مرزا غالب ۔ طلب اور اعراض کا انوکھا انداز

ڈاکٹر سید داؤد اشرف
غالب کی شاعری اور نثر کی نمایاں خصوصیات ان کی دل آویز شخصیت کے کئی پہلو اجاگر کرتی ہیں ۔ ان کی عظمت کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ وہ ہر رنگ میں حتی کہ ’’تصویر کے پردہ میں بھی‘’ اپنے اندر کے حیوان ظریف کو چھپاتے نہیں عریاں کردیتے ہیں ۔ غالب نے شاعری کو قافیہ پیمائی نہیں معنی آفرینی سمجھا ۔ اپنی شاعری کو عظیم عالمی شاعری کے درجے تک پہنچایا اوراس کو ہمارا عظیم تہذیبی ورثہ بنادیا اور مکتوب نویسی کے ابتدائی دور ہی میں انوکھا ، رواں اور بے تکلف طرز تحریر اختیار کرکے ایسا رنگارنگ چمن پیدا کیا جس کے پھول اب تک تازہ اور شگفتہ ہیں اوربہار دے رہے ہیں ۔

مرزا نے پابندی رسم و رہ عام سے ساری زندگی گریز کیا ۔ فرسودہ اور روایتی ڈگر پر چلنے کی بجائے جدت پسندی سے کام لیا ۔ ان کی یہ خصوصیت ان کے طلب اور اعراض میں بھی نمایاں ہے ۔ راست طور پر وہ کوئی چیز کم مانگتے ہیں ۔ ان کے خطوط ، شاعری یا لطیفوں میں حسن طلب کی اکثر مثالیں ملتی ہیں ۔ اگر طلب راست انداز میں ہو اور مانگنے کا ڈھنگ سادہ اور سپاٹ ہو تو اس میں بے لطفی پیدا ہوجاتی ہے ۔ مرزا کی فطری ظرافت و شوخی ، بات کہنے کا نرالا ڈھنگ ، بات میں بات پیدا کرنے کی کوشش نے طلب میں ایک خاص لطف و خوبی پیدا کردی ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اس خاص انداز میں طلب کرتے ہیں کہ انکار بن نہیں پڑتا ۔

مرزا صاحب مانگنا اور طلب کرنا ہی نہیں جانتے تھے دوسری کی ضرورت اور خواہش کو پورا کرنا بھی خوب جانتے تھے ۔ جہاں انھوں نے اپنے رشتہ داروں ، دوستوں اور شاگردوں سے سوال کیا ہے وہیں انھوں نے ان لوگوں یا دیگر لوگوں کی فرمائشیں پورا کرنے میں بھی کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا ۔ عمر کے آخری حصے میں بیماری اور ضعف پیری کے باعث بستر پر لیٹے لیٹے شاگردوں کا بھیجا ہوا کلام پڑھتے اور اصلاح دیتے ۔ وہ اپنے دوستوں اور شاگردوں کو بے حد عزیز رکھتے تھے ۔ ان کی خوشی پر مسرور اور ان کے دکھ درد پر رنجیدہ ہوجاتے تھے ۔ بعض اوقات ان کے احباب اور شاگرد ایسی فرمائشیں کربیٹھتے تھے جنھیں پورا کرنے میں کسی وجہ سے انھیں تامل ہوتا ۔ تو ایسی صورت میں وہ ایک خاص انداز میں پہلو بچانے کی کوشش کرتے کیونکہ وہ محبت اور مروت کے پیکر تھے اور اپنی کسی بات سے دوسروں کو رنجیدہ نہیں ہونے دیتے تھے ۔

