مسجد میاں مشک پرانا پل کی اراضی پر ناجائز قبضہ برخاست کرانے میں وقف بورڈ کامیاب

جلال الدین اکبر کی کاوش کامیاب

ابو ایمل
حیدرآباد 29 نومبر ۔ حیدرآباد کا پرانا پل ایک ایسا مقام ہے جس کے بارے میں ہر کس و ناکس اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ بھی نئے پُل، مسلم جنگ پُل اور چادرگھاٹ پُلوں کی طرح ایک پُل ہے۔ اس کے اطراف و اکناف ہندو آبادی کی اکثریت ہے لیکن مسلمانوں کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہیں ایک 450 سالہ قدیم مسجد میاں مشک ہے جہاں گزشتہ 2 ماہ سے مسجد کی اراضی پر ایک غیر مسلم شخص پلاسٹک اور بمبوؤں کی بنیاد پر ایک عارضی دوکان ڈال کر تصاویر فروخت کررہا تھا اور مسجد کمیٹی نے بھی اس معاملہ پر بالکل چُپ سادھ رکھی تھی لیکن مقامی افراد خاموش نہیں رہ سکے۔ انھوں نے اس کی اطلاع وقف بورڈ کو دی جس کے بعد وقف بورڈ کے اسپیشل آفیسر جلال الدین اکبر نے ٹاسک فورس ٹیم کو روانہ کیا اور اُس شخص کو بتایا گیا کہ اس طرح مسجد کی اراضی پر ناجائز قبضہ کرتے ہوئے وہ دیوی دیوتاؤں کی تصاویر فروخت نہیں کرسکتا۔ لہذا بہتر یہی ہوگا کہ وہ خود آگے آکر اپنی عارضی دوکان کو برخاست کردے اور الحمدللہ ہوا بھی کچھ ایسا ہی! اُس شخص نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی عارضی دوکان کو برخاست کردیا۔ حسن سلوک اور اچھے اخلاق سے اگر معاملت کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ آپ کی بات نہ مانیں۔ دوکان کی برخاستگی کے بعد اُس شخص کو وقف بورڈ کے دفتر لیجایا گیا جہاں اُسے اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ آئندہ اپنی اس عارضی دوکان کو وہاں ایستادہ نہیں کرے گا۔ قارئین کو بتاتے چلیں کہ اس قدیم ترین مسجد کی اراضی 5 ایکڑ 3 گنٹے پر محیط ہے جس میں 99 ملگیاں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اضلاع کے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے لئے 35 کمروں کا ہاسٹل بھی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مسجد کی ملگیوں کا کرایہ آج کے اس مہنگائی کے دور میں بھی 60 تا 70 روپئے ماہانہ ہے جبکہ ایک فکر انگیز بات یہ ہے کہ وقف بورڈ کے ریکارڈ کے مطابق ملگیوں کا کرایہ بورڈ کو باقاعدگی سے موصول نہیں ہورہا ہے۔ اگر اس جانب توجہ دی جائے تو وقف بورڈ کی کئی ایکڑ اراضیات پر ناجائز قبضوں کو برخاست کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کرایہ میں بھی اضافہ کیا جائے تو اس سے وقف بورڈ کی آمدنی میں بھی قابل لحاظ اضافہ ہوگا اور اس زائد آمدنی کو اسلامی امور کے فروغ میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ وقف بورڈ کی آڈٹ رپورٹ کو بھی 2002 ء سے اب تک مینٹین نہیں کیا گیا ہے۔ اُس ہندو شخص سے بات کرنے پر اُس نے بتایا کہ وہ اب دیوی دیوتاؤں کی تصاویر فروخت نہیں کرے بلکہ وقف بورڈ کو درخواست دیتے ہوئے اجازت ملنے پر پینٹینگس فروخت کرے گا۔ شاید اُس کا یہ خیال تھا کہ دیوی دیوتاؤں کی تصاویر فروخت کرنے کی وجہ سے وقف بورڈ نے اس کے خلاف کارروائی کی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسجد کی اراضی سے ناجائز قبضہ کو برخاست کیا گیا ہے اور وہ بھی انتہائی محتاط انداز میں کیونکہ ذرا سا اشتعال اس پورے معاملہ کو فرقہ وارانہ رنگ بھی دے سکتا تھا۔ بہرحال جلال الدین اکبر صاحب نے مسجد میاں مشک کی اراضی پر ناجائز قبضہ کو برخاست کرکے وہاں رہنے والے اُن مسلمانوں کی تشویش اور فکر کو دور کردیا جو مسجد کی اراضی پر گزشتہ دو ماہ سے جاری ناجائز قبضہ سے پریشان اور بے چین تھے۔