مسبوق جس کی ایک رکعت چھوٹ جائے

مسبوق جس کی ایک رکعت چھوٹ جائے
سوال : مسجد میں کچھ تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے زید نماز ظہر کی دوسری رکعت میں شریک جماعت ہوا ایسی صورت میں زید کو دو کے بجائے تین قاعدے ملتے ہیں تو یہ تین قاعدوں میں کیا پڑھیں اور اس کے تینوں قاعدوں کی کیا حقیقت ہے واجب یا فرض یا سنت برائے کرم رہنمائی فرمائیں؟
محمد اکرم ۔ نورخان بازار
جواب : صورت مسئول عنھا میں زید کو مسبوق کہتے ہیں اور اس پر تینوں قاعدے ضروری ہے ۔ پہلے دو قاعدے واجب اور تیسرا قاعدہ فرض ہے یعنی امام کے قاعدہ اولیٰ کے وقت قاعدہ واجب ہے اور امام صاحب کا آخری قاعدہ بھی واجب ہے اور مسبوق کی باقی رکعتوں کی تکمیل پر ہونے والا قاعدہ فرض ہے ۔
بحرالرائق جلد ۱ صفحہ ۳۱۸ میں ہے ۔ فان المسبوق بثلاث من الرباعیۃ یقعد ثلاث قعدات کل من الاولی والثانیہ واجب والثالثہ ہی الاخیرۃ وہی فرض ۔ اور چونکہ ہر قاعدہ میں تشہد واجب ہے اسی لئے تینوں قاعدوں میں تشہد واجب ہوگا اور امام کے قاعدہ اخیرہ میں جبکہ یہ زید کا دوسرا قاعدہ ہوگا صرف تشہد پڑھنا کافی ہے ہاں تشہد کو کچھ دراز کرکے آہستہ آہستہ پڑھیں یہاں تک کہ امام درود اور دعا سے فارغ ہوجائے ۔ ان المسبوق یترسل فی التشھد حتی یفرغ عنہ سلام الامام کذا فی الوجیز الکردی و فتاوی قاضی خاں۔
اور تیسرے اور آخری قاعدہ میں زید تشہد ، درود شریف اور دعاء تمام چیزوں کو پڑھے۔ واللہ اعلم

کرایہ دار اور حق شفعہ
سوال : عرض خدمت ہے کہ میں گزشتہ تیس سال سے ایک مکان میں کرایہ سے رہتا ہوں محلہ اور پڑوس ہر ایک سے خاصی شناسائی ہے اور انسیت بھی ہے ابھی معلوم ہوا ہے کہ میں جس مکان میں رہتا ہوں اس سے متصل مکان فروخت ہورہا ہے میرے اپنے مکان دار سے اچھے روابط ہیں کوئی جھگڑا نہیں لیکن میں اسی مقام کو اپنا ذاتی بنانا چاہتا ہوں تو کیا مجھے اس تیس سال کے پڑوسی ہونے کی بناء حق شفعہ حاصل ہے ؟ کیا میں اس گھر کو اپنے اس حق کی بناء پوچھ سکتا ہوں ؟
محسن ولی اﷲ ۔ خیریت آباد
جواب : حق شفعہ کیلئے بنیادی شرط یہ ہے کہ جس مکان کی وجہ سے آپ حق کا مطالبہ کرنا چاہتے ہیں وہ آپ کی ذاتی ملکیت ہو کسی سے عاریتاً یا کرایہ سے لئے ہوئے نہ ہو ۔ صورت مسئول عنھا میں چونکہ آپ خود اعتراف کرتے ہیں کہ آپ جس مکان میں تیس سال سے مقیم ہیں یہ آپ کی ملکیت نہیں بلکہ آپ کرایہ دار ہے تو آپ حق شفعہ طلب نہیں کرسکتے ۔ عالمگیری جلد ۵ کتاب الشفعہ میں ہے ۔ ومنھا ملک الشفیع وقت الشراء فی الدارلتی باخذھا بھا الشفعۃ فلاشعہ لہ بدار یسکنھا بالاجارۃ والاعارۃ۔
البتہ آپ عام خریداروںکی طرح اس کی قیمت مقررہ پر اس مکان کو خرید سکتے ہیں۔ ہاں آپ کے مکان دار کو اس فروخت شدنی جائیداد میں حق شفعہ حاصل ہوگا ۔

عقیقہ کے مسائل
سوال : دریافت طلب امر یہ ہے کہ اکثر عوام عقیقہ کے متعلق کم علمی کا شکار ہے بعض عقیقہ کو فرض ، اور بعض اس کو کوئی اہمیت نہیںدیتے ، حقیقی صورت حال کیا ہے ونیز عقیقہ کس دن کرنا چاہئے اور بال نکلوانے کے متعلق کیا حکم ہے اور نام بچے کا کب رکھنا مسنون ہے برائے کرم تفصیل سے جواب دیں؟
عدیل احمد ۔ مانصاحب ٹینک
جواب : عقیقہ احناف کے نزدیک مستحب ہے ۔ ابتدائے اسلام میں اس کا کرنا لازم تھا مگر قربانی کے وجوب کے ساتھ ہی عقیقہ کا وجوب منسوخ ہوگیا ۔ موطا امام محمد رحمہ اﷲ مجتبائی صفحہ ۲۸۶ باب العقیقہ میں ہے قال محمد اما العقیقۃ فبلغنا انھا کانت فی الجاھلیۃ وقد فعلت فی ابتداء الاسلام ثم نسخ الاضحی کل ذبح کان قبلہ ، اور عقیقہ ولادت کے ساتوں روز کرنا بہتر ہے ۔
فتاویٰ عالمگیری صفحہ ۳۶۲ جلد ۵ میں ہے العقیقہ عن الغلام و عن الجاریۃ وھی ذبح شاہ فی سابع الولادۃ اور بوقت عقیقہ نومولود کے بال نکلواکر اس کے ہم وزن سونا یا چاندی یا اس کے مماثل پیسہ فقراء میں خیرات کرنا مستحب ہے ۔ فتاوی شامی جلد ۵ صفحہ ۲۳ میں ہے ۔ ویستحب أن یحلق راسہ ویتصدق عندائمۃ الثلاثہ بزنۃ شعرہ فضۃ اوذھباً اور اسی طرح ولادت کے ساتویں روز نام رکھنا مستحب ہے ۔ یستحب لمن وُلدلہ ولدان یسمیۃ یوم اسبوعہ (فتاوی شامی) ۔

اگر گھی یا تیل میں نجاست گرجائے
سوال : مفتی صاحب ! پوچھنا یہ ہے کہ تیل یا گھی میں اگر نجاست گر جائے تو اسے کس طرح پاک کیا جائے ؟ آیا اسے پھینک دے یا صفائی کی کوئی صورت ہے جبکہ اکثر گھی یا تیل ہمارے پاس بڑی مقدار میں ہو تا ہے جس کو ضائع کرنے سے بہت بڑے نقصان کااندیشہ ہے ؟
نفیسہ بیگم ۔ بابا نگر
جواب : فقھائے کرام نے ہرچیز کی طہارت و صفائی کے طریقہ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیل سے بیان فرمایا ۔ تیل یا اس جیسی سیال چکنی چیز کی نجاست گرنے کی حالت میں دو صورتیں ہوسکتی ہیں (۱) وہ تیل وغیرہ جما ہوا ہو (۲) یا وہ سیال یعنی بغیر جما ہوا ہو ۔ اول الذکر موقع پر یعنی اگر تیل وغیرہ جما ہوا ہو اور اس میں کوئی نجاست گرجائے تو اتناحصہ پھینک دیں جس کے متعلق خیال یا اندازہ ہو کہ یہاں تک گندگی کا اثر پہنچا ہے ۔ بخاری باب مایقع من النجاسات فی السمن میں حدیث شریف ہے ۔ حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ حضرت میمونہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا کہ اگر گھی میں چوہا گرجائے تو کیا کیا جائے ؟ تو آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اس کے اردگرد جو گھی ہو اسے پھینک دو اور باقی کھالو۔
اور اگر تیل وغیرہ پگھلا ہوا سیال ہو تو چونکہ ان اشیاء کا چکناہٹ والا مزاج ہوتا ہے نجاست کے اجزاء اس میں پوری طرح مل نہیں جاتے اس لئے ان کی صفائی بھی دیگر اشیاء کی طرح پانی سے ممکن ہے ۔ فقہائے کرام نے اس کا طریقہ یوں ذکر کیا کہ اس مائع چیز تیل گھی شہد وغیرہ کو ایک بڑے برتن میں ڈال لیں اور اس کے ہم مقدار پانی ملالیں پھر کسی لکڑی وغیرہ سے اسے خوب ملائیں یہاں تک کہ پانی اور وہ شئی ایک دوسرے میں مل جائے یا اس کا ظن غالب ہوجائے کہ یہ مل چکا ہے اس کے بعد کچھ دیر توقف کریں اس کے بعد پانی کو اس سے نکالنے کی دو صورتیں ہوسکتی ہے ایک یہ کہ پانی کی اوپری سطح سے تیل پورا نکال لیں اور پانی پھینک دیں یا اس برتن کے نیچے حصہ میں سوراخ کریں اور اس کے ذریعہ پورا پانی خارج کریں اس طرح کا عمل تین بار کرنے سے وہ شئی قابل استعمال ہوجاتی ہے۔ردالمختار جلد ۳ صفحہ ۲۸ الموسوعہ الفقھیہ جلد ۲۱ صفحہ ۳۳ ۔

تیمم کیلئے دیوار پر غبار
سوال : تیمم کن کن چیزوں پر کیا جاسکتا ہے بعض حضرات کو ہم دیکھتے ہیں کہ تیمم کیلئے گرد والی دیوار تلاش کرتے ہیں کیا یہ درست ہے ؟ جواب عنایت فرمائیں۔
مشفق الرحمن ۔ بارکس
جواب : ہر وہ چیز جو مٹی کی جنس سے ہو مثلاً مٹی ، ریت ، پتھر ،گچی ، چونا ، سرمہ وغیرہ ان تمام سے تیمم درست ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے فتیمموا سعیدا طیباً سورہ مائدہ ۶ ، صعید کے معنی زمین کا اوپری حصہ ہے ۔ مصنف ابن ابی شیبہ باب ما یجزئی الرجل فی تیممہ ۱۷۱۶ حضرت حماد کا قول نقل ہے فرماتے ہیں کہ مٹی ، گچ پہاڑ ، ریت ان سب سے تیمم کیا جاسکتا ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو آگ میں جلانے سے نہ جلے اور نہ پگھلے وہ زمین کی جنس ہے اور جنس زمین سے تیمم کرتے وقت اس پر گرد و غبار ہونا ضروری نہیں صرف دونوں ہاتھ ان مذکورہ چیزوں میں سے کسی ایک پر ماریں اور تیمم کرلیں گرد و غبار کی کوئی شرط نہیں بلکہ اگر گرد و غبار لگی ہو تو اسے جھٹک دینا چاہئے چنانچہ صحیح مسلم باب التیمم میں حضرت عمارؓ کو تیمم کاطریقہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم سکھلاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں تمہارے لئے یہ کافی ہے کہ اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارو پھر ہاتھ پر پھونک مارو پھر اپنے چہرہ کا مسح کرو۔ اس میں پھونک مارنے کے حکم سے صاف ظاہر ہے کہ گرد و غبار کی کوئی ضرورت نہیں ۔

درمیان مسجد سے نماز
سوال : موسم گرما میں اکثر مساجد میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ نماز کی جماعت محراب کے بجائے پیچھے ہٹ کر درمیان مسجد سے پڑھائی جاتی ہے جبکہ بعض حضرات اس پر اعتراض کرتے ہیں صحیح مسئلہ سے واقف کرائیں۔
محمد مسکین ۔ خلوت
جواب : نماز کے وقت امام کا محراب کے مقابل کھڑا ہونا مسنون ہے اور ہٹ کر کھڑا ہونا خلاف سنت مکروہ ہے ۔ ردالمحتار کتاب الصلاہ باب الامامۃ میں ہے ان یقوم الاام فی المحراب لیعتدل الطرفان اور آگے ہے … وکراھۃ قیام الامام فی غیرالمحراب صورت مسئول عنھا میں کوئی عذر کی بناء محراب کے پیچھے ہٹ کر وسط مسجد سے اگر نماز ادا کی جارہی ہو تو محراب کالحاظ کرنا چاہئے ، امام محراب کے مدمقابل ٹھیرے اس سے صفوں میں توازن رہتا ہے ۔

اندرون عدت نکاح
سوال : ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ زید نے ہندہ کو طلاق دی اور عدۃ ختم ہونے کے قبل عمرو نے اس کے ساتھ نکاح کیا ۔کیا زید کانکاح ہندہ کے ساتھ درست ہے ؟ فی الحال کسی وجہ سے عمرو نے ہندہ ک بغیر طلاق کے اپنے گھر سے نکالدیا ہے ، کیا اس وقت ہندہ کسی شخص سے نکاح کرسکتی ہے ؟
ایک قاری
جواب : اندرون عدت عمرو نے جو ہندہ سے نکاح کیا ہے شرعاً درست نہیں ، لہذا اس وقت ( یعنی انقضائے عدت کے بعد ) کسی بھی شخص سے زید کے علاوہ نکاح کرسکتی ہے ۔ ردالمحتار جلد ۲ صفحہ ۶۲۳ باب العدۃ میں البحرالرائق سے منقول ہے : امّا نکاح منکوۃ الغیر و معتدتہ فالدخول فیہ لا یوجب العدۃ ان علم انھا للغیر لأنہ لم یقل احد بجوازہ فلم ینعقد اصلا ۔ واﷲ اعلم بالصواب۔

علاتی ماں کی بہن سے نکاح
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عَلّاتی ماں کی حقیقی بہن یعنی علاتی خالہ سے نکاح جائز ہے یا نہیں ؟
جواب : چونکہ عَلاّتی ماں کی ماں یعنی علاتی نانی سے ، اور علاتی ماں کی لڑکی سے جوکہ اپنے باپ کے بطن سے نہیں ہے ، شرعا نکاح جائز ہے ۔ اس لئے علاتی ماں کی حقیقی بہن یعنی علاتی خالہ سے بھی نکاح جائز ہے ۔ عالمگیریہ جلد ۱ صفحہ ۲۷۷ کتاب النکاح باب المحرمات بالصھریۃ میں ہے : ولا بأس بان یتزوج الرجل امرأۃ ویتزوج ابنہ ابنتھا او امھا کذا فی محیط السرخسی ۔ واﷲ اعلم بالصواب۔