مست قلندر

ڈاکٹر مجید خاں

ذرا اس خاندان کے حالات پر غور کیجئے۔ یہ صاحب اپنے فن میں ماہر اور اپنی محنت، فراست اور انتھک جدوجہد سے اپنا ایک مقام سارے ملک میں پیدا کرچکے ہیں۔ مجھ سے دوستانہ تعلقات ہیں اور میں ان کو تقریباً 30 سالوں سے قریبی طور پر جانتا ہوں۔ مخلص دوست ہیں مگر موقع پرست ضرور ہیں۔ میں نے کئی مرتبہ یہ دیکھا ہے کہ کسی تقریب میں مَیں ان کو کسی اہم شخصیت سے اگر ملا دوں تو وہ ان سے کیسے خیریت حاصل کرنا اس فن میں وہ ماہر ہیں۔ تھوڑے ہی عرصے میں انہوں نے اپنے کاروباری اور سماجی حلقوں میں کافی وسعت لادی۔ مگر موقع پرستی کے ساتھ ساتھ احسان فراموشی بھی ان کی شخصیت کا ایک اہم جز رہا ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہیں۔

ان کی عام زندگی میں دیکھتا ہوں مثلاً یہ صاحب میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے تو ایک بہترین ہرفن مولا کاریگر میرے سے ملنے آیا تھا۔ میں موبائیل پر کسی سے باہر جاکر بات کررہا تھا اور جب واپس آیا تو وہ اس سے اس کے رابطے کی تفصیلات نوٹ کررہے تھے۔ اگر وہ پوچھتے بھی تو میں دے دیا ہوتا۔ مگر ممکن ہو وہ راست پوچھنا نہیں چاہ رہے تھے۔ اسی طرح کئی ضروری مسائل حل کرنے والے میرے سنبھالے اور رکھے ہوئے لوگ اب ان کے ہاں بھی نظر آنے لگے بلکہ ان کے پاس زیادہ جانے لگے۔ ہمارے قریبی دوست ایک ترجیحی مقام حاصل کرگئے۔

تھوڑی دنوں کے بعد حالات پھر پلٹا کھائے اور یہ لوگ اپنا ارادہ بدلنے لگے میں نے جب اس تبدیلی فراخ کو سمجھنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ ہمارے رفیق کام نکال لینے کے بعد احسان کو فراموش کردیتے ہیں اور ایک درجہ اوپر جاکر تعلقات قائم کرتے ہیں۔ کسی مہربان کا حق مارکر وہ اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ اس کا اندازہ کوئی بھی نہیں کرسکتے مگر اب ذرا موقع پرستی اور احسان فراموشی کی صفات پر جب ہم غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ آج کل خوبیاں سمجھی جارہی ہیں۔ پرانے خیالات کے لوگ ابھی بھی اس کو عیب ہی سمجھتے ہیں۔ خودغرضی کو بھی عیب ہی سمجھا جاتا تھا اور غالباً اب بھی۔ کسی پر اگر اب الزام لگائیں کہ وہ خودغرض ہیں تو وہ برا مان جاتے ہیں اور اپنے خود کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ خود غرض نہیں ہیں۔ ٹھنڈے دل سے غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ موقع پرستی اور خودغرضی ترقی حاصل کرنے کے اہم زینے ہیں ۔ ہمارے دوست نے تو اس میں مہارت حاصل کی۔ میں تو ان کو مبارکباد دیتا ہوں۔ سوال پیدا ہوتا ہے احسان فراموشی کا۔ یہ صاحب دوسروں کیلئے احسان فراموش ہیں، مگر میرے لئے تو بالکل نہیں بلکہ نہ صرف وہ بلکہ ان کا خاندان ہمیشہ نہ صرف انتہائی احسان مند رہا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً اس کا واضح اور للکارتے ہوئے اعتراف بھی کرتے ہیں۔ آدمی قابل ہو، زیادہ اولاد کا جھمیلہ بھی اس کے ساتھ نہ ہو، بیوی اس زمانے میں بھی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اطاعت گزار ہو، ہر لحاظ سے یہ شخص خوش قسمت رہا ہے۔ حقیقی معنوں میں اس شخص کو حرکیاتی شخصیت کہا جاسکتا ہے۔

