرمائی۔ حدیث پاک میں وارد ہے کہ قیامت کی ہولناک گھڑی میں جہاں جہاں لوگ گرمی کی شدت سے اپنے اعمال کے مطابق پسینہ میں شرابور ہوں گے اور جہاں حصول راحت کیلئے کوئی سایہ نہ ہوگا ، حق سبحانہ و تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے سات قسم کے لوگوں کو عرش کے سایہ میں جگہ عطا فرمائیں گے ، انہیں میں سے ایک وہ بھی ہیں جن کے قلوب مسجد میں لگے رہیں گے۔ قلبہ معلق فی المساجد (بخاری، مسلم بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح) اور ایک حدیث پاک میں ہے کہ اللہ کے وہ نیک بندے جو صبح و شام مساجد کا رخ کرتے ہیں ، حق سبحانہ تعالیٰ ان کے لئے جنت میں مہمانی کا سامان مہیا فرماتا ہے ۔ من غدا الی المسجد اوراح اعداللہ لہ نزلہ من الجنۃ کلما غدا اوراح (بخاری، مسلم بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح)۔ ایک مرتبہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ تم جنت کے باغوں سے گزرو تو اپنے آپ کو خوب سیراب کرلو ۔ عرض کیا گیا جنت کے باغ کونسے ہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ ’’مساجد‘‘ ہیں۔
عن ابی ھریرۃ رصی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا مرر تم بریاض الجنۃ فارتعوا ۔ قیل یا رسول اللہ و ما ریاض الجناۃ قال المساجد ( مشکوٰۃ المصابیح ص : 70 بحوالہ ابو داؤد) ۔ نیز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ روئے زمیں پر سب سے بہترین اور خیر کے حامل مساجد ہیں ۔ ’’ خیر البقاع مساجد‘‘ بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح ص : 71 ۔ ( ابن حبان ) مذکورہ آبادی کے مسلمانوں کو چاہئے کہ مسجد کی تعمیر کا اہتمام کریں تاکہ وہاں کے مسلمان مسجد کے مذکورہ بالا برکات و ثمرات سے بہرہ مند ہوسکیں۔

پیامات سنٹر کے ذریعہ کمائی
سوال : ایک خاتون اپنے مکان پر بنام ’’ پیامات سنٹر‘‘ ایک ادارہ چلاتی ہے، جس سے ضرورت مند اصحاب رجوع ہوتے ہیں اور وہ خاتون رشتوں کے جوڑنے میں مدد کرتی ہے ۔ دونوں فریق سے بات چیت و ملاقات کے ضمن میں آمد و رفت کے اخراجات کے علاوہ محنت اور وقت بھی صرف ہوتا ہے، نیز مکانات و زمینات کی خرید و فروخت میں بھی وہ رہنمائی کرتی ہے اور اپنا وقت و سرمایہ صرف کرتی ہے ۔ ان امور کی انجام دہی سے اس کو کچھ رقمی معاوضہ حاصل ہوتا ہے ۔ شرعاً اس کا حصول جائز ہے یا نہیں ؟
محمد مومن ، بورہ بنڈہ
جواب : مذکورہ در سوال جیسے امور میں دونوں فریق کے درمیان موافقت و جوڑ پیدا کرنے کا فریضہ انجام دینے والے فرد کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ سمسار‘‘ کہتے ہیں۔ فقہاء کرام نے ’’ سمسار‘‘ کیلئے اجر مثل کو جائز قرار دیا ہے، اجر مثل سے اس جیسی خدمت پر عرفاً جو معاوضہ لیا جاتا ہے یا اس جیسی محنت پر جو معاوضہ دیا جاتا ہے وہ مراد ہے جیسا کہ عالمگیری ج 4 ص : 441 میں ہے ۔ ذکر محمد رحمۃ اللہ تعالٰی الحیلۃ فی استیجار السمسار وقال یامرہ ان یشتری لہ شیئا معلوما أو یبیع ولا یذکر لہ اجراثم یواسیہ اماھبۃ أوجزاء للعمل فیجوز ذلک بمساس الحاجۃ و اذا اخذ السمسار اجر مثلہ ھل یطیب ذلک تکلموا فیہ ۔ قال الشیخ الامام المعروف بحواھر زادہ یطیب لہ ذلک و ھکذا من غیرہ والیہ اشار محمد رحمہ اللہ تعالیٰ فی الکتاب ھکذا فی فتاوی قاضی خاں۔
شادی بیاہ کے معاملات میں عام طور پر رشتہ جوڑنے والے لین دین کی قیمت پر مقررہ کمیشن وصول کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو شرعاً جائز نہیں۔ البتہ محنت کا معاوضہ عرفاً جو ہوسکتا ہے وہ لیا جکاسکتا ہے ۔ نیز رشتہ جوڑنے میں جھوٹ سے کام نہ لیں۔

امامت اور عمامہ کا اہتمام
سوال : امام صاحب کو بوقت نماز عمامہ کا اہتمام کرنا چاہئے یا نہیں۔ شرعاً اس بارے میں کیا حکم ہے ؟
محسن فاروقی ، ملے پلی
جواب : نماز کی ادائیگی کے وقت زینت کا اہتمام یعنی شرعی وضع قطع و ہئیت پسندیدہ امر ہے ۔حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام و تابعین عظام اور صالحین امت کا یہی معمولی رہا ہے ۔ اس اہتمام زینت میں عمامہ بھی شامل ہے، بوقت نماز عمامہ کا اہتمام خواہ مقتدی ہو کہ امام کئی گنا اجر و ثواب کا موجب و باعث فضیلت ہے۔ دیلمی نے اپنی سند میں یہ روایت نقل کی ہے کہ عمامہ کے ساتھ ادا کی گئی نماز اس کے بغیر ادا کی گئی، نماز سے پچیس گنا زیادہ ثواب رکھتی ہے۔ علی ہذا نماز جمعہ کا ثواب اسکے ساتھ ستر جمعہ کی فضیلت رکھتا ہے ۔ نیز جمعہ کے دن فرشتہ عمامہ باندھ کر آتے ہیں اور عمامہ کے ساتھ نماز ادا کرنے والوں کیلئے غروب آفتاب تک دعا کرتے ہیں۔ صلاۃ بعمامۃ تعدل بخمس و عشرین صلاۃ و جمعۃ بعمامۃ تعدل سبعین جمعۃ و فیہ ان الملائکۃ تشھدون الجمعۃ معتمین و یصلون علی اھل العمائم حتی تغیب الشمس ۔ مقتدی کے بالمقابل امام صاحب پر زائد ذمہ داری ہے کیونکہ شرائط امامت میں جو اوصاف شرعاً ملحوظ ہیں وہ مقتدی میں نہیں اس لئے امام صاحب کو چاہئے کہ وہ عمامہ کا ضرور اہتمام کریں۔

نام احمدﷺ اور نام محمدﷺ
سوال : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک میں دو نام بہت مشہور ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، احمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔
میں نے سنا کہ حضور کا نام آپ سے پہلے کسی کا نہیں رکھا گیا تھا ۔ وہ کونسا نام پاک ہے ۔ نیز مذکورہ دونوں ناموں کے معنی و مفہوم کیا ہے ۔ اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں تو مہربانی ہوگی ؟
حافظ عبدالرحمن ، چراغ علی نگر
جواب : حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسمائے گرامی محمدؐ اور احمدؐ کا مادہ حمد ہے اور حمد کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کے اخلاق حسنہ اوصاف حمیدہ ، کمالات جمیلہ اور فضائل و محاسن کو محبت ، عقیدت اور عظمت کے ساتھ بیان کیا جائے ۔ اسم پاک محمدؐ مصدر تحمید (باب تفعیل) سے مشتق ہے اور اس باب کی خصوصیت مبالغہ اور تکرار ہے ۔ لفظ محمد اسی مصدر سے اسم مفعول ہے اور اس سے مقصود وہ ذات بابرکات ہے جس کے حقیقی کمالات ، ذاتی صفات اور اصلی محامد کو عقیدت و محبت کے ستاھ بکثرت اور بار بار بیان کیا جائے ۔لفظ محمد میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ وہ ذات ستودہ صفات جس میں خصال محمودہ اور اوصاف حمیدہ بدرجہ کمال اور بکثرت موجود ہوں ۔ اسی طرح احمد اسم تفضیل کا صیغہ ہے ۔ بعض اہل علم کے نزدیک یہ اسم فاعل کے معنی میں ہے اور بعض کے نزدیک اسم مفعول کے معنی میں اسم فاعل کی صورت میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش کرنے والا اور مفعول کی صورت میں سب سے زیادہ تعریف کیا گیا اور سراہا گیا۔ (الروض العرب اور تاج العروس ، بذیل مادہ) ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے زمانہ جاہلیت میں صرف چند اشخاص ایسے ملتے ہیں جن کا نام محمد تھا ۔ لسان العرب اور تاج العروس میں سات آدمیوں کے نام ضبط کئے ہیں۔ ان لوگوں کے والدین نے اہل کتاب سے یہ سن کر کہ جزیرۃ العرب میں ایک نبی ظاہر ہونے والے ہیں ان کا نام محمد ہوگا ، اس شرف کو حاصل کرنے کے لئے یہ نام رکھ لیا۔ البتہ کسی نے احمد نام نہیں رکھا۔ مشیئت الٰہی دیکھئے کہ محمد نام کے ان لوگوں میں سے کسی نے بھی نبوت و رسالت کا دعویٰ نہیں کیا ۔ فتح الباری 7 : 404 ، 405 ) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اسم گرامی احمد قرآن مجید میں صرف ایک مر تبہ مذکور ہے اور وہ بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی پیشگوئی کے طور پر : و مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد (61 (الصف) : 6 ) ، یعنی میں (عیسی) اس پیغمبر کی بشارت سناتا ہوں جو میرے بعد آئیں گے اور جن کا نام احمد ہوگا ۔ آپؐ کا اسم گرامی محمدؐ چار مرتبہ قرآن مجید میں آیا ہے اور ہر مرتبہ آپؐ کے منصب رسالت کے سیاق و سباق میں : (۱) و ما محمد الا رسول (۳ (آل عمران ) : 144 ) ، یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو اللہ کے رسول ہیں ۔ (۲) ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللہ و خاتم النبین (33 (الاحزاب) : 40 ) ، یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے رسول اور انبیاء (کی نبوت) کی مہر یعنی اس کو ختم کردینے والے ہیں، (۳) والذین اٰمنو وعملو الصلحت وامنوا بما نزل علی محمد و ھو الحق من ربھم ۔ کفر عنھم سیاتھم و اصلح بالھم (47 (محمد) یعنی اور جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور جو (کتاب) محمدؐ پر نازل ہوئی اسے مانتے رہے اور وہ ان کے رب کی طرف سے برحق ہے ان سے ان کے گناہ معاف کردئے اور ان کی حالت سنوار دی۔ (۴) محمد رسول اللہ (48 (الفتح) : 29 ) ، عینی محمد اللہ کے رسول ہیں۔ ان چاروں آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام لے کر آپؐ کی رسالت و نبوت کے منصب کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے تاکہ کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔
اسی مناسبت کی بناء پر آپؐ نے اور آپؐ کی امت نے دنیا کی تمام قوموں اور امتوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش کی اور قیامت تک کرتی رہے گی۔ ہر کام کے آغاز و اختتام پر اللہ تعالیٰ کی تعریف اور حمد کا حکم دیا گیا اور امت کا ہر فرد یہ فریضہ انجام دے رہا ہے ۔ بالکل اسی طرح حضور پاک صلی اللہ علہ و آلہ وسلم کے محامد و محاسن اور خصال محمودہ، اوصاف حمیدہ اور فضائل و کمالات کا بیان اور ذکر جس کثرت سے کیا گیا ہے اور ابد تک کیا جاتا رہے گا اس کی مثال بھی دنیا میں نہیں مل سکتی۔

کیا نکاح میں نامحرم گواہ رہ سکتا ہے ؟
سوال : دور حاضر میں نکاح کے وقت نوجوانوں کی گواہی کو افضلیت دی جارہی ہے اس لئے چچا زاد ، خالہ زاد ، ماموں زاد بھائیوں کو گواہ میں شامل کیا جارہا ہے ۔ کیا نکاح میں نامحرم گواہ رہ سکتا ہے ؟
نام ندارد
جواب : گواہ کا عاقل و بالغ ہونا ، آزاد ہونا اور مسلمان ہونا ضروری ہے۔ محرم اور غیر محرم کی کوئی قید نہیں۔ اس لئے چچا زاد ، خالہ زاد ، مامو زاد بھائی جبکہ وہ عاقل و بالغ آزاد مسلمان ہوں گواہ ہوسکتے ہیں۔

تہجد کا وقت
سوال : نماز تہجد کا ابتدائی اور انتہائی وقت کیا ہے ؟ کیا نماز فجر کے ابتدائی وقت سے دس (10) منٹ پہلے نماز تہجد ادا کی جاسکتی ہے اور کیا نماز تہجد کو سوکر اٹھنا ضروری ہے ؟
کہکشاں شبنم، دبیرپورہ
جواب : تہجد کا وقت عشاء کی نماز کے بعد فجر سے پہلے تک ہے، بہتر یہ ہے کہ عشاء کی نماز پڑھ کر سوجائے پھر آدھی رات کے بعد اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھے اور اس کے بعد وتر پڑھے ۔ بشرطیکہ جاگنے کا اطمینان ہو ورنہ وتر کی نماز عشاء کے ساتھ پڑھ لے۔ پس فجر کے ابتدائی وقت سے دس منٹ قبل نماز تہجد ادا کی جاسکتی ہے ۔