مرکزی بجٹ ، تلنگانہ سے انصاف نہیں ہوا

تلنگانہ ؍اے پی ڈائری خیراﷲ بیگ
مرکزی بجٹ میں تلنگانہ کو کوئی خاطر خواہ حصہ نہیں ملا ہے ۔ آندھراپردیش کی تلگودیشم حکومت نے مودی حکومت سے دوستی کا فائدہ حاصل کرتے ہوئے ریاست کے لئے کئی مراعات حاصل کئے ہیں۔ تلنگانہ کی تقسیم سے اس علاقہ کی پسماندگی کو دور کرنے کی ذمہ داری نئی ٹی آر ایس حکومت کے کندھوں پر ہے ۔ تلنگانہ میں تقسیم کے عوض بعض اہم چیزیں حصہ میں آئی ہیں۔

حیدرآباد میں بٹس BITS ، آئی آئی ٹیز کے علاوہ ٹیکنالوجیکل انڈسٹری ، فارما انڈسٹری ، انٹرنیشنیل ایرپورٹ اور تمام درکار انفراسٹرکچر موجود ہے مگر مرکز کو ان باتوں پر توجہ دے کر ایک نئی ریاست کی ترقی کے لئے اپنے بجٹ میں کچھ حصہ نہ دینا بڑی کنجوسی کہلائے گی ۔ تلنگانہ حکومت نے مرکزی بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے یہ درست ریمارک کیا کہ بی جے پی حکومت سے یہی توقع کی جاسکتی تھی ۔ مرکز کا سوتیلے رویہ سامنے آنے کے بعد تلنگانہ حکومت خاص کر چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کو اپنے فیصلوں اور منصوبوں کے بل بوتے پر ریاست کی ترقی کے نئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے ۔ دیہی سطح سے لیکر شہری علاقوں کے لئے پالیسیاں اور قوانین بنانے ہوں گے جو ایک نئی ریاست کے لئے ضروری ہیں۔ حکمرانی کے فرائض کو صرف نظم و نسق یا بیوریو کریٹس پر ہی نہیں چھوڑا جاسکتا ۔ دیہی سطح ، منڈل لیول اور ضلع واری خطوط پر منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں کا کام ہے

کہ وہ ایک ایسا مربوط منصوبہ بنائیں جس سے نئی ریاست کو ہر شعبہ میں ترقی دی جاسکے ۔ چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ نے اب تک جتنے بھی فیصلے کئے ہیں اس سے یہی امید پیدا ہورہی ہیکہ آنے والے دنوں میں تلنگانہ کی پسماندگی بڑی حد تک دور ہوگی ۔ مگر ان کے اعلانات صرف ایک محفل یا فائیل کی حد تک ہی محدود ہوں تو عوام الناس کو کچھ نہیں ملے گا ۔ پڑوسی تلگو ریاست آندھراپردیش کی حکومت نے این ڈی اے سے اپنے انتخابی اتحاد کا تحفہ حاصل کرلیا ہے ۔ لیکن تلنگانہ کو سیاسی دشمنی یا تعصب پسندی کا شکار ہونا پڑے گا تو یہاں کے عوام کو ماضی کی طرح پسماندگی کا ہی منہ دیکھنا پڑے گا ۔ اس لئے مرکزی بجٹ میں سوتیلے سلوک کے بعد تلنگانہ حکومت کو سرمایہ کاری کے لئے دیگر علاقوں اور ملکوں کے فرمس کیلئے مراعات کا اعلان کرنا ہوگا ۔

تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد کو ترقی دینے اور اسے سلم سے فری شہر بنانے کا عزم رکھنے والے کے سی آر کو مزید کئی قدم اُٹھانے ہیں۔ تلنگانہ کے حصول کے لئے ٹی آر ایس نے تحریک اور جدوجہد کی لہر پیدا کرکے شہر کے تجارتی علاقوں کو خوف زدہ کردیا تھا ۔ شہر کے بڑے تاجر گھرانوں نے اپنی عمارتوں اور شیشوں کی چار دیواری کو بچانے کے لئے انتظامات کئے تھے ۔ احتجاجیوں کی سنگباری سے عمارتوں کے شیشوں کو نقصان سے روکنے کیلئے عمارت کے اطراف جال لگانی پڑی تھی ۔ 6 ماہ قبل حیدرآباد کو دیکھنے والوں کا خیال تھا کہ یہاں ہمیشہ ہی احتجاج اور تشدد کی فضاپائی جاتی ہے ۔ سڑکوں پر جابجا رکاوٹیں ، پولیس بندوبست ، سکیورٹی انتظامات کو دیکھ کر بیرونی شہریوں کے ذہنوں میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوتی تھی مگر اب یہ سب یکسر تبدیل ہوگیا ہے ۔ یہاں کی تلنگانہ حکومت ہر ایک صنعتکار کو دعوت دے رہی ہے ۔ حال ہی میں ملک کے بڑے صنعتکار انیل امبانی نے چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ سے ملاقات کی تھی ۔ حکومت کے فرائض ادا کرنے والی ٹی آر ایس کو حیدرآباد کے امیج کی خرابی کا احساس ہوچکا ہے اس لئے وہ یہاں کے بعض اہم مسائل کو فی الفور حل کرنا چاہتی ہے۔ ماضی میں ریاست اور مرکزی سطح پر سیاسی عدم استحکام نے سرمایہ کاری کے بہاؤ کو بھی روک دیا تھا ۔ کساد بازاری اور تلنگانہ تحریک کی وجہ سے ہونے والے پرتشدد واقعات نے حیدرآبد کے امیج کو متاثر کردیا تھا ۔ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کے سی آر کو اب سیاسی استحکام کو یقینی بنانے اور مرکز ریاست تعلقات کو خوشگوار و دوستانہ بنائے رکھنے کی کوشش شروع کرنی چاہئے ۔ مگر مودی حکومت نے اب تک تلنگانہ کے تعلق سے کسی بھی قسم کی ہمدردی نہیں دکھائی ہے ۔

ٹی آر ایس حکومت کو ہی آخر خود تلنگانہ کی ترقی کے لئے منصوبے بنانے ہوں گے ۔ البتہ حکومت کو یہ ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ سرمایہ کاری کے حصول کی اندھا دھند دوڑ میں کہیں وہ حیدرآباد کو صنعتکاروں کے ہاتھوں فروخت نہ کردے کیوں کہ جس طرز کے منصوبہ بنائے جارہے ہیں اس سے اندازہ یا اندیشہ پیدا ہورہا ہے کہ ٹی آر ایس حکومت سرمایہ کاری کے نام پر حیدرآباد کے ایک ایک ذرہ کو فروخت کرنا چاہتی ہے ۔ تلنگانہ کو ترقی دینے کے نام پر اس کو سرمایہ کاروں کے سامنے برائے فروخت کا بورڈ لگاکر پیش کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ۔ کے سی آر کی حکومت حیدرآباد میں کئی ایک اہم پراجکٹس شروع کرنے جارہی ہے لیکن حیدرآباد کیلئے بلدی منصوبے ناقص دکھائی دیتے ہیں۔ موسم برسات کے دوران حیدرآباد کی موریاں اور جگہ جگہ کچرے کے ڈھیروں کا نظارہ بلدی انتظامات کے ناقص ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ حکومت نے بظاہر نیویارک سٹی کے 311 کے خطوط پر شہریوں کو ہرطرح کی شہری سہولیات دینے کے منصوبہ پر عمل کرنے کا عہد کیا ہے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ تلنگانہ کی نئی حکومت نے حیدرآبادیوں میں پائی جانے والی بے چینی اور تشویش کی کیفیت کو دور کرنے کی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کیا ہے ۔ حکومت نے معیاری ترقی کے معاملوں میں شہریوں کے اندر اعتماد پیدا کرنے میں بھی کامیابی حاصل نہیں کی ہے ۔ کل تک پڑوسی ریاستوں کے مزدور اور متوسط طبقے کے ارکان حیدرآباد میں روزگار کی تلاش کیلئے پہونچتے تھے

اب آئندہ برسوں میں حیدرآباد سے اگر پڑوسی ریاستوں کو نقل مکانی کرنے کی نوبت آئے تو یہ نئی ریاست کے حصول کیلئے کی گئی جدوجہد پر سخت طمانچہ ہوگا ۔ آنے والے دنوں میں ٹی آر ایس حکومت کو مختلف خطوط کے احتجاجی مظاہروں اور ایجی ٹیشن کی لہر کا سامنا کرنے پڑے تو ترقی کے تمام منصوبے ادھورے رہ جائیں گے کیوں کہ نئی حکومت کے تمام اہم قلمدانوں کو تو کے سی آر نے اپنے اور خاندان کے لوگوں میں تقسیم کیا ہے ، دوسروں کو کوئی موقع نہیں ملے گا ۔ تلنگانہ میں 1956 ء سے رہنے والوں کو ثبوت پیش کرنے کی شرط بھی کانٹے کی طرح کھٹکتی رہے گی ۔ حکومت اس طرح کی تجویز یا منصوبے سے دیگر نیم سرکاری تنظیمیں یا سرکاری ملازمین کی یونینیں احتجاج شرو ع کریں گی تو ریاست میں 1956 ء سے قبل کی جو صنعتیں نہیں ہیں یا صنعتکار نہیں ہیں انھیں ریاست چھوڑ دینی چاہئے ۔ اگر ٹی آر ایس حکومت 1956 ء سے قبل کی شہریت دینے کی شرط اور ضد پر قائم رہتی ہے تو پھر ان کے فرزند اور وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کو یہ جواب دینا ہوگا کہ آئی ٹی صنعت اور اس کے علاقوں کو وہ مقامی شہری کس طرح تصور کرتے ہیں۔ اقتدار پر رہنے کا ایک ماہ پورا کرلینے والے کے سی آر نے زمینات پر ناجائز قبضہ کرنے والوں کا عرصہ حیات تنگ کرنا شرو ع کردیا ہے ۔ اگر مقامی اور غیرمقامی کا تنازعہ شدت احتیار کرے

اور ناجائز قبضہ گیر عناصر کے خلاف کارروائی کا رخ کسی اور سیاسی مقصد سے مربوط ہوجائے تو پھر عوام زمین جائیداد خریدنے سے قبل مکرر غور کریں گے ۔ نئی ریاست کی ایک ایسی پارٹی کے لئے دیرپا حکومت کرنا مشکل ہوگا جو نت نئے مسائل پیدا کرنے والی پالیسیاں بنائے ۔ ریاست کے عوام اگر یہ محسوس کریںگے کہ ماضی کے مقابل آج کا تلنگانہ خاصا ترقی کرچکا ہے تو کے سی آر کی کامیابی ہوگی ۔ اگر عوام کو یہ دکھ ہونے لگے کہ ان کا قیمتی ووٹ ضائع ہوگیا ہے تو کے سی آر اوران کی پارٹی ٹی آر ایس کو بہت جلد ناکامیوں کاشکار ہونا پڑیگا ۔ گورنر کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دینے کے خلاف احتجاج کرنے والی تلنگانہ حکومت کو اس مسئلہ پر مرکز سے طاقت آزمائی کی نوبت آئی تو نقصان تلنگانہ کی ہی ہوگا کیونکہ تلنگانہ کے ساتھ ناانصافی کا پہلا تیر پولاورم پراجکٹ اور تلنگانہ کے کئی دیہاتوں کو آندھراپردیش کے حوالے کرنے کا چلادیا تھا ۔ اب گزشتہ ہفتہ ہی مرکزی وزارت داخلہ نے حیدرآباد کے لاء اینڈ آرڈر کا کنٹرول گورنر ای ایس ایل نرسمہن کے سپرد کرنے کامنصوبہ بنایا ہے۔ حیدرآباد آئندہ 10 سال تک تلنگانہ اور آندھراپردیش کا مستقبل دارالحکومت ہے لیکن مرکز کا جھکاؤ تلگودیشم پارٹی کی حکومت والی ریاست کی جانب ہے ۔لہذا چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ کو اپنی ریاست کی ترقی اور حیدرآباد کو سلم فری بنانے کے منصوبوں پر عمل آوری میں دیر نہیں کرنی چاہئے تاکہ عوام کو محسوس ہوسکے کہ ان کے چیف منسٹر کا قول و فعل یکساں ہے ۔
kbaig92@gmail.com