اس لئے وہ جواب میں عام طور پر صاف انکار سے پرہیز کرتے ہیں اور بات ٹالنے کے لئے کوئی نہ کوئی دلچسپ نکتہ ڈھونڈ نکالتے ہیں ۔ جب کسی کی فرمائش پوری کرنے میں وہ خود کو معذور پاتے ہیں یا کسی کے ارادے کو ناپسند کرتے ہیں تو ایسی صورت میں مکتوب الیہ کو فرمائش یا ارادے سے باز رکھنے کے لئے مشورہ و نصیحت کرتے ہیں ۔ان کا مشورہ کڑوی دوا کی مانند نہیں ہوتا جسے پینے سے منہ کا ذائقہ بگڑتا ہے یا منہ بنانے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ بات ظرافت کے پردے میں کہتے ہیں تاکہ ناگوار نہ گزرے اور بدمزگی پیدا نہ ہونے پائے۔ ظرافت غالب کی شخصیت کا ایک اہم ترین وصف ہے ۔ شوخی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے ۔ یہ شوخی و ظرافت خاص خاص موقعوں اور موضوعات کی پابند نہیں ۔ مرزا کسی بھی واقعے یا بات میں اس کے مضحک یا تفریحی پہلو ابھارتے ہیں ۔ دکھ درد کا تذکرہ ہو کہ رنج و افسردگی کا بیان ان کا قلم شوخی اور روانی کو نہیں بھولتا ۔ غم کے موقع پر آزردہ اور رنجیدہ خاطر ہو کر وہ آہ و بکا نہیں کرتے بلکہ اس میں مزاح کا پہلو نکال کر غم کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

بستر علالت اور بستر مرگ سے بھی جو خطوط انھوں نے تحریر کئے ہیں ان میں بھی ان کی فطری ظرافت اور شگفتگی اپنی جوہر دکھاتی ہے ۔ سخت سے سخت اور مشکل سے مشکل حالات میں مذاق کا سوجھنا غالب جیسے حیوانِ ظریف ہی کا حصہ ہے ۔ ان کے اردو خطوط کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے مکتوب الیہ کو خوش کرنے اور اس کے دل کو بہلانے کا التزام کیا ہے ۔ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مرزا کو اس اہم سماجی ذمہ داری کا پورا پورا احساس تھا اور وہ اس ذمہ داری سے پوری کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوئے ہیں ۔ مرزا نے اسی پراکتفا نہیں کیا بلکہ وہ اس سے بھی چند قدم آگے نکل گئے ہیں ۔ دوسروں کا مذاق اڑانا آسان ہے لیکن خود پر ہنسنا یا خود کو مذاق کا نشانہ بنانا اعلی ظرفی اور بلند حوصلگی کی بات ہے ۔
ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس ’’حیوانِ ظریف‘‘ کی فطری ظرافت طلب اور اعراض میں کس حد تک ان کا ساتھ دیتی ہے ۔ دیکھئے آیا وہ اونچی آواز اور کرخت لہجے میں صدا بلند کرتے ہیں یا دلچسپ اور دل لبھانے والے انداز میں سوال کرکے حاجت روا کو مسرور اور مسخر کرلیتے ہیں ۔ کسی کی فرمائش کو بے مروتی سے رد کردیتے ہیں یا ظریفانہ انداز اختیار کرکے پہلو بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کے یہاں طلب اور اعراض میں بھی ظرافت ،شگفتگی اور ذہانت جلوہ گر ہے جس میں مزاح کی ہلکی ہلکی آمیزش اور جدت پسندی نے ایک انوکھا پن پیدا کردیا ہے ۔ غالب کے حسن طلب اور حسن اعراض کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
علاء الدین احمد خان کے نام یہ خط حسن طلب ہی کا نہیں غالب کی دل کش تحریر کا ایک بہترین نمونہ ہے ۔ خط ملاحظہ فرمایئے ۔

