مرکز سے دوستی ، اپنا اُلو سیدھا کرنے کی کوشش

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
سیاسی پارٹیوں خاص کر حکمراں پارٹی کو رائے دہندوں کی مرضی ، اپنی پالیسیوں اور پارٹی منشور میں کئے گئے وعدوں کی اس وقت پرواہ نہیں ہوتی جب اسے اپنا الو سیدھا کرنا ہوتا ہے ۔ مرکز کی بی جے پی حکومت کے ساتھ تلنگانہ کی ٹی آر ایس پارٹی بھی اپنا اُلو سیدھا کرنے کے لیے کوشاں ہے ۔ بس مرکز کے ساتھ روابط کو فروغ دینے اور بی جے پی کے ساتھ روا رکھنے کی کٹھ پتلی تماشہ دکھانے والی پارٹی کے سربراہ نے مرکزی بجٹ اور تلنگانہ کے لیے مودی حکومت کی خاموشی پر اُف تک نہ کئے بلکہ مودی کے حق میں مدح سرائی اور بی جے پی کے خلاف بیان بازی کے ذریعہ ایک متوازن سیاسی چال چلنے کی کوشش کی ہے ۔ آندھرا پردیش میں بی جے پی سے اتحاد کرنے والی تلگو دیشم نے بجٹ میں اپنی ریاست کو کچھ نہ دئیے جانے کی شکایت کے ساتھ اتحاد توڑنے کا فیصلہ کیا ۔ دھمکی دیدی مگر بعد ازاں وہ مرکز سے اتحاد کو برقرار رکھنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی ۔ اس طرح تلنگانہ کی ٹی آر ایس نے بھی مرکز کی مودی حکومت کی تائید میں دو قدم آگے بڑھ کر مظاہرہ کیا ۔ کل تک جن قائدین نے بی جے پی اور مودی کے خلاف تقاریر کر کے تلنگانہ کے عوام سے ووٹ لیا تھا اب وہ مرکزی طاقت کے کلیدی حامی بن کر ہر پالیسی کی تائید کررہے ہیں ۔ تلنگانہ کے لیے بجٹ میں کچھ نہ دئیے جانے کے باوجود ٹی آر ایس نے مودی حکومت کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا ہے ۔مرکز کی بی جے پی نے اپنے آہنی ہاتھوں کے ساتھ جنوبی ہند کی پارٹیوں کو دبوچ لینے کی کوشش شروع کی ہے ۔ اس نے ٹی آر ایس اور تلگو دیشم کو تقریبا اپنا غلام بنالیا ہے ۔ وقتا فوقتاً سیاسی الٹ پلٹ کے جو بیانات آتے ہیں وہ صرف اپنے اپنے رائے دہندوں کو گمراہ کرنے کے لیے ہوتے ہیں ۔ تلنگانہ کی اس حکمراں پارٹی کا مرکز کے ساتھ یہی حال اور یکطرفہ تائیدی موقف رہا تو پھر یہ ریاست تلنگانہ ایک دن بی جے پی کے ہاتھوں یرغمال بنا دی جائے گی اور یہاں کے سیکولر رائے دہندوں کے لیے غضبناک صورتحال پیدا ہوگی ۔ جب ایسے حالات ہوں گے تو اس میں حکمراں ٹی آر ایس کا وجود بھی غیر یقینی ہو کر رہ جائے گا ۔ وہ مرکز کی چالاکیوں سے مسمار ہونے والی تلنگانہ کی سیاست کے ملبہ میں دب کر رہ جائے گی ۔ ٹی آر ایس سربراہ کے چندر شیکھر راؤ کے حالیہ رویہ سے واضح ہورہا ہے کہ وہ ایک طرف بی جے پی کو نشانہ بنا رہے ہیں اور دوسری طرف مودی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کررہے ہیں ۔ اس بات کا واضح ثبوت بی جے پی صدر امیت شاہ کے حالیہ دورہ حیدرآباد سے ملتا ہے ۔ امیت شاہ نے 2017 کی گرمیوں میں یہاں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ٹی آر ایس حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی تھی اور اس کے جواب میں چندر شیکھر راؤ بی جے پی پر جم کے برسے تھے ۔ لیکن بیک وقت وہ مودی کی بھی ستائش کرتے دکھائی دے رہے تھے ۔ مرکز کی نادیدہ قوتوں سے مل کر اگر کے سی آر تلنگانہ کے رائے دہندوں کے جذبات پر شب خون مارنے کی کوشش کررہے ہیں تو یہ بھیانک ہوگا ۔ بی جے پی کی مرکزی قیادت کے آمرانہ باقیات کی بہت سی بارودی سرنگیں اگر تلنگانہ میں آجائیں تو پھر اس سے سیکولر رائے دہندہ کو بچانا مشکل ہوگا ۔ مرکزی حکومت کے سکہ طاقت کے آگے چیف منسٹر کے سی آر جھک رہے ہیں تو یہ اس صورت میں اچھی بات ہوگی ۔ جب وہ اپنی اس تائید اور جھکاؤ کے عوض ریاست تلنگانہ کے حق میں فنڈس حاصل کریں اور مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دلانے اپنے وعدہ کو پورا کرنے میں مودی حکومت کو راضی کروائیں ۔ چیف منسٹر نے گذشتہ جمعہ کو دہلی کا دورہ کیا اور اپنے دانتوں کا علاج کرنے کے ساتھ مرکزی بجٹ میں تلنگانہ کے ساتھ کی گئی نا انصافی سے مرکز کو واقف کرانے کی بھی کوشش کی ۔ کے سی آر نے دہلی میں چند دن گذارے اور وزیراعظم نریندر مودی کے بیرونی دورہ یو اے ای ، اردون ، فلسطین کے سفر سے واپس آنے کے بعد ملاقات کا پروگرام بنایا ۔ تلنگانہ میں جاری مشن کاکتیہ ، مشن بھاگیرتا اور کالیشورم پراجکٹس کے لیے فنڈس کی نمائندگی کرنے کی کوشش کی مگر وہ حیدرآباد واپس آئے تو خالی ہاتھ دکھائی دے رہے تھے ۔ ریاستی حکومت نے اہم فلیگ شپ اسکیمات کے لیے مرکز سے 40,000 کروڑ روپئے مانگے ہیں لیکن یہ رقم ملنے کے انتظار میں 2019 کے عام انتخابات بھی پہونچ جائیں گے ۔ یہ انتخاب حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کے لیے اہم ترین ہوں گے ۔ کے سی آر چاہتے ہیں کہ وہ اس سال مارچ میں ایک مقبول عام ریاستی بجٹ پیش کریں مگر یہ ریاست بجٹ کا انحصار بھی مرکزی فنڈس پر ہی ہوگا ۔ ریاستی حکومت اپنی بجٹ تجاویز کی تیاری میں مصروف ہے اور ریاست کو مطلوب مالیہ میں اضافہ پر غور کیا جارہا ہے ۔ اس کے لیے چیف منسٹر کو مرکز سے بڑی مدد کی آس بھی ہے ۔ مگر کے سی آر کی یہ آس و امید پوری ہوسکے گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ کے سی آر فی الحال مرکز سے دوستی کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں ۔ اپنی قائدانہ مقبولیت کو داؤ پر لگاکر مرکزی قیادت سے جا مل چکے ہیں ۔ اگلے انتخابات میں ایک پر زور سیاسی مزاحمتی مہم چلائی جائے گی ۔ کے سی آر کو یہ احساس شدت سے ہورہا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کا وعدہ کر کے بہت بڑی بھول کی کیوں کہ جو کام انجام نہیں دیا جاسکتا اس کو پورا کرنے کا اعلان سوائے سیاسی خسارہ کے کچھ نہیں ہے ۔ مگر کے سی آر کا سیاسی تجربہ ان کی پارٹی کو مسلم رائے دہندوں سے دور نہیں کرے گا ۔ وہ سرکاری ملازمتوں اور تعلیم میں 50 فیصد تحفظات کی حد کو برخاست کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں تاکہ مسلمانوں کے لیے 12 فیصد تحفظات کی راہ ہموار ہوسکے ۔ جب تک سپریم کورٹ کی جانب سے اس 50 فیصد تحفظات کی حد کو ہٹایا نہیں جاتا یا آرڈیننس کے ذریعہ قانون سازی نہیں کی جاتی ، مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات حاصل نہیں ہوسکیں گے ۔ تلنگانہ کے مسلم تحفظات امور کے ماہرین اور سماجی محققین کے لیے بڑا علاقائی چیلنج یہ پیدا ہوگیا ہے کہ وہ کھوج لگائیں کہ آیا چیف منسٹر کی وزیراعظم مودی سے قربت کے نتیجہ میں مسلمانوں کو تحفظات حاصل ہوسکیں گے یا نہیں ۔ تلنگانہ کے قیام کے چار سال بعد بھی سماجی پسماندگی کے فیصد میں کوئی فرق نہیں آیا ہے ۔ عوام کی ووٹ کی طاقت سے ریاستی نظام پر کس طرح حاوی ہونے والی ٹی آر ایس کے لیے آئندہ چل کر اگر تباہ کن نتائج نکلیں گے تو یہ ریاست کے مستقبل کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا ۔