مسجد عائشہ سے عمرہ کا احرام

سوال :   زید پندرہ روزہ عمرہ کے سفر پر پہلے مکہ مکرمہ بعدہ مدینہ منورہ کے روحانی سفر پر گیا تھا ۔ مکہ شریف میں ہندوستان سے احرام باندھ کر نکلے تھے۔ لہذا پہلے ایک عمرہ راست مکہ شریف پہنچتے ہی ہم (زید) نے ادا کیا پھر چونکہ اور سات دن مکہ میں قیام تھا لہذا ایک روز عمرہ کی ادائیگی الحمدللہ زید نے کی اس کے لئے احرام باندھنے زید بعد غسل مسجد عائشہ جاکر وہاں دو رکعت نماز کی ادائیگی کے بعد احرام باندھ کر وہاں سے نئے عمرہ کی تلبیہ پڑھتا اور تمام عمرہ کے مناسک ادا کرتا رہا ۔ جب مدینہ طیبہ جانا ہوا زیارت روضہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم اور مسجد نبوی میں عبادت کیلئے وہاں ایک ثقہ عالم دین ملے، ان کا کہنا تھا (تبادلہ خیالات کے موقعہ پر ) کہ مکہ شریف میں ہندوستان سے وارد ہونے کے بعد روزانہ عمرہ کا احرام باندھنے کیلئے مسجد عائشہ جانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ مسجد عائشہ کو جانے کیلئے مقامی طور پر آباد شہریوں کو لازم ہے ۔ اس کا لزوم آپ پر نہیں ہے ۔ ان کا اصرار رہا کہ اگر ایسا حدیث و قرآن کی رو شنی میں کوئی ثبوت / دلیل ہے تو ازراہِ کرم ان کے علم میں لائیں۔ لہذا مفتیان کرام سے ادباً التماس ہے کہ آیا بیرون مکہ مکرمہ سے / ہندوستان سے جانے والے عازمین عمرہ کیلئے آیا۔ کیا اس کا لزوم ہے کہ وہ ہر عمرہ کے لئے مسجد عائشہ تک جاکر وہاں سے احرام باندھیں۔ ازراہ کرم اس کے اثبات میں یا ردمیں کوئی حدیث یا فقہ حنفی کی دلیل ہو تو جواب دیکر عنداللہ ماجور و عندالناس شکر گزاری کا موقع عنایت فرمائیں۔
نام …
جواب :  ایک عمرہ کرلینے کے بعد ، معتمر(عمرہ کرنے والا) مکہ میں رہتے ہوئے مزید عمرہ کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ ’’حِل‘‘ کی جانب جائے  اور تنعیم کو جانا (جو’’ حِل‘‘ میں داخل ہے) افضل ہے ۔ عالمگیری جلد اول کتاب المناسک باب المواقیت میں ہے : ووقت المکی للاحرام للحج الحرم و للعمرۃ الحل کذا فی الکافی فیخرج الذی یرید العمرۃ الی الحل من ای جانب شاء کذا فی المحیط والتنعیم افضل کذا فی الہدایۃ۔

مسجد میں نکاح
سوال :  آج کل مسجد میں نکاح کو ترجیح دی جارہی ہے۔ کیا مسجد میں نکاح ضروری ہے ؟ اور اگر مسجد کے علاوہ شادی خانہ میں نکاح انجام پائے تو کیا وہ خلاف سنت ہے ؟
محمد مقصود شریف ، آغا پورہ
جواب :  شریعت مطہرہ میں نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کا نام ہے۔ تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے اعلان کو پسند فرمایا ہے۔ امام نسائی نے نکاح کے اعلان سے متعلق ایک مستقل باب ’’ اعلان النکاح بالصوت و ضرب الدف‘‘ قائم فرمایا اور اس کے تحت ایک حدیث نقل فرمائی : ’’ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصل مابین الحلال و الحرام الدف والصوت فی النکاح ‘‘ (نسائی ج : 2 ص : 75 )
اس حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال و حرام میں تمیز  کے لئے نکاح کے اعلان پر زور دیا۔ چونکہ مسجد، خیر و برکت کی جگہ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب مقام ہے اور اس میں نکاح ہونے سے لوگوں میں نکاح کا اعلان ہوجاتا ہے، اس لئے شریعت میں مسجد میں نکاح مستحسن و پسندیدہ ہے۔ چنانچہ ترمذی شریف، کتاب النکاح، باب اعلان النکاح میں بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ اعلنوا ہذا النکاح  واجعلوہ فی المساجد الخ ‘‘نکاح کا اعلان کرو اور مسجد میں نکاح کرو۔
فقہاء کرام نے مسجد میں نکاح کو مستحب قرار دیا ہے۔ مسجد میں نکاح ہو تو آداب مسجد کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ لیکن مسجد میں نکاح کرنا ہی لازم و ضروری نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بی بی صفیہ سے خیبر و مدینہ کے درمیان جبکہ آپ وہاں تین دن مقیم تھے نکاح فرمایا۔