وہ بھی اپنی بہترین کارکردگی سے خوش نظر آتا ہے مگر کسی طرح سے بھی اس کو مغرور نہیں کہا جاسکتا۔ وقت واحد میں کئی کام شروع کرنے کی صلاحیت ہو جن میں بعض خیرخوبی سے انجام دیئے جاتے ہیں اور بعض کیلئے یاد دہانی کرنی پڑتی ہے جس کام میں اگر شخصی فائدہ نظر آئے تو موصوف بہت آگے آگے نظر آتے ہیں۔ ان کے قابل تعریف تعلقات ان کے اکلوتے ایک لڑکے سے ہیں۔ باپ بیٹے شیر و شکر کے مانند رہا کرتے ہیں۔ کھیل کود ہنسی مذاق میں دوستوں کی طرح رہتے ہیں۔ ماں بیوی چونکہ قریبی رشتے دار ہیں، اس لئے یہ دونوں ایک ہی اولاد پر اکتفا کر بیٹھے۔ یہ لڑکا اس حرکیاتی اور کامیاب شخصیت کے زیرسایہ پرورش پایا اور ہر امتحان میں امتیازی کامیابی حاصل کرتا رہا۔ ڈگری تک بھی اس کو جدوجہد کرنی نہیں پڑی اور وہ امریکہ کی بہترین یونیورسٹی میں نہ صرف داخلہ بلکہ یونیورسٹی سے مالی امداد کا بھی مستحق سمجھا گیا۔ دوران تعلیم نمایاں مقام ، مباحث میں اور کالج کی دوسری مصروفیات میں بھی خوب نام کمایا۔

ایک بار وہ اپنے قریبی رشتے دار کی شادی میں امریکی گورے دوستوں کے ساتھ آیا۔ وہ اپنے پتا کی طرح کامیابیوں کی منزلیں طئے کررہا تھا۔ شاید ذرا تیزی ہی سے طئے کرنے کی فکر میں تھا۔ یہ لڑکا اپنی زندگی میں ناکامی کیا ہے ، اس سے واقف نہیں تھا۔ اپنے باپ کی کامیابیوں کی پیٹھ پر سوار ہوکر یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کیا۔ ممکن ہو اس کی شخصیت میں خود اعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس کے دماغ پر یہ شیطان سوار ہوگیا تھا کہ وہ بہت ہی کم عرصے میں ایک مشہور انسان بن سکتا ہے اور یہ کہ بڑی آسانی سے سب پر حاوی ہوسکتا ہوں۔ کبھی ناامیدی اور ناکامی کا مزہ ہی نہیں چکھا تھا۔ بیچارہ کبھی دگرگوں حالات سے دوچار ہی نہیں ہوا تھا تو نفسیاتی قوت دفاع اس میں کہاں سے پیدا ہوسکتی ہے۔ امریکی صف اول کے طلباء کی صحبت امریکی ذہنیت اس پر چھا رہی تھی۔ وہ ذہین بچوں کی پہلی صف میں گنا جانے لگا۔ ممکن ہو انٹرویوز میں وہ انٹرویوز لینے والوں ہی کو فخریہ انداز میں دیکھتا ہوگا۔ اس کا لب و لہجہ بھی امریکی ہوگیا تھا اور ہر حال میں ہندوستانی کم اور امریکی زیادہ نظر آتا تھا۔ اس کے والد اس کی تعریف کرتے ہوئے پھولے نہیں سماتے تھے۔ اکلوتی ایک اولاد اور وہ بھی اتنی کم عمر میں اتنی بلندیوں پر پہنچ چکا تھا اور پروان جاری تھی۔

امریکہ کے میرے ایک دورے میں والد نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ میں ان کے لئے کچھ وقت نکالوں۔ اس کی کوئی خاص وجہ یا تشویش نہیں تھی۔ وہ چاہ رہے تھے کہ ان کا لڑکا مجھ سے ربط میں رہے۔ والد کے کئی مرتبہ یاد دلانے پر مجھ سے ٹیلیفون ہی پر معذرت کے ساتھ کہا کہ فلاں فلاں بڑی ہستی سے آپ کو ملنا ہے اور بے حد کوشش کے باوجود وہ مجھ سے ملنے کیلئے وقت نکال نہیں سکا۔ امریکی لہجہ اور اپنی کھری کھری بات مجھے اچنبھے میں نہیں ڈالی۔ لوگ مغرور ہو ہی جاتے ہیں۔ باپ اگر شکر گزار اور احسان مند ہوں تو بیٹا بھی ہونا ضروری نہیں ہے۔

جب اعلیٰ تعلیم کے پورے درجے مکمل کرلیا تو آسمان چھونے والی کمپنی میں نوکری کی درخواست دیا۔ خود انٹرویو لینے والے اس کی اسناد سے متاثر ہوکر ہی اس کو مدعو کئے تھے مگر اس کے رویے سے ان لوگوں کو ذرا بے حسی سی ہوئی۔ سخت سے سخت اور کٹھن سے کٹھن نفسیاتی امتحانات سے اس کی شخصیت کی کارکردگی کو جانچا گیا۔ یہ ایسی کمپنی تھی جہاں پر کوئی تجربہ حاصل کرلے تو اس کو غیرمعمولی اثاثہ سماج کیلئے سمجھا جاتا ہے۔ یہ لڑکا اور اس کے والدین اس زعم میں تھے کہ کسی صورت اس کے انتخاب کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی مگر اس کا امتحان نہیں ہوا اور اس سے کہا گیا کہ آپ اس عہدہ کیلئے ناموزوں پائے گئے یعنی آپ میں اس معیار کی اہلیت کا فقدان ہے جو وہاں پر درکار تھا۔ یہ اس کے اور والدین کیلئے ایک سانحہ عظیم ثابت ہوا۔ والدین کو دلاسہ دلانے کیلئے امریکہ جانا پڑا۔

امریکی دوست اور امریکی لہجہ بھی بے وفائی کر بیٹھا اور جہاں پر پانچ ستارہ ہوٹل میں دوستوں کے ساتھ کانٹے چمچے کے ساتھ صبح کا ناشتہ کیا کرتے تھے وہاں پر اڈلی سانبر پر آگیا۔ والدین جب واپس آئے تو اس زلزلہ کا ذکر مجھ سے نہیں کئے۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے یہ ملازمت کے انٹرویو میں وہ منہ ہی کھاتا رہا۔ والدین اب فکرمند ہونے لگے کہ دنیا میں اب اس کے لئے کامیابیوں کی راہیں مسدود ہوتی ہوئی نظر آئیں۔ بادل ناخواستہ والد صاحب ایک بار پھر میرے پاس حاضری دینے لگے۔ نئی تجدید عقیدت مندی کا یہ حال تھا کہ ہاتھ پیر دبانے لگے۔ اس صدمے سے نمایاں تبدیلی یہ آئی کہ انتہائی متقی اور پرہیزگار ہوگئے۔ امریکہ میں لڑکے کا یہ مسئلہ ہوگیا تھا کہ اگر اس کو جلد نوکری نوکری نہ ملتی تو بدھو کو گھر واپس لوٹنا پڑتا تھا۔ ویزا کیلئے ملازمت ضروری تھی۔ ان کے دماغ میں کہیں سے یہ بات آگئی کہ اگر میں چاہوں تو اس کو وہاں پر نوکری ملنے میں مدد کرسکتا ہوں۔ بہرحال ایک ہندوستانی کمپنی میں ایک سیلس مین کی نوکری مل ہی گئی۔

اس کے بعد جب میرا امریکہ جانا ہوا تو میں اس سے ملنے کا خواہشمند نہیں تھا مگر وہ آہی دھمکا۔ اس معمولی ملازمت سے بھی وہ خوش نظر آرہا تھا۔ اس کے والد اس کے جانے کے بعد طویل گفتگو ٹیلیفون پر کرکے بتائے کہ وہ لڑکا سنہرے خواب دیکھنا چھوڑ دیا ہے اور مسلسل کھیل کود میں مصروف رہتا ہے۔ اگر یہی حال رہا تو اس کی ساری صلاحیتیں ماند پڑجائیں گی اور میری اُمیدیں اس کے مستقبل کے بارے میں خاک میں مل جائیں گی۔
اب میں کیسے ان کو سمجھا سکتا تھا کہ یہ شجر تو آپ ہی کے تخم کی پیداوار ہے۔ اگر آپ اس کو آپ کے سایے سے دور رکھتے تو بیچارہ باہر کی دنیا کیلئے بہتر انداز میں تیار ہوتا۔ ان لوگوں کو یہ فکر لاحق ہوگئی تھی کہ ناکامیوں کی وجہ سے وہ مایوسی کا شکار ہوجائے گا مگر چند دن کی اُداسی کے بعد وہ جس پست حالت میں گر گیا تھا، اس میں مست نظر آرہا تھا، اس معمے کو سمجھنے کیلئے میری مدد لی گئی۔ ان کو یہ ڈر ہونے لگا تھا کہ کیا اس نوجوان میں جو پرواز کی آگ تھی جو باپ میں ابھی کم نہیں ہوئی، کیا وہ بجھ رہی ہے اور وہ اتنا تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود نہ صرف ایک معمولی سے مقام پر آگرا اور آگے بڑھنے کی اشتہا ہی اس میں نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ واقعتاً ایسا ہورہا تھا۔ وہ اپنے باپ کی ذہنی اور نفسیاتی توانائی مسلسل حاصل کرتے ہوئے اُڑ رہا تھا اور اب چونکہ اس کو اس حقیقت کا علم ہوگیا تو وہ زمین پر آگرا اور یہی رہی اس خاندان کی ذہنی حقیقت۔ یہ لڑکا مستعار لی ہوئی بیساکھیوں کے سہارے چل رہا تھا اور اب معذور ہوگیا۔