مستند ہے میرا فرمایا ہوا مودی جی کے ارشادات

غضنفر علی خان

ہمارا ملک ایک عذابناک کرب سے گذر رہا ہے کیونکہ آزادی کے بعد یہاں ایک ایسی پارٹی اور ایک ایسے وزیر اعظم کی حکمرانی ہے جہاں کوئی شخص کسی بھی قسم کی خیال آرائی نہیں کرسکتا۔ بی جے پی اور وزیر اعظم کا کہنا یہ ہے کہ صرف ان ہی کی پارٹی اور خود وہ جو چاہتے ہیں وہی صحیح اور مستند ہے۔ وہ تمام ہندوستانی باشندے خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان ہو، کسی اور مذہبی عقیدہ کے ماننے والے ہوں وہ محض اس لئے غلط ہیں کہ وہ حکمران پارٹی کے فیصلوں سے متفق نہیں ہیں۔ بی جے پی اور ہندنوتوا کے ماننے والوں کے علاوہ اور کوئی ہندوستانی وطن دوست نہیں ہے۔ مسلمانوں کی بات تو چھوڑیئے یہ تو فراموش کردہ گروہ ہے، بی جے پی اور سنگھ پریوار کی نظر میں یہ تو ہندوستانی نہیں ہیں۔ لطف تو یہ ہے کہ وہ غیر مسلم ہندوستانی بھی کسی مراعات کے مستحق نہیں ہیں جو سیکولرازم کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنے والے تمام لوگ اس حکمراں گروہ کی نگاہ میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔ ہم مسلمان بھلا ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ خود وہ غیر مسلم افراد جو سنگھ پریوار کے نظریات سے اختلاف کرتے ہیں وہ بھی اپنے دستوری حقوق کے لئے تک آواز نہیں اٹھاسکتے۔ آزادی کے 70 سال بعد کا آج کا ہندوستان اس ہندوستان سے جدا گانہ نوعیت کا ہندوستان بن گیا ہے جس پر ہم کو ناز تھا۔ آج کے ہندوستان میں برقعہ پہننا، حجاب استعمال کرنا، داڑھی رکھنا، سب کچھ غیر ہندوستانی ہونے کی علامات ہیں۔ سارے ملک میں بے اعتمادی کی ایک دھماکہ آمیز بارود بچھی ہوئی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمراں جماعت کی آگ سے کب اور کہاں کوئی چنگاری گرے گی اور ہمارا یہ قدیم ملک اپنا تحمل پسندانہ تمدن یہ اختلاف رائے کو برداشت کرنے والا ملک ، تنگ نظری ، تعصب کی آگ میں جل اُٹھے گا۔ یہ محض خدشات نہیں ہیں بلکہ آج کے تلخ حقائق ہیں روز مرہ کے واقعات سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ بی جے پی کی حکومت اس ملک کی ہمہ رنگی کو اُکتا دینے والی یک رنگی میں بدلنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے ۔ گائے کی خرید و فروخت سے لیکر روزانہ کی زندگی میں ہر آدمی حکومت کی مداخلت سے ڈرا ہوا ہے، اس کو یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ آج کونسا نیا قہر ٹوٹنے والا ہے۔ ہر روز ایک نئی دھمکی خوف کی نئی شکل اس کے سامنے آرہی ہے۔ جمہوریت، آمریت میں بدل رہی ہے۔ صرف چند مٹھی بھر حکمرانوں ہی کو وطن دوست سمجھنے پر سب کو مجبور کیا جارہا ہے۔ کون کہاں رہے، کیا کھائے، کہاں اپنے عقیدہ کے مطابق عبادت کرے، اس کا فیصلہ عوام نہیں بلکہ ’’ حکمراں ‘‘ کررہے ہیں اور اس حکمرانی کی رگ و پے میں میں صرف مودی جی کی خود ساختہ عظمت ایک نیا سیال بن کر دوڑ رہی ہے۔ ایسا بھی ہورہا ہے کہ خود مودی جی کا مزاج صرف ساڑھے تین سال کی حکمرانی میں ’’ مطابق العنان ‘‘ ہوگیا۔ معقولیت پسندی ختم ہورہی ہے ان چند کامیابیوں اور انتخابی ہتھکنڈوں کے استعمال کے بعد تو بی جے پی اور آر ایس ایس اور وزیر اعظم کی ذہنی کیفیت ’’ مستند ہے میرا فرمایا ہوا ‘‘ کے مصداق ہوگئی۔ ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ اپنے رتبہ اور عہدہ کے تقاضوں کو دکھاوے کیلئے پورا کرنے کیلئے مودی جی وہ سب کچھ اپنی پارٹی کے لیڈروں سے کہہ دیتے ہیں۔ ان کی کابینہ کے ایک وزیر کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت ملک کے دستورہی کو بدل کر رکھ دے گی لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ دستور میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ البتہ کوئی ترمیم بہ اتفاق آراء پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ کے بعدبدلی جاسکتی ہے۔ دستور ہند کسی ایک پارٹی ایک لیڈر کی مرضی و منشاء کا تابع نہیں ہوسکتا۔ خود پارلیمان کا موقف یہ ہے کہ وہ دستور کی مخلوق ہے خالق نہیں۔ تو پھر کسی ایک وزیر کی کیا حیثیت کہ وہ دستور ہی کو بدلنے کی بات کررہا ہے، اور اس بیان کے باوجود بی جے پی نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ کیونکہ جو کچھ غیر دستوری بات کہی گئی اس سے سارا حکمراں طبقہ بشمول وزیر اعظم متفق ہیں۔ صدیوں سے اس ملک میں رہنے والے وطن کے اچھے دوست غیر مسلم باشندوں کو بھی مودی حکومت یہ دھمکیاں دے رہی ہے کہ وہ حب الوطنی کو اسی ایک شکل میںقبول کرے جو آر ایس ایس ، بی جے پی ، سنگھ پریوار اور ہندوتوا کے حامی پسند کرتے ہیں۔ کانگریس پارٹی ہوکہ ملک کی کوئی اور خواہ کمیونسٹ پارٹیاں یا دیگر سیکولر علاقائی پارٹیاں ہوں ان کی خدمات کو تسلیم کرنے کا بیڑہ اٹھاتی ہوں فرقہ پرست طاقتیں دندناتی ہوئی آزادی کے ساتھ اپنا’’ پرچار ‘‘ کررہی ہیں۔ راہول گاندھی کو جو اس وقت کانگریس پارٹی کے صدر ہیں ‘ ہندو تسلیم کرنے سے بھی فرقہ پرست طاقتوں کو انکار ہے، مندر جانے اور ہندو عقیدہ کے مطابق بھگوان کے درشن کرنے والے کانگریس لیڈر کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ محض ہندوووٹ بٹورنے کیلئے ہندو دھرم سے وابستگی کا اظہار کررہے ہیں۔ مودی اینڈ کمپنی خود ہندو دھرم کی خود ساختہ ٹھیکہ دار بن بیٹھے ہیں۔ ہندو دھرم کی اپنے گمراہ کن انداز میں تشریح کرنے لگے ہیں شاید کچھ دنوں بعد یہ گروہ ہندو دھرم کے صرف اُسی سرٹیفکیٹ کو تسلیم کرنے لگے گا جو اسی نے جاری کیا ہے۔ رفتہ رفتہ اس سے اختلاف کرنے والوں کو مودی جی اور ان کے حامی ’’ نقلی ہندو‘‘ کہنے لگیں گے۔ ملک کی اکثریت کے وہ لوگ جوان کی رائے سے کبھی اتفاق نہیں کرتے وہ کہاں جائیں گے۔ مسلمانوں کی بات چھوڑیئے، ان کے اس قتل عام کے بعد مودی جی نے بین الاقوامی نیوز ایجنسی رائٹر کے انٹرویو کے دوران فخریہ کہا تھا ’’ اگر وہ ( مودی جی ) کار میںسفر کررہے ہوں اور کار کے پہیئے کے نیچے کتا آجائے تو کوئی مصائقہ نہیں ‘‘ یہ بات انہوں نے2002 میں گجرات کے مسلم کش فسادات میں شہید ہونے والے گجراتی مسلمانوں کے تعلق سے کہی تھی ۔ اقتدار ملنے کے بعد تو وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کی یہ رعونت، مسلمانوں سے یہ نفرت گویا وہ دو آتشہ ہوگئی۔ وہ بڑی تیزی سے خود پرست لیڈر بن گئے ہیں۔ معاشی، صنعتی پالیسی سے لیکر خارجہ اور داخلہ پالیسی میں صرف ایسی ہی باتوں پر عمل ہوتاہے جو ارشادات مودی کی شکل میں منظر عام پر آئے ہیں۔ حقیقت بہت جلد سامنے آجائے گی۔ ہماری کابینہ کے بیشتر وزراء اور کئی وزارتیں اسی مطابق العنانی کی شکار ہورہی ہیں۔ پارلیمانی نظام ٹھپ ہورہا ہے اور دستوری ادارہ کا موقف دن بہ دن کمزور ہوتا جارہا ہے۔ صحافت اور خصوصاً الیکٹرانک میڈیا تو کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ ان کی آزاد خیالی نیلام ہورہی ہے، اب یہ اور بات ہے کہ پرنٹ میڈیا میں بڑی حد تک اور الیکٹرانک میڈیا میں کسی حد تک آزادی صحافت آج بھی زندہ ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہ ’’ مستند ہے میرا فرمایا ہوا ‘‘ مودی منتر کے زیر اثر آگیا ہے۔