مسجد النور کا پیغام مسلمانانِ عالم کے نام

محمد مصطفی علی سروری
ڈریل موسیس کی عمر 52 سال ہوچلی تھی۔ ڈریل نے اپنی زندگی کے 13 برس تو جیل میں گذارے تھے سال2006ء میں اس کو ایک سنگین جرم کی پاداش میں جیل کی سزا ہوئی تھی اور جب فروری 2019ء میں ڈریل نے جیل سے باہر قدم رکھا تو بڑا پریشان تھا جب وہ جیل میں گیا تھا اس وقت اس کی عمر 39 برس تھی۔ اب وہ اپنے آپ کو بوڑھا محسوس کر رہا تھا۔ اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ جیل سے باہر نکل آنے کے بعد وہ اپنی زندگی دوبارہ کیسے شروع کرے گا۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے اس کو کچھ مدد ملی تھی لیکن ڈریل کو معلوم تھا کہ اتنی چھوٹی سی رقم سے اس کا کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ گذشتہ 13 برسوں کے دوران جیل کے باہر کی دنیا بہت کچھ بدل گئی تھی۔ خیر ڈریل اب سونچنے لگا تھا کہ وہ اب اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے کے لیے کیا کرے۔ وہ دوبارہ جرائم کی دنیا میں بھی جانا نہیں چاہتا تھا۔ جیل جانے سے پہلے اس کی دو لڑکیاں تھیں۔ اب وہ اپنی لڑکیوں کے پاس جانا بھی نہیں چاہتا تھا۔ ایسے میں کسی نے پریشان حال ڈریل کو بتلایا کہ وہ اپنی نئی زندگی شروع کرنے کے لیے ایک جگہ سے مدد لے سکتا ہے۔ قارئین کرام کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ لوگوں نے ڈریل کو کس جگہ کا پتہ بتلایا ہوگا؟ جہاں سے اس کو مدد مل سکتی ہے جی ہاں ڈریل ایک کرسچین تھا لیکن لوگوں نے اس کو ایک مسجد کا پتہ بتلایا اور کہ وہاں آنے والے لوگ ضرور اس کی مدد کرسکتے ہیں۔

قارئین یہ ڈریل موسس برصغیر ہندوستان، پاکستان سے نہیں بلکہ نیوزی لینڈ سے تعلق رکھتا ہے اور لوگوں نے اس کو جس مسجد کا پتہ بتلایا وہ کوئی دوسری مسجد نہیں بلکہ وہی مسجد النور ہے جہاں پر جمعہ 15؍ مارچ کے دن عین نماز جمعہ کے دوران 28 سال کے بریٹن ٹارینٹ نام کے ایک آسٹریلوی دہشت گرد نے 50 نمازیوں کو گولی مار کر شہید کردیا تھا۔
قارئین جی ہاں میں نے دانستہ طور پر دہشت گرد کو صرف اس کی آسٹریلوی شہریت کے ساتھ لکھا ہے۔ ’’عیسائی دہشت گرد‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔ آج کے اپنے اس کالم میں میں اس بات کی بھی وضاحت کردوں گا۔ بہت سارے میڈیا ادارے، اخبارات اور ٹیلی ویژن چیانلس نے بھی ٓاسٹریلوی دہشت گرد کے مذہب کا ذکر نہیں کیا۔ اس مسئلے پر سوشیل میڈیا میں زبردست بحث بھی ہوئی کہ بالفرض دہشت گردی کے کسی واقعہ میں ملوث شخص کا مذہب اسلام سے تعلق ہوتا تو یہی میڈیا اُس وقت دہشت گرد کو مسلم دہشت گرد ضرور قرار دیتا تھا۔ بالکل سچ کہنا ہے لوگوں کا۔ کیونکہ گیارہ ستمبر کے بعد سے دنیا بھر میں اسی طرح کا تو فیشن چل پڑا ہے۔ لیکن میرا سوال ہے جب ہم مسلمان بآواز بلند اس بات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور دہشت گردوں کا مذہب صرف دہشت گردی ہوتا ہے اس لیے دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ کو مذہب سے نہیں جوڑا جانا چاہیے اور میڈیا مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑ کر غلطی کر رہا ہے۔ کیا مسلمان بھی عیسائیوں کو دہشت گردی سے جوڑ کر صحیح قدم اٹھارہے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے سونچئے گا۔
قارئین آیئے اب ہم نیوزی لینڈ کی مسجد النور کے باہر بیٹھ کر بھیک مانگنے والے اس عیسائی کی بات کرتے ہیں جس کے متعلق انگریزی اخبار Daily Mail Australia نے 17؍ مارچ کو ایک رپورٹ شائع کی۔ رپورٹ کے مطابق ڈریل موسیس گذشتہ ایک مہینے سے مسجد النور کے باہر بیٹھ کر مسجد آنے والے مصلیوں سے مدد مانگ رہا تھا۔ ڈریل نے اخبار کو بتلایا کہ مسجد النور کے مصلیوں نے اس کی بہت مدد کی۔ اس کو پہننے کے لیے کپڑے دیئے۔ ایک ٹیلی ویژن سیٹ دیا۔ دو کرسیاں بیٹھنے کے لیے۔ بچھانے کے لیے ایک میٹریس (گدّا)، کھانے کے لیے غذا، کپڑے دھونے کے لیے پائوڈر اور ساتھ میں پیسے بھی دیئے تاکہ ڈریل جیل سے نکلنے کے بعد دوبارہ اپنی زندگی شروع کرسکے۔
مسجد کے باہر کھڑے ہوکر لوگوں سے مدد مانگتے ہوئے پچھلے چار ہفتوں کے دوران ڈریل کی مسجد النور کے کئی مصلیوں سے دوستی ہوگئی تھی۔ آسٹریلوی اخبار سے بات کرتے ہوئے مسجد النور کے باہر بھیک مانگنے والے عیسائی شخص ڈریل نے بتلایا کہ وہ 15؍ مارچ کے دن بھی مسجد کے باہر موجود تھا اور جب سب لوگ مسجد میں چلے گئے تب وہ مسجد کے پاس سے ہٹ گیا تھا حالانکہ اس نے بھی فائرنگ کی آوازیں سنی لیکن وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ کہیں پٹاخے پھوڑے جارہے ہیں۔
17؍ مارچ 2019ء کو جب پورے نیوزی لینڈ میں ہزاروں، لاکھوں لوگ مسجد النور میں دہشت گردی کے واقعہ کی مذمت کرنے اور مسجد میں ہوئی فائرنگ میں شہید ہونے والوں کے ساتھ اظہار یگانگت کے لیے مسجد النور کے باہر گل ہائے عقیدت لیے کھڑے تھے، ان میں 52 سال کا ڈریل موسیس بھی موجود تھا۔ جس کی زندگی کو بدلنے میں مدد کرنے والے اس کے دوست اب اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے جن بندوں کو اپنے ہاں بلانے کا فیصلہ کرلیا تھا وہ جام شہادت نوش کر تے ہوئے داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے لیکن ان لوگوں نے اپنی مسجد کے باہر بیٹھ کر بھیک مانگنے والے ایک عیسائی شخص کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق نرم گوشہ بناکر اپنی ذمہ داری تو پوری کرلی۔
کیا اب اقطاع عالم میں ایک ہی کام باقی بچا رہ گیا کہ مسلمان عیسائیوں کو دہشت گرد ثابت کریں۔ تاریخ کا جب بھی غیر جانبدارانہ انداز میں مطالعہ کیا جائے گا تو حقیقت سب پر عیاں ہوجائے گی۔ آسٹریلیاء کے 28 سالہ دہشت گرد کو کوئی بھی اپنا ہیرو نہیں مان رہا ہے۔ خود نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم جسنڈا آرڈن نے کہا کہ وہ کرائسٹ چرچ کی مسجد پر حملہ کرنے والے حملہ آور کا نام بھی لینا نہیں چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’وہ دہشت گرد ہے۔ وہ مجرم ہے۔ وہ انتہاء پسند ہے اور میں جب بھی اس کے بارے میں بات کروں گی تو وہ بے نام رہے گا۔‘‘ (بحوالہ بی بی سی ڈاٹ کام)
نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم نے اپنے ملک کی دو مساجد پر ہوئے حملے کو ایک دہشت گردانہ کارروائی سے تعبیر کیا اور کہا کہ وہ دہشت گرد کو اس کے کیفرکردار تک پہنچاکر رہیں گی۔ یہ تو اس وزیر اعظم کا بیان ہے جس کے ملک نے اپنی تاریخ کی بدترین دہشت گردی کا سامنا کیا۔ قارئین آیئے اب ذرا ان لوگوں کے خیالات بھی جان لیتے ہیں جن کے چاہنے والے فائرنگ کے ذریعہ برپا کی جانے والی اس دہشت گردانہ واقعہ کا نشانہ بنے۔
حسنیٰ احمد 44 برس کی تھیں۔ یہ خاتون اپنے شوہر فرید الدین احمد کے ہمراہ 15؍ مارچ کو مسجد النور میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے پہنچتی ہیں۔ جب نماز جمعہ کے دوران فائرنگ شروع ہوئی تو حسنیٰ احمد نے ارادہ کیا کہ وہ مسجد میں موجود اپنے شوہر کی مدد کرے تاکہ وہ باہر نکل سکیں لیکن حسنیٰ احمد کو جس راستے سے ہوکر گزرنا تھا وہاں پر بہت سی خواتین اور بچے بھی فائرنگ سے بچنے کے لیے باہر نکلنے کھڑے تھے۔ حسنیٰ احمد نے پہلے تو ان لوگوں کی مدد کی اور پھر اگلے مرحلے میں حسنیٰ احمد نام کی اللہ کی بندی اپنے شوہر کو باہر نکلنے میں مدد کرنے آگے بڑھی کیونکہ حسنیٰ احمد کے شوہر فرید الدین وھیل چیئر کے محتاج تھے۔ ان کا جسم مفلوج تھا لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ فائرنگ سے بچتے ہوئے وھیل چیئر کا محتاج شخص تو بحفاظت باہر نکل گیا لیکن وہ خاتون جو اپنے شوہر کو باہر نکالنے کے لیے آگے بڑھی تھی وہ دہشت گرد کی گولیوں کا نشانہ بن کر خالق حقیقی سے جاملی۔ ذرا اندازہ لگایئے اس بزرگ شخص کے بارے میں جو اپنی زندگی میں چلنے پھرنے کے لیے وھیل چیئر کے محتاج ہیں وہ اپنی بیوی کو اس دہشت گردانہ حملے میں کھودینے کے بعد کیا کہتے ہیں۔ آسٹریلیا کے اخبار ڈیلی میل کے مطابق محمد فرید الدین نے کہا کہ میں نے اس شخص کو معاف کردیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میری بیوی زندہ ہوتی تو وہ بھی ایسا ہی کرتی۔
قارئین نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چرچ میں مسجدوں پر حملے کے بعد ایک شخص نے منہ کھولا اور دہشت گردانہ حملے کے لیے مسلمانوں کے امیگریشن کو ذمہ دار قرار دیا تو اس شخص کا حال کیا ہوا وہ بھی جان لیجیے۔ آسٹریلیا کے دائیں بازو کے ایک رکن پارلیمنٹ نے جب کہا کہ مسلمانوں کو امیگریشن دینے سے اس طرح کا حملہ ہوا ہے تب آسٹریلیا کے ہی ایک سترہ سال کے کمر عمر نوجوان نے جس کا نام ول کانولی (Will Connolly) ہے، نے اپنے رکن پارلیمنٹ کے سرپر انڈہ پھوڑتے ہوئے ان کے بیان کی مذمت کی۔ دنیا بھر کے لوگوں نے اس پر امن احتجاج پر اس کم عمر لڑکے کو (Egg Boy) کا خطاب دیا اور اس کی قانونی مدد کے لیے 50 ہزار آسٹریلیائی ڈالرس کی امداد جمع کی۔ لیکن داد دیجئے یہ 17 سالہ نوجوان ان 50 ہزار ڈالرس کی رقم کو بھی کرائسٹ چرچ کے دہشت گردانہ حملوں کے متاثرین کو دینے کا اعلان کردیا۔ (بحوالہ نیویارک ٹائمز 18؍ مارچ کی رپورٹ)
اتنا ہی نہیں 15؍ مارچ کو نیوزی لینڈ کی مسجد میں ہوئے حملے کے بعد نیوزی لینڈ سے ہزاروں کیلومیٹر دور مانچسٹر برطانیہ میں گرے اسٹون Graystone نام کے ایک انگریز نے اپنے علاقے کی مسجد کا رخ کیا اور جب وہاں مسلمان نماز پڑھنے کے لیے آئے تو 57 سالہ گرے اسٹون نے اپنے ہاتھ میں ایک بڑا سا پوسٹر پکڑ کر مسلمانوں کو یقین دلایا کہ آپ لوگ جب مسجد میں آئیں تو اطمینان سے عبادت کیجیے میں آپ لوگوں کے لیے نگرانی کروں گا۔ قارئین گرے اسٹون بھی ایک عیسائی ہیں اور عیسائیوں کے ایک خیراتی ادارے کے لیے کام کرتے ہیں۔ (بحوالہ مانچسٹر ایوننگ نیوز۔ 16؍ مارچ 2019)قارئین یہ بھی سچ ہے کہ پوری دنیا مسلمانوں کی دوست نہیں ہے۔ مگر کون دوست ہے اور کون دشمن اس کا فیصلہ جذباتی بنیادوں پر نہیں بلکہ ٹھوس شواہد کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔
فی الحال تو مجھے مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن میڈیا نظر آتا ہے جو تفرقہ کے بیج (تخم) بوکر غلط فہمیوں کی دیوار کھڑا کرنا چاہتا ہے اور پھر اپنے مفادات کی روٹیاں سینکنا چاہتا ہے۔ آج مسلمانوں کو سب سے بڑی ضرورت اعلیٰ کردار کے نمونہ کو پیش کرنے کی ہے۔ ورنہ ہمارے پاس تو کتابوں میں ایک سے بڑھ کر ایک تاریخ ہے مگر آج تاریخ کو پڑھنا کون چاہتا ہے۔ ہاں مگر جو لوگ اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں اور دیکھتے بھی ہیں۔ اور انہیں سب چیزیں سمجھ میں بھی آتی ہیں۔کیا ہم تیار ہیں نبی اکرم ﷺ کے اس پیغام محبت کو سارے عالم کے لوگوں تک پہنچانے کے لیے جو ہمیں امانت کے طور پر سونپا گیا تھا؟ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے کردار کو اسلام کی سچی تعلیمات کا آئینہ دار بنادے۔ (آمین یارب العالمین)
بقول علامہ اقبالؔ ؎
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دل مرتضیٰؓ، سوز صدیقؓ دے
جگر سے وہی تیر پھر پارکر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com