’’یہاں میں بڑی مصیبت میں ہوں ۔ محل سرا کی دیواریں گرگئی ہیں ۔ پاخانہ ڈھے گیا ۔ چھتیں ٹپک رہی ہیں ۔ تمہاری پھوپی کہتی ہیں ہائے دبی ، ہائے مری ۔ دیوان خانہ کا حال محل سرا سے بدتر ہے ۔ میں مرنے سے نہیں ڈرتا ، فقدان راحت سے گھبراتا ہوں ۔ چھت چھلنی ہے ، ابر دو گھنٹے برسے تو چھت چار گھنٹے برستی ہے ۔ مالک اگر چاہے مرمت کرے تو کیونکر کرے ۔ مینہ رکے تو سب کچھ ہو اور پھر اثنائے مرمت میں ، میں بیٹھا کس طرح رہوں ۔ اگر تم سے ہوسکے تو برسات تک بھائی سے مجھ کو وہ حویلی جس میں میر حسن رہتے تھے ، اپنی پھوپی کے رہنے کو اور کوٹھی میں سے وہ بالاخانہ مع دالان زیریں جو الہی بخش خاں مرحوم کا مسکن تھا میرے رہنے کو دلوادو ۔ برسات گزر جائے گی ۔ مرمت ہوجائے گی ۔ پھر صاحب اور میم صاحب اور بابا لوگ (غالب ، ان کی بیگم اور بچے) اپنے قدیم مسکن میں آرہیں گے ۔ تمہارے والد کے ایثار و عطا کے جہاں مجھ پر احسان ہیں ، ایک یہ مروت کا احسان میرے پایاں عمر میں اور بھی سہی‘‘ ۔ اس خط میں طنز ، ظرافت اور ہجو کا انداز ملتا ہے ۔ یہ ہجو کسی اور کی نہیں ان کے اپنے مکان کی ہے ۔ اس طرح یہ اپنے حال زار پہ ہنسنا بھی ہے ۔ غالب کا یہ بیان کہ وہ مرنے سے نہیں ڈرتے فقدان راحت سے گھبراتے ہیں ان کے کردار اور وضع داری کی طرف اشارہ ہے ۔ اس خط میں گذارش احوال واقعی اور انداز طلب دونوں باوقار ڈھنگ سے ملتے ہیں۔
نواب یوسف علی خاں بہادر نے حیدر علی خان بہادر کی شادی کے موقع پر خلوت و تورہ کے لئے مرزا کو 125 روپے بھیجے تھے ۔ مرزا ان روپیوں کو خرچ کرلینے اور آئندہ کی سبیل نکالتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ ’’یہ تحریر نہیں مکالمہ ہے ۔ گستاخی معاف کرواکے اور آپ سے اجازت لے کر بطریق انبساط عرض کرتا ہوں کہ یہ سوا سو روپے جو تورہ و خلعت کے نام سے مرحمت ہوئے ہیں ، میں کال کا مارا اگر یہ سب روپیہ کھاجاؤں گا اور اس میں لباس نہ بناؤں گا تو میرا خلعت حضور باقی رہے گا یا نہیں
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
داد کا طالب
غالب‘‘

