مسجد میں بلند آواز سے تلاوت

سوال :  بعض ضعیف حضرات فجر کی نماز کے بعد مسجد میں بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں ۔ کیا مسجد میں بلند سے قرآن کی تلاوت جائز ہے یا نہیں ؟
نور احمد، مستعد پورہ
جواب :  مساجد اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے ہے اور مسجد میں قرآن مجید کی تلاوت آہستہ و بلند آواز سے درست ہے۔ البتہ گرد وپیش میں لوگ نماز پڑھ رہے ہوں تو آہستہ تلاوت کرنی چاہئے تاکہ نمازیوں کو خلل نہ ہو
مذکورہ درسوال صورت میں بعض ضعیف العمر بعد نماز فجر بلند آواز سے تلاوت کرتے ہیں تو شرعاً اس میں ممانعت نہیں۔ اگر دیگر ذکر و شغل میں مصروف حضرات کو خلل کا اندیشہ ہو تو حکم یہی ہے کہ آہستہ پڑھے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ ایک دن آپ مسجد میں تشریف لائے ، آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں اور کچھ بلند آواز سے تلاوت کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ تم میں سے ہر شخص اپنے رب سے سر گوشیاں کر رہا ہے لہذا ایک دوسرے کو تکلیف نہ دو ‘‘۔

ذبیحہ کی حکمتیں
سوال :  انگریزی ممالک میں آج کل حلال حرام کا کوئی تصور نہیں عموماً گوشت حرام ہوتا ہے، بغیر ذبح کیا ہوا ہوتا ہے اور مسلمان بلا کسی پس و پیش حرام جانوروں اور بغیر ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں۔
الحمدللہ ہمارے حیدرآباد  میں حلال گوشت کا اہتمام ہوتا ہے ۔ لیکن ذبح کے وقت جو طریقہ ہونا چاہئے اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ جانوروں کو تکلیف دی جاتی ہے ۔ براہ کرم شرعی نقطہ نظر سے جانور ذبح کرنے کا اسلامی طریقہ کیا ہے اور جانوروں کو ذبح کرنے کا مقصد اور فائدہ کیا ہے بیان کریں ؟
عبدالواحد، مانصاحب ٹینک
جواب :  ذبح کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹایا جائے کہ جانور کا رخ قبلہ کی طرف ہو۔ جانور کو ذبح کرنے کے لئے آلہ تیز ہونا چاہئے تاکہ وہ غیر ضروری اذیت سے محفوظ رہے ۔ بہت سے جانوروں کو ایک ہی دفعہ اکھٹا ذبح کرنا مکروہ ہے۔ اسی طرح یہ بھی مکروہ ہے کہ ٹھنڈا ہونے سے پہلے جانور کے کسی عضو کو کاٹ کر الگ کردیا جائے یا اس کی کھال اتار دی جائے۔
ذبح کی ان سب احتیاطوں میں (شرعی اصطلاح میں) ’’ حلال ‘‘ طعام کا تصور مدنظر ہے، یعنی جانور ، مجموعی طور سے زہروں سے پاک ہو اور ایسا ہو جس سے زندگی کی حالت میں کوئی کراہت یا نجاست یا کثافت خاص وابستہ نہ ہو۔ ذبح کیا ہوا جانور ہر زہریلے مادے سے پاک ہونا چاہئے اور کوشش یہ ہو کہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو اور جتنی تکلیف دی جارہی ہے اسے بشری ضرورتوں کے لئے اضطراری بات سمجھ کر ، خدا کے پاک تصور سے وابستہ کر کے ایک تمدنی اجازت کے طور پر روا سمجھا  گیا ہے اور ایذا رسانی کے ہر شائبے سے پاک ہے۔

