مزہ تو یار ڈسمبر کے بعد آئے گا

پٹرول کی قیمت میں کمی … ہمدردی نہیں بلکہ مجبوری
وسط مدتی چناؤ کے آثار… روہنگیا مسلمانوں کی بیدخلی

رشیدالدین
عوامی ناراضگی اور برہمی کی چنگاری جو گزشتہ چار برسوں میں شعلہ میں تبدیل ہوچکی ہے، اس کی تمازت دہلی میں نریندر مودی کی قیامگاہ تک محسوس ہونے لگی ہے۔ وزیراعظم جو اپنے ہر فیصلہ کو درست قرار دینے میں مصروف تھے اور زمینی حقائق سے بے خبر اقتدار کے نشہ میں ہر کسی کو نظر انداز کر رہے تھے، عوامی برہمی کی گرمی نے کرسی کے غرور کو ایسا جھٹکا دیا کہ ہوش ٹھکانے آگئے ۔ نریندر مودی کو محسوس ہونے لگا کہ عوام کے اچھے دن کا وعدہ تو پورا نہیں ہوسکا لیکن ان کے اور بی جے پی کے برے دن قریب آگئے ۔ اسی خوف کے تحت مودی حکومت نے پہلی مرتبہ اپنے اسی فیصلہ پر نادم ہوتے ہوئے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔ قیمتوں میں اضافہ اور کمر توڑ مہنگائی سے بدحال عوام کی مصیبت کو نظر انداز کرنے والی مودی حکومت کو کرسی اقتدار سرکتی دکھائی دینے لگی۔ 2014 ء میں جملہ بازی اور خوش کن نعروں کے فریب میں آکر عوام نے جس بھاری اکثریت سے کامیابی دلائی تھی ، وہ 2019 ء میں سبق سکھانے کی تیاری کرچکے ہیں۔ جس حکمراں نے بھی زبان خلق کو نقارہ خدا نہیں سمجھا شکست اور رسوائی ان کا مقدر بن گئی ۔ جمہوریت میں حقیقی بادشاہ گر تو عوام ہوتے ہیں لیکن گجرات کی مودی ۔امیت شاہ جوڑی نے اس حقیقت کو فراموش کردیا تھا۔ سماج کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جو حکومت کے خلاف بغاوت کیلئے آمادہ نہ ہو۔ نوٹ بندی سے عوام ابھی سنبھل نہیں پائے تھے کہ جی ایس ٹی کے نام پر 14 سے زائد ٹیکس کا بوجھ عائد کیا گیا۔ غریب اور متوسط طبقات جو کبھی ٹیکس کے اثر سے ناواقف تھے ، ان کو ٹیکس کے بوجھ نے معاشی طور پر بحران کا شکار کردیا۔

پٹرول اور ڈیزل کی قیمت کے تعین کا اختیار آئیل کمپنیوں کو دے دیا گیا۔ جب کبھی قیمت میں اضافہ ہوتا ، حکومت یہ کہہ کر اپنا دامن بچا لیتی کہ قیمت کے تعین کا اختیار آئیل کمپنیوں کی ذمہ داری ہے۔ پٹرول کی قیمت مسلسل بڑھتے ہوئے 90 روپئے فی لیٹر تک پہنچ گئی۔ اس کے زیر اثر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ گزشتہ چار برسوں میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا گیا اور عوامی ناراضگی کی چنگاری پر اس اضافہ نے پٹرول اور ڈیزل چھڑکنے کا کام کیا جس کے سبب دہلی کے ایوان میں ہلچل پیدا ہوگئی ۔ پہلی مرتبہ مرکز کو مداخلت کرتے ہوئے 2.50 روپئے کی کمی پر مجبور ہونا پڑا۔ حکومت کا یہ فیصلہ عوام سے کوئی ہمدردی یا ان کی تکالیف کو پیش نظر رکھ کر نہیں کیا گیا بلکہ یہ نریندر مودی کی سیاسی مجبوری ہے۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ اسمبلیوں کے انتخابات قریب ہیں اور تینوں ریاستوں میں اقتدار سے محرومی بی جے پی کا مقدر بن سکتی ہے۔ ان ریاستوں میں شکست کا اثر اپریل ۔ مئی میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات پر ضرور پڑے گا ، لہذا نریندر مودی کو اقتدار بچانے کیلئے کچھ تو کرنا ہی تھا۔

مرکز کے فیصلہ کے ساتھ ہی بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں بھی مساوی رقم کی کمی کا اعلان کرتے ہوئے عوام کا دل جیتنے کی کوشش کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 50 تا 55 روپئے سے 90 روپئے فی لیٹر قیمت ہونے تک مرکز نے انتظار کیوں کیا ؟ بہت پہلے ہی اضافہ پر قابو پایا جاسکتا تھا ۔ بشرطیکہ حکومت سنجیدہ ہوتی۔ بی جے پی زیر اقتدار 19 ریاستوں کے علاوہ دیگر ریاستوں کو بھی مقامی ٹیکس میں کمی پر مجبور ہونا پڑے گا۔ ایک طرف نریندر مودی حکومت دیہی علاقوں کے عوام کیلئے مختلف اسکیمات کا آغاز کرتے ہوئے اپنا ووٹ بینک مضبوط کر رہی ہے تو دوسری طرف شہری علاقوں کے رائے دہندوں کو خوش کرنے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں کمی کی گئی ۔ اگرچہ بی جے پی کا اصل نشانہ مجوزہ تین ریاستوں میں اقتدار کو بچانا ہے لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ نریندر مودی لوک سبھا کے وسط مدتی چناؤ کی تیاری کر رہے ہیں۔ قبل اس کے کہ عوامی ناراضگی سونامی کی شکل اختیار کرلے ، وقت سے قبل چناؤ کے ذریعہ ڈوبتی نیا کو بچانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ مودی کو یقین ہے کہ دیہی علاقوں میں بی جے پی کا ووٹ بینک مستحکم ہے اور ضرورت شہری علاقوں پر توجہ کی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں کمی کے بعد ہوسکتا ہے کہ جی ایس ٹی میں مزید ترمیمات کرتے ہوئے عوام کو راحت پہنچائی جائے۔ مودی حکومت نے چار برسوں میں عوام سے جو لوٹا ہے ، اب واپس لوٹانے کا وقت آچکا ہے۔ قریبی صنعت کاروں کو ہزاروں کروڑ لوٹ کر ملک سے فرار ہونے کا موقع فراہم کیا گیا۔ رافیل جنگی جہاز کی معاملت میں امبانی کو ہزاروں کروڑ کا فائدہ پہنچایا گیا جبکہ امبانی کو جنگی جہاز توکجا اس کا ٹائر تیار کرنے کا بھی تجربہ نہیں۔ ان تمام معاملات کا حساب مودی کو عوام کے روبرو پیش کرنا ہوگا ۔
جمہوریت میں ویلفیر اسٹیٹ کا تصور ہے جس کا مطلب عوام کی بھلائی حکومت کی اہم ترجیح ہونی چاہئے ۔ اقتدار میں کوئی پارٹی ہو ، وہ عوام کو ویلفیر اسٹیٹ کا تصور پیش کرتی ہے لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو اپنی اور اپنے قریبی افراد کی بھلائی ان کا اہم مقصد بن جاتی ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں نریندر مودی حکومت نے عوام کیلئے صرف وعدے رکھے لیکن بھلائی کو اپنے قریبی افراد تک محدود کردیا ۔

پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں کا موجودہ بحران آگے مزید شدت اختیار کرسکتا ہے۔ امریکہ نے ہندوستان کو باقاعدہ وارننگ دی ہے کہ وہ نومبر تک ایران سے تیل کی درآمدات مکمل طور پر بند کردے۔ ہوسکتا ہے کہ بحران کی صورت میں تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا جس کا اثر ہندوستان پر بھی پڑے گا۔ ایران سے تیل کی درآمدات روکنے کے مسئلہ پر ہندوستان نے پہلے مزاحمت کی لیکن بعد میں امریکہ کا دباؤ غالب آگیا اور تیل کی درآمدات میں بتدریج کمی ہوچکی ہے۔ ویسے بھی ہندوستان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا ۔ مودی حکومت نے ایران سے صدیوں پرانے تعلقات کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا ہے۔ امریکہ کے دباؤ کو اگر اسی انداز میں قبول کیا جاتا رہا تو آگے چل کر تجارت میں کمی کا حکم دیا جائے گا ۔ موجودہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا طرز حکومت دنیا پر نئے ڈکٹیٹر کو مسلط کرنے کی طرح ہے۔ وہ ہر اس ملک کو دھمکیاں دے رہے ہیں جو ان کے دباؤ کو قبول کرنے تیار نہیں۔ سعودی عرب کے بارے میں گزشتہ دنوں ان کے ریمارکس انتہائی قابل اعتراض ہیں۔ سعودی حکمرانوں میں شاہ فیصل وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے مغربی طاقتوں کو مسلم ملک کی اہمیت سے واقف کرایا تھا۔ 1973 ء میں اسرائیل سے جنگ کے موقع پر اسرائیل کی سرپرستی کرنے والے ممالک کو انہوں نے تیل کی سربراہی بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ آج کسی بھی مسلم یا عرب ملک میں ایسا حکمراں نہیں جو مغرب کی آنکھ میں آنکھ ملاکر بات کرسکے۔ بین الاقوامی سطح پر مسلم ممالک کو اپنا ماتحت بنانے کی کوششیں جاری ہیں تو دوسری طرف ہندوستان میں روہنگیا مسلمانوں کے ملک سے اخراج کا آغاز ہوگیا۔ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی سے کسی طرح بچ کر ہزاروں افراد پناہ گزینوں کے طور پر ہندوستان کے مختلف علاقوں میں قیام پذیر ہوگئے۔ بین الاقوامی قواعد کے مطابق کسی بھی ملک کو پناہ گزینوں کو خارج کرنے کی اجازت نہیں بلکہ انہیں اس وقت تک تحفظ فراہم کیا جائے جب تک ان کے ملک میں تحفظ و سلامتی یقینی نہ ہوجائے۔ بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کے کیمپوں کا دورہ کرنے کے بعد مبصرین نے اقوام متحدہ کو روہنگیائی مسلمانوں کے حالات زار پر توجہ دلائی ۔ ہندوستان کی بی جے پی حکومت نے روہنگیائی مسلمانوں کو سیاسی ایجنڈہ کے طور پر استعمال کیا اور ان پر ہندوستان سے دشمنی کا لیبل لگادیا گیا۔ بی جے پی کو بہرحال کوئی نہ کوئی جذباتی مسئلہ چاہئے تاکہ ہندو ووٹ متحد کئے جاسکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر چند پناہ گزین غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں تو تمام پناہ گزین کس طرح مجرم قرار پائیں گے۔ ہندوستانی حکومت نے یہ کیسے طئے کرلیا کہ پناہ گزینوں کے اخراج کی صورت میں برما میں ان کی زندگی محفوظ رہے گی۔ ویسے بھی آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (NRC) میں 40 لاکھ افراد کے نام حذف کردیئے گئے ۔ حکومت بھلے ہی ناموں کی شمولیت کا تیقن دے لیکن 40 لاکھ افراد کیلئے خطرہ برقرار ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصہ سے آنے والے ہندو افراد کیلئے ملک کی سرحدیں کھلی ہیں اور انہیں شہریت دینے کا پیشکش کیا گیا ہے لیکن اگر کوئی مسلمان ہو تو اسے ہندوستان قبول نہیں کرے گا۔ بھلے ہی اس کے آباء و اجداد کا تعلق ہندوستان سے کیوں نہ ہو ۔ جارحانہ فرقہ پرستی کا یہ مظاہرہ ملک کی دیرینہ روایت کے خلاف ہے۔ 2019 ء انتخابات کیلئے ایک طرف اپوزیشن متحد ہورہا ہے تو دوسری طرف راہول گاندھی اپنے صلاحیتوں میں نکھار کے ساتھ مودی کیلئے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔ 2014 ء میں کانگریس کی کمزوری اور اپوزیشن میں پھوٹ کا بی جے پی کو فائدہ ہوا تھا لیکن 2019 ء میں منظر مختلف ہوگا۔ یہی خوف نریندر مودی کو لوک سبھا کے وسط مدتی انتخابات کیلئے مجبور کرسکتا ہے۔ ممتاز شاعر ڈاکٹر راحت اندوری نے کچھ یوں تبصرہ کیا ؎
سفر میں آخری پتھر کے بعد آئے گا
مزہ تو یار ڈسمبر کے بعد آئے گا