یہ دلچسپ طرز تحریر واقعی تحریر نہیں مکالمہ ہے ۔ طلب میں مزاح کا پہلو انوکھا بھی ہے اور موثر بھی ایسے حسن طلب کے بعد شاید ہی کوئی انکار کرے ۔
نواب یوسف علی خان بہادر والیٔ رامپور کے انتقال کے بعد کلب علی خان بہادر مسند نشیں ہوئے ۔ مرزا نے کلب علی خان بہادر کی مسند نشینی کی مسرت میں قصیدہ تہنیت لکھ بھیجا وہاں سے صلہ پانے میں تاخیر ہوئی تو وہ والیٔ رام پور کو لکھتے ہیں ۔ ’’پیر و مرشد ! حضرت فردوس مکان کا دستور تھا کہ جب میں قصیدہ بھیجتا اس کی رسید میں خط تحسین و آفریں کا ، شرم آتی ہے کہتے ہوئے مگر کہے بغیر بنتی نہیں ، 250 کی ہینڈوی اس خط میں ملفوف ہوا کرتی تھی … یہ رسم بری نہیں اگر جاری رہے تو بہتر ہے ۔ اس خط میں طلب تقاضہ بن چکی ہے لیکن طلب کا انداز شاعرانہ ہے۔ ’’یہ رسم بری نہیں اگر جاری رہے تو بہتر ہے‘‘ ۔ غالب طلب اور تقاضے کے شدید لمحات میں اپنے مقام اور مرتبے کو یکسر فراموش نہیں کردیتے ہیں ۔ مرزا قرض کے باعث بے حد پریشان رہا کرتے تھے ۔ والیٔ رام پور نواب کلب علی خان بہادر سے وہ راحت کے طلب گار ہیں ۔ان سے وہ نہ صرف قرض کی ادائی کے لئے رقم مانگتے ہیں بلکہ مستقل تنخواہ میں اس قدر اضافہ چاہتے ہیں کہ انھیں اپنے اخراجات کی پابجائی کے لئے آئندہ قرض نہ لینا پڑے ۔ خط ملاحظہ کیجئے ۔
’’حضور ملک و مال جس کوجس قدر چاہیں عطا کرسکتے ہیں ۔ میں آپ سے صرف راحت مانگتا ہوں اور راحت منحصر اس میں ہے کہ قرض باقی ماندہ ادا ہوجائے اور آئندہ قرض لینے کی حاجت نہ پڑے‘‘ ۔ حالی ’’یادگار غالب‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ایک روز مرحوم بہادر شاہ آم کے موسم میں چند مصاحبوں کے ساتھ جن میں مرزا بھی تھے باغ حیات بخش یا مہتاب باغ میں ٹہل رہے تھے ۔ آم کے پیڑ رنگ برنگ کے آموں سے لد رہے تھے ۔ یہاں کا آم بادشاہ یا سلاطین یا بیگمات کے سوا کسی کو میسر نہیں آسکتا تھا ۔ مرزا بار بار آموں کی طرف غور سے دیکھتے تھے ۔ بادشاہ نے پوچھا مرزا اس قدر غور سے کیا دیکھتے ہو؟ ہاتھ باندھ کر عرض کیا ’’پیر و مرشد جو کسی بزرگ نے کہا ہے
برسر ہر دانہ بنوشتہ عیاں
کایں فلاں ابن فلاں ابن فلاں
اسی کو دیکھتا ہوں کہ کسی دانے پر میرا اور میرے باپ دادا کا نام بھی لکھا ہے یا نہیں ۔ بادشاہ مسکرائے اور اس روز ایک بہنگی عمدہ آموں کی مرزا کو بھجوائی‘‘۔ اس واقعے میں ہی حسن طلب کی داد بہادر شاہ ظفر سے مرزا کو آموں کے تحفے کی شکل میں مل جاتی ہے ۔غالب اپنے حسن طلب کے ذریعے کیا حاصل نہیں کرسکتے ۔

حالی نے ’’یادگار غالب‘‘ میں جو حسب ذیل واقعہ لطیفہ کے زیر عنوان بیان کیا ہے وہ حسن طلب کی ایک اچھی مثال ہے ۔ ’’ایک دن دیوان فضل اللہ خان مرحوم چرٹ میں سوار مرزا کے مکان کے پاس سے بغیر ملے نکل گئے ۔ مرزا کو معلوم ہوا تو انھوں نے ایک رقعہ دیوان جی کو لکھا ’’آج مجھ کو اس قدر ندامت ہوئی کہ شرم کے مارے زمیں میں گڑا جاتا ہوں ۔ اس سے زیادہ اور کیا نالائقی ہوسکتی ہے کہ آپ کبھی نہ کبھی تو اس طرف سے گزریں اور میں سلام کو حاضر نہ ہوں‘‘ ۔ جب یہ رقعہ دیوان جی کے پاس پہنچا تو بہت شرمندہ ہوئے اور اسی وقت گاڑی میں سوار ہو کرمرزا صاحب سے ملنے کو آئے‘‘ ۔