مسافر کا اپنے شہر میں رک کر دوسرے مقام کا سفر کرنا
سوال :  حال میں عجیب اتفاق ہوا میں گلبرگہ روانہ ہوا، وہاں اپنے کام کاج سے فارغ ہوکر دوسرے دن تقریباً پانچ بجے اپنے شہر حیدرآباد پہنچا لیکن میں اپنے گھر نہیں گیا، سیدھا رنگ روڈ سے ہوتا ہوا محبوب نگر کے لئے روانہ ہوگیا ۔ تھوڑے ہی دیر میں عصر کا وقت ہوا تو مجھے شبہ ہوا کہ مجھے دو رکعت پڑھنا چاہئے یا پھر چار رکعت بالآخر میں نے چار رکعت پڑھ لئے ۔ ایسی صورت  میں شرعی دو رکعت پڑھنا چاہئے یا چار رکعت ؟
محمد کامران، ریڈہلز
جواب :   اگر مسافر اپنے شہر میں داخل ہوجائے تو وہ نماز مکمل پڑھے گا قصر نہیں کرے گا ، گرچہ وہ اس میں ٹھہرنے کی نیت نہ کیا ہو، محض ضرورت کی تکمیل کے لئے تھوڑے سے لمحہ کے لئے بھی اپنے شہر میں داخل ہو اور نماز کا وقت ہوا تو اس کو مکمل نماز پڑھنا لازم ہوگا ۔ عالمگیری جلد اول ص : 143 میں ہے : و اذا دخل المسافر مصرہ اتم الصلوۃ و ان لم ینو الاقامۃ فیہ سواء دخلہ بنیۃ الاختیار او دخلہ لقضاء الحاجۃ کذا فی الجوھ رۃ النیرۃ۔
پس صورت مسئول عنہا میں اگر آپ نے گلبرگہ سے واپس ہوتے ہوئے محبوب نگر جانے کے دوران حیدرآباد سے گزرے ہیں اور عصر کی نماز آپ نے حیدرآباد میں ادا کی تو آپ کو چار رکعت ہی ادا کرنا تھا۔ آپ نے صحیح عمل کیا ہے ۔

میت کو کاندھا دینا مسنون ہے
سوال :  نماز جنازہ پڑھنا اور قبرستان کو جانا اور تدفین تک قبرستان میں رہنا باعث اجر و ثواب ہے، لیکن بعض لوگوں کو میں نے دیکھا کہ وہ بڑے جوش و خروش سے جنازہ کو کاندھا دینے کے لئے دوڑتے ہیں اور اس کے لئے بڑی جدوجہد کرتے ہیں۔
شرعی نقطہ نظر سے میت کو کاندھا دینا بھی کیا نیکی ہے ؟ اس کے متعلق شرعی احکام سے واقف کرائیں تو مہربانی ہوگی ؟
محمد فیضان،تارناکہ
جواب :   شرعاً میت کو کاندھا دینا عبادت ہے، اس لئے ہر ایک کے لئے مناسب ہے کہ وہ کاندھا دینے کے لئے سبقت کرے کیونکہ کاندھا دینا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے ثابت ہے ۔ چنانچہ زرقانی شرح مواھب لدنیہ میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عبادۃؓ کے جنازہ کا کاندھا دیا ہے ۔ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص : 399 میں ہے : و حمل الجنازۃ عبادۃ فینبغی لکل أحد ان یبادرالیھا فقد حمل الجنازۃ سیدالمرسلین فانہ حمل جنازۃ سعد بن عبادۃ نقلہ السید عن الجوھرۃ۔

خلع کے بعد دوبارہ نکاح
سوال :  میاں بیوی آپسی رضامندی سے خلع حاصل کرنے کے بعد ایک دوسرے سے اندرون مدت ایک ہفتہ رجوع ہوسکتے ہیں کیا ؟
نام…
جواب :  شوہر نے بیوی کی درخواست خلع کو قبول کر کے ایک طلاقِ بائن دی تھی (تین نہیں) بعد ازاں وہ دونوں راضی ہوں تو اندرون عدت (تین حیض)یا بعد  ختم عدت جب چاہیں دوبارہ عقد کرلے سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں شوہر کو آئندہ صرف دو طلاق کا حق رہے گا۔

بیوی کا دعوائے طلاق اور شوہر کا انکار
سوال :  زید نے آپسی تکرار میں اپنی زوجہ ہندہ پر ہاتھ اٹھایا اور گھر سے باہر نکل آیا اب اس کے بعد ان کی زوجہ کا دعویٰ ہے کہ اس کے شوہر نے اس کو تین سے زائد مرتبہ طلاق دے چکا ہے جبکہ شوہر اس کا سخت انکار کر رہا ہے کہ اس نے لفظ طلاق زبان سے ادا ہی نہیں کیا۔ جبکہ زوجہ گواہی میں اپنی والدہ اور اپنی بھاوج کو پیش کر رہی ہے۔ شوہر کا کہنا ہے کہ اس واقعہ پرمیری والدہ اور پانچ بہنیں موجود تھیں جو اس بات کا انکار کررہی ہے اور کہہ رہی ہیں کہ زید نے اپنی زوجہ کو طلاق نہیں دی ہے ۔ ایسی صورت میں شرعاً طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟
محمد رفیع، مرادنگر
جوا ب : زوجہ طلاق کا دعویٰ کرے اور اس کے دعویٰ پر بینۂ شرعی دو مرد یا ایک مرد دو عورتوں کی گواہی ہو تو اس کا دعویٰ ثابت ہوکر طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ (و) نصابھا (لغیرھامن الحقوق سواء کان) الحق (مالا أو غیرہ کنکاح و طلاق) … (رجلان او رجل و امرأتان) (شامی کتاب الشبھارۃ) صورت مسئول عنہا میں ہندہ کے دعویٰ طلاق پر ثبوت شرعی موجود نہیں ہے۔ اس لئے مذکورہ صورت میں جب زوج زید کو طلاق دینے سے انکار ہے اور وہ انکار پر حلف اٹھائے تو ایسی صورت میں شرعاً زوج کا قول معتبر ہے اور جب زوج حلف اٹھالے تو بیوی پر اس کی اطاعت لازم ہے۔ سئل فی رجل حصل بینہ و بین صھرہ مشاجرۃ و منافسۃ فادعت زوجتہ بانہ طلقھا عنادا مع زوجھا فانکر دعواھا فھل اذا الم تقم علیہ بینۃ بالطلاق یکون القول قولہ بیمینہ فی عدم الطلاق المدعی بہ و علیھا اطاعتہ ؟ اجاب القول للزوج بیمینہ حیث لابینۃ للزوجۃ علی دعواھا الطلاق (کتاب الطلاق فتاوی مہدیہ مصری جلد 1 ص : 174 ) ۔

طہارت کا ایک مسئلہ
سوال :  احقر کو طہارت کے سلسلے میں ایک مسئلہ درپیش ہے۔ براہ کرم آپ کے ہفتہ واری کالم میں جواب دینے کی زحمت فرمائیں تو عین نوازش ہوگی۔ ’’ زید کو اکثر اپنی اہلیہ سے قربت کی وجہ سے ایک لیس دار مادہ خارج ہوتا ہے جس کو طبی اصطلاح میں ’’ جریانِ مذی‘‘ کہا جاتا ہے ۔ (جو عضو مخصوص سے خارج ہوتا ہے ) میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس کی وجہ سے غسل فرض ہوجاتا ہے ؟ یا صرف اس حصہ کو پانی سے دھوکر کپڑے تبدیل کئے جاسکتے ہیں اور نماز فجر ادا کی جاسکتی ہے۔ چونکہ نماز فجر کا وقت بہت تنگ ہوتا ہے ۔ براہ کرم جواب سے سرفراز فرمائیں، مہربانی ہوگی۔
نام ندارد
جواب :   شرعاً خروج منی سے غسل واجب ہوتا ہے اور ’’ مذی‘‘ اور ’’ ودی‘‘ سے وضو واجب ہوتا ہے ۔ لہذا حسب صراحت سوال جریان مذی سے وضو واجب ہوگا (بشرطیکہ منی نہ ہو) اور آلودہ مقام و کپڑا دھولیا جائے تو پاک ہوجائے گا۔

غیر مسلم کمپنی سے زائد رقم لینا
سوال :   ہندوستان میں فی زمانہ ایک مسلمان، غیر مسلم کمپنی کو روپیہ دے کر اس سے زائد رقم لینا سود ہے یا نہیں ؟ اگر کوئی ایسا عمل کرتا ہے تو اس کے گھر کھانا یا اس کی دعوت قبول کرنا جائز ہے یا کیا ؟
نام ندارد
جواب :  ہندوستان یا کسی غیر اسلامی ممالک میں کوئی مسلمان، غیر مسلم شخص کو رقم دے کر اس سے زائد رقم لے تو شرعاً وہ ’’ ربا ‘‘ (سود) نہیں ہے۔ صاحب ہدایہ نے حدیث شریف ’’ لا ربو… ولا بین المسلمہ والحربی فی دارالحرب نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں ’’ ولأن مالھم مباح فی دارھم فبای طریق أخذہ المسلم أخذ مالا مباحا اذا لم یکن فیہ غدر ۔
پس صورت مسئول عنہا میں کوئی مسلمان ، غیر مسلم کمپنی کو روپئے دیکر بغیر کسی دھوکہ کے اس سے زائد رقم لیتا ہے تو اس کے ہاں کھانا کھانے یا اس کی دعوت قبول کرنا جائز ہے۔