’’ عن انس قال اقام النبی صلی اللہ علیہ وسلم بین خیبر والمدینۃ ثلاثاً …‘‘ (البخاری ، کتاب النکاح ج : 2 ص : 775 )
اسلام میں نکاح از قسم عبادت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کی پیروی ہے۔ اس میں مقام کی تعین شرعاً مقرر نہیں، بلکہ وہ عاقدین کی صوابدید اور سہولت پر موقوف ہے اس لئے صحابہ کرام مسجد نبوی کا التزام کئے بغیر حسب سہولت نکاح کیا کرتے۔چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پر شادی کی بشاشت اور  پلساہٹ کے آثار ملاحظہ فرمائے تو ارشاد فرمایا ’’ کیا ماجرا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے شادی کرلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے برکت کی دعا کی اور ولیمہ کرنے کا حکم فرمایا ۔
’’ عن انس ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رأی علی عبدالرحمن بن عوف اثر صفرۃ قال : ماھذا ؟ قال تزوجت امرأۃ علی وزن نواۃ من ذھب قال بارک اللہ لک اولم ولو بشاۃ‘‘ (بخاری ۔ کتاب النکاح ج : 2 ص : 775-774 )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند خواتین اور بچوں کو شادی کی تقریب سے واپس آتے ہوئے ملاحظہ فرمایا تو ارشاد فرمایا : تم لوگ میرے نزدیک محبوب لوگوں میں سے ہو۔
’’ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال : ابصرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم نساء و صبیانا مقبلین من عرس فقام فقمنا فقال : اللھم انتم من أحب الناس الی‘‘ (بخاری ، کتاب ال نکاح ج : 2 ص : 778 )
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک غزوہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا جب ہم مدینہ واپس ہورہے تھے تو میں جلدی کرنے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم کیوں جلدی کر رہے ہو؟ میں نے عرض کیا : حال ہی میں میری شادی ہوئی ہے۔
’’ عن جابر قال : کنت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی غزوۃ فلما قفلنا تعجلت علی بعیر قطوف فلحقنی راکب من خلف فالتفت فاذا انا برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ما یعجلک ! قلت انی حدیث عھد بعرس…‘‘ (بخاری شریف ۔ کتاب النکاح ج : 2 ص : 789 )
ان احادیث مبارکہ اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے کہ نکاح کے لئے مسجد کا التزام ضروری نہیں اور اگر شادی خانہ میں سنت کے مطابق عقد کیا جائے تو عقد ، مسجد میں نہ ہونے کی وجہ سے اس کو خلاف سنت نہیں کہا جائے گا۔
مسجد کمیٹی کے ارکان کی ذمہ داریاں
سوال :  کسی مسجد کی انتظامی کمیٹی کے لئے کتنے اراکین کی ضرورت ہوتی ہے؟ اور ان کا انتخاب کس طرح کیا جانا چاہئے؟ اور مسجد کے ارکان بننے کے حقدار کون ہیں؟۔ ایک شخص جو مسجد کے بالکل قریب سکونت رکھتا ہو مسجد کی انتظامی کمیٹی کا رکن بننے کا اہل ہے اور دیگر مساجد کے کمیٹیوں کا بھی رکن بن سکتا ہے؟۔ کسی ایک خاندان کے دو اراکین مسجد کے انتظامی کمیٹی کے رکن بن سکتے ہیں؟۔ مسجد سے متصل مکان میں رہنے والا مسجد کی دیوار پر اپنی دیوار بناکر اونچا کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی ان سوالات کے جوابات شریعت کی روشنی میں عنایت فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔
محمد منہاج قادری، جہاںنما
جواب :  مسجد اور مقاصد مسجد ، اس کے اوقاف کی حفاظت و صیانت کے ساتھ مسجد سے متعلقہ ضروری امور کی تکمیل مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ مذکورہ ذمہ داری کی تکمیل کے لئے حسب ضرورت جس قدر ارکان پر چاہے مشتمل کمیٹی بنائی جا سکتی ہے ، افراد انتظامی کی تعداد کتنی ہو اور ان میں سے ہر ایک کے فرائض و ذمہ داریاں کیا ہونی چاہئے، اس کا تعین خود ارکان انتظامی کا اختیاری عمل ہے۔ مقاصد مسجد کی تکمیل جب ہو رہی ہو تو شریعت طریقہ کار اور افراد کے اختیارات برائے انتظام میں مانع نہیں۔ رکن انتظامی کا فریضہ ہے کہ وہ اخلاص و للہیت کے ساتھ مقاصد مسجد اور اس کے وقف جائیداد کی حفاظت کرے اور اپنی ذمہ داری کو امانت و دیانتداری کے ساتھ ادا کرے۔ حسب صلاحیت مسجد کے قریب رہنے والے فرد کو بھی رکن بنایا جا سکتا ہے ، کسی اور مقام کی دیگر مساجد کا بھی وہ رکن بن سکتا ہے۔ شریعت میں ایسا کوئی خاص قاعدہ مقرر نہیں۔ شریعت کی نظر صرف مقصود پر ہوتی ہے۔ وہ اگر حاصل ہو رہا ہو تو مذکورہ در سوال ایک خاندان کے دو افراد کے رکن ہونے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ وہ مخلص ہوں اور امانت و دیانت کے ساتھ اپنے فریضے کو انجام دیتے ہوں اور مسجد کے مقاصد کی تکمیل اور اس کے اوقاف کی حفاظت کرسکتے ہوں۔ مسجد کی دیوار کا استعمال کسی کے لئے بھی جائز نہیں۔ انتظامی کمیٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا سدباب کرے۔

گناہ کی وجہ رزق میں کمی
سوال :  میں نے تقریر کے دوران ایک مولوی صاحب سے سنا کہ گناہ کے برے اثرات انسان پر پڑتے ہیں اور ظاہری طور پر بھی گناہ کی وجہ سے انسان کے رزق اور مال و دولت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر دنیا میں بہت سے کفار اور مشرکین ہیں جو نہ صرف خدا کی نافرمانی اور گناہ کرتے ہیں بلکہ اس کے وجود کا انکار کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کو بے حساب مال و دولت سے نوازا ہے برخلاف اللہ والے اور نیک لوگ کسمپرسی میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ براہ کرم مجھے تفصیلی جواب دیں کہ کیا گناہ کی وجہ سے رزق میں کمی واقع ہوتی ہے ؟
محمد کاظم علی،مانصاحب ٹینک
جواب :  حدیث شریف سے ثابت ہے کہ آدمی گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے رزق سے محروم ہوتا ہے ۔ عن ثوبان قال قال رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم لایرد القدر الا الدعاء ولا یزید فی العمر الا البروان الرجل  لیحرم الرزق بالذنب الذی یصیبہ ۔ (ابن ماجہ)
حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تقدیر کو کوئی چیز نہیں بدلتی سوائے دعاء کے اور عمر میں کوئی چیز اضافہ نہیں کرتی سوائے نیکی کے اور یقیناً آدمی گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے رزق سے محروم ہوتا ہے۔ ابن ماجہ کے علاوہ یہ حدیث صحیح ابن حبان ، مستدرک للحاکم اور شرح السنۃ للامام البغوی میں موجود ہے۔ حضرت محدث دکن سیدنا عبداللہ شاہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ نے گناہ کے سبب رزق سے محرومی کی بابت دو قول نقل فرمائے ہیں ۔ (1) رزق سے آخرت کا ثواب مراد ہے۔ یعنی آدمی گناہ کی وجہ سے آخرت کے ثواب سے محروم ہوجاتا ہے۔ (2) اس سے دنیوی رزق یعنی مال و دولت اور صحت اور عافیت مراد ہے۔
قال المظھر لہ معنیان احدھما ان یراد بالرزق ثواب الآخرۃ و ثانیھما ان یراد بہ الرزق الدنیوی من المال و الصحۃ والعافیۃ۔ (حاشیہ زجاجۃ المصابیح ج : 4 ص : 84 )
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مسلمان کے ساتھ خاص ہے یعنی اگر کوئی مسلمان گناہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کو گناہ کی وجہ سے دنیا میں عذاب دے اور آخرت میں اس کے درجہ کو بلند کرے۔
ان الحدیث محضوص بالمسلم یرید اللہ بہ ان یرفع درجتہ فی الآخرۃ فیعذبہ بسبب ذنبہ الذی یصیبہ فی الدنیا۔ (مرفات المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح ج : 9 ص : 199 ) اکثر بزرگان دین کے احوال میں دنیوی مسائل و آلام کا ہجوم اور مال و دولت میں جو کمی کے حالات ملتے ہیں ’’ الفقر فخری ‘‘ کے تحت ہیں۔