اس واقعے میں غالب کے طنز کا تیکھا پن ملتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ندامت غالب کو نہیں ہوئی بلکہ فضل اللہ خاں صاحب کو ہوئی اور غالب کے طنز نے ان میں شدید ردعمل پیدا کرنے کی بجائے انھیں کچے دھاگے سے باندھ کر غالب کے یہاں پہنچادیا ۔ منشی ہرگوپال تفتہ فارسی کے شاعر اور مرزا کے بہت عزیز شاگرد تھے ۔ اردو میں غالب کے سب سے زیادہ خطوط ان ہی کے نام ہیں ۔ تفتہ نے ایک بار مرزا سے اپنے دوسرے دیوان پر تقریظ لکھنے کی فرمائش کی ۔ اس کے جواب میں مرزا نے جو مکتوب لکھا تھا وہ مرزا کا شاعری کی جانب جو رویہ تھا اس کی واضح طور پر ترجمانی کرتا ہے ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ شاعری قافیہ پیمائی کے لئے ، وقت گزارنے یا دل بہلانے کی خاطر کی جائے ۔ شاعری کے لئے غور و فکر ، چھان پھٹک اور خود احتسابی ضروری سمجھتے ہیں ۔ اس خط میں خاص بات ہے کہ تلقین و تنقید کے متعلق اہم اور بیش قیمت مشورے برجستہ انداز میں ملتے ہیں ۔ یہاں صاف گوئی بھی ہے اور کھری کھری باتیںبھی ، لیکن اس مخلصانہ انداز میں کہ دل ٹوٹنے نہ پائے ۔
’’صاحب !
دیباچہ اور تقریظ لکھنا ایسا آسان نہیں جیسا تم کو دیوان لکھ لینا ۔ کیوں روپیہ خرچ کرتے ہو اور کیوں چھپواتے ہو ؟ اگر یوں ہی جی چاہتا ہے تو ابھی کہے جاؤ ۔ آگے چل کر دیکھ لینا ۔ اب یہ دیوان چھپوا کر تیسرے دیوان کی فکر میں پڑوگے ۔ تم دوچار برس میں ایک دیوان کہہ لوگے ۔ میں کب تک دیباچے لکھا کروں گا ۔ مدعا یہ ہے کہ اس دیوان کو اس دیوان کے برابر ہو لینے دو ۔ اب کچھ قصیدہ اور رباعی کی فکر کیا کرو ۔ دو چار برس میں اس قسم سے جو کچھ فراہم ہوجائے دوسرے دیوان میں اس کو بھی درج کرو‘‘۔

نواب علاء الدین خان علائی نے مرزا سے اپنے لڑکے کی ولادت کی تاریخ اور اس کا اسم تاریخی نظم کرنے کی فرمائش کی تھی ۔ اس کے جواب میں لکھتے ہیں ۔ ’’بشر اپنے بچوں کو شکار کا گوشت کھلاتا ہے ۔ طریق صیدافگنی سکھاتا ہے ۔ جب وہ جوان ہوجاتے ہیں آپ شکار کر کھاتے ہیں ۔ حسن طبع خداداد رکھتے ہو ۔ ولادت فرزند کی تاریخ کیوں نہ نکال لو ۔ مجھ پیر غم زدہ دل کو تکلیف دو ۔ علا الدین خان ، تیری جان کی قسم ، میں نے پہلے لڑکے کا اسم تاریخی نظم کردیا تھا اور وہ لڑکا نہ جیا ۔ مجھ کو اس وہم نے گھیرا ہے کہ میری نحوست طالع کی تاثیر تھی ۔ میرا ممدوح جیتا نہیں ۔ نصیر الدین حیدر اور امجد علی شاہ ایک ایک قصیدہ میں چل دیئے ۔ واجد علی شاہ تین قصیدوں کے متحمل ہوئے پھر نہ سنبھل سکے ۔ جس کی مدح میں دس بیس قصیدے کہے گئے وہ عدم سے بھی پرے جا پہنچا ۔ نہ صاحب ،دہائی خدا کی ، میں نہ تاریخ ولادت کہوں گا ، نہ نام تاریخی ڈھونڈوں گا‘‘ ۔ یہ خط پکار پکار کر کہتا ہے مرزا جدید اردو نثر کے بانی و خالق تھے ۔ اتنی رواں اور حسین نثر آج بھی کاہے کو دیکھنے کو ملے گی ۔ یہ مرزا کا منفرد اسٹائل ہے ۔ یہاں انکار ہے پہلو تہی ہے لیکن کس خوبی کے ساتھ ۔ انکار میں ایسی تحریر پانے والا اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کرسکتا ہے کیونکہ اس خط میں مرزا کا طنز و مزاح ، بے ساختہ دل کو لبھانے والا انداز بیان ۔ غرض یہ کہ سب کچھ مل جاتا ہے ۔
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور