مرزا غالب کا خط منظورالامین کے نام

میرا کالم             سید امتیاز الدین
عزیزی میاں منظور الامین، غالب خستہ کا سلام قبول کرو۔
بھئی تمہارے نام ہمارا یہ پہلا خط ہے ۔ پہلا کیوں نہ ہو جبکہ تم سے ہماری راہ و رسم ہی کب تھی۔ اُس عالم آب و گل میں ہماری کبھی ملاقات ہی نہیں ہوئی ۔ آج صبح ہم سیر کو نکلے تو دور سے ہم کو نواب مصطفی خاں شیفتہ دکھائی دیئے۔ اُن کے ساتھ ہمارا پیارا شاگرد الطاف حسین حالی بھی تھا۔ تم کو یہ بھی پتہ ہوگا کہ حالیؔ غضب کا آدمی ہے ۔ ہے تو پانی پت کا جہاں کی لڑائیاں بہت مشہور ہیں بلکہ وہاں کا ایک وسیع میدان ہی جنگوں کے لئے وقف تھا لیکن حالی بہت صلح جوہے۔ ہمارا شاگرد ہے ، میر کا مقلد ہے اور شیفتہ سے استفادہ کرتا ہے ۔ اسی لئے ان کے ساتھ چہل قدمی بھی کرتاہے ۔ خیر بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔ میں نے دیکھا کہ حالی کے ہاتھ میں ایک کتاب ہے جس پر ایک شبیہ ہے جو اس فقیر پر تقصیر سے ملتی جلتی ہے ۔ میں نے  حالی سے پوچھا میاں یہ کونسی کتاب لئے گھوم رہے ہو۔ کہیں اس کا تعلق ہم سے تو نہیں ہے ۔ حالی نے سر جھکا کر کہا ’’ حضور آپ کا اندازہ صد فیصد درست ہے ۔ یہ کتاب آج ہی حیدرآباد سے مجھے کسی نے بھیجی ہے ۔ کوئی منظورالامین صاحب ہیں۔ پہلے لا سلکی میں تھے ۔ بعد میں دوردرشن میں اعلیٰ عہدہ پر فائز ہوئے۔اب وظیفہ حسنِ خدمت اُٹھا رہے ہیں اور گھر پر تصور غالب کئے ہوئے بیٹھے ہیں۔ یہ کتاب آپ کی نذر کرنے کیلئے نکلا تھا ۔ راستے میں نواب مصطفی خاں شیفتہ مل گئے ۔ ہم دونوں آپ ہی کی طرف آرہے تھے ۔ لیجئے کتاب آپ کی نذر ہے ۔ اس کتاب کا نام ہے مرزا غالب کا سفر نامۂ فرنگ ۔ آئیے ایک پیالہ چائے کا پی لیں۔ پھر اپنے اپنے گھروں کی راہ لیں۔ ایک عالم اشتیاق میں تمہاری کتاب لئے ہوئے ہم گھر میں داخل ہوئے اُمراؤ بیگم ہاتھ میں بادام کا حریرہ لئے کھڑی تھیں۔ ہم نے امراؤ بیگم سے پیالہ لیا اور تمہاری کتاب پرنظریں دوڑاتے ہوئے حریرہ پینے لگے ۔ ہم کو اپنا زمانہ یاد آنے لگا ۔ ہم کو اپنا دیوان شائع کرنے میں کتنی مشکلیں پیش آئی تھیں۔ ایک یہ تمہاری کتاب مرزا غالب کا سفر نامہ فرنگ ،کہنے کو تو یہ بھی دلی کے چھاپہ خانے میں چھپی ہے لیکن کیسی خوبصورت لکھائی ، کیا مضبوط جلد ۔ جی خوش ہوگیا ۔ کتاب کھولی تو انتساب پرنظر پڑی ۔ میاں بڑے سعادت مند ہو۔ کتاب اپنی والدہ بسم اللہ بیگم کے نام معنون کی ہے ۔ مجھے کسی نے بتایا کہ تمہارے والد کا نام محمد بسم اللہ خاں تھا ۔ شاید اس دو آتشہ وجہ تسمیہ کی برکت ہے کہ تم نے بڑے بڑے اور اچھے اچھے کام کئے اور آج بھی ڈھلتی ہوئی عمر کو خاطر میں نہیں لاتے اور کچھ نہ کچھ کئے جاتے ہو۔
بھئی تم نے اپنی کتاب دلی کی ایک صبح سے شروع کی ہے ۔ ہماری بیگم ہمیں بیدار کرتی ہیں اور ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ اسی شام شہزادہ جواں بخت کی شادی میں شریک ہونا اور اپنا سہرا سنانا ہے ۔ برخوردار یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ تم نے کیا لکھ دیا کہ لال قلعہ میں استاد ذوق نے میرے کلام کی مدح سرائی کی  ۔ اُستاد توجب تک زندہ رہے ، معاصرانہ چشمک میں مبتلا رہے ۔ اُنہوں نے کہا تھا ۔

نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
میاں منظور الامین کیا تم کو یاد نہیں کہ مجھے اُتھی کی وجہ سے گزارش احوال واقعی لکھا پڑا تھا ۔ خیر چھوڑو ۔ گزشت آنچہ گزشت۔
اچھا ہوا میاں حالی نے مجھ کو پہلے ہی بتادیا تھا کہ تم نے یہ کتاب افسانوی رنگ میں لکھی ہے اور اس کی ہر بات کو میں سچ نہ سمجھوں۔ یہ تم نے خوب لکھا کہ میں وسیع النظر تھا اور ہر مذہب اور ہرمکتب خیال کے لوگوں سے میرا یارانہ تھا ۔ تم نے لکھا ہے کہ منو لال موچی ، خواجہ بخش درزی سب سے میں خوش دلی سے ملتا تھا ۔ ہندی کوی شنکر دیال ترپاٹھی ، منشی برگوپال تفتہ ، میر مہدی مجروح، وحشت ، حالی، مفتی صدر الدین آزردہ ، مولوی فضلِ حق خیرآبادی ، نواب علاء الدین خاں علائی سب کے سب میرے حلقہ احباب میں شامل تھے ۔ ہم آپس میں ایک تھے ۔ صرف فرنگی کو اپنا دشمن سمجھتے تھے ۔ غدر کی داستان دیکھو ۔ کیا ہندو کیا مسلمان کیا سکھ ۔ سب نے مل کر یہ لڑائی لڑی۔ رواداری ، عدم رواداری کا قصہ تو اب چھڑا ہے ۔ اردو اور ہندی کو ہم دو بہنیں سمجھتے تھے اور تو اور میرے بعد اقبال آیا اور اس نے کیا اچھی بات کہی۔
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
سنتا ہوں کہ آج کل اردو کی کتابیں چھپ رہی ہیں لیکن ان کو پڑھنے والے کم ہوگئے ہیں۔ کم کیا ہوئے ، بہت سے تو یہاں آگئے ہیں ۔ رسم الخط بدلنے کی باتیں ہورہی ہیں جو اردو کے حق میں اچھی نہیں ہیں۔
میاں ! خوب یاد آیا ۔ تم نے ہمیں لندن کے سفر میں وہ جگہ دکھائی جسے دیکھ کر آنکھیں نم ہوگئیں ۔ کیا نام تھا بھلا ۔ مادام تسو۔ تم نے لکھا ہے کہ یہ موم کی مجسمہ ساز 1840 ء میں دلی آئی تھی اور اُس نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا مجسمہ بنایا تھا ۔ وہ مجسمہِ ظلِ سبحانی سے اس قدر مشابہ ہے کہ ہم اسے دیکھ کر مبہوت رہ گئے ۔ حیرت ہے کہ مادام تسو ہم سے نہیں ملیں اور ہمارا مجسمہ نہیں بنایا ۔ بہادر شاہ ظفر کی تاجداری تو ختم ہوگئی لیکن ہماری شہنشاہی اقلیم سخن میں آج بھی چل رہی ہے ۔

برخوردار ، ایک شکایت تم سے ضرور ہے اور رہے گی ۔ دنیا جانتی ہے کہ غالب بادہ خوار تھا ۔ قرض کی بھی پیتا تھا لیکن تم نے اپنی کتاب میں مجھے اتنی پلائی ، اتنی پلائی کہ میں بے خود ہوگیا ۔ عزیزی میری مئے نوشی کے  ذکر سے میرا نامۂ اعمال کب خالی تھا جو تم نے قدم قدم پر بادہ و جام کا ذکر چھیڑ دیا۔ شراب نوشی کے گناہ سے میں اپنا بچاو اس شعر سے کر رہا تھا ۔
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
اب یہاں یہ کہا جانے لگا ہے کہ تمہارا آدمی دکن میں بیٹھا ہے اور تمہارا کچا چٹھا کھول رہا ہے ۔ اب مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ بھئی منظورالامین ریڈیو اور ٹی وی کا آدمی ہے ۔ وہ قصے کہانیوں کو ڈرامے بناکر پیش کرتا رہا ہے ۔ اس نے میری زندگی کو بھی افسانوی رنگ دے دیا ہے ۔ بھلا بتاؤ میں دبئی کب گیا ، اٹلی کب گیا ، لندن کب گیا ۔ اس لئے منظورالامین کی گواہی کالعدم ۔
ایک اچھی بات تم نے لکھی ہے جس سے لذت کام و دہن کا سامان ہوگیا ۔ غالب کا تذکرہ بادہ و جام کے بغیربھی ہوسکتا ہے لیکن آم کے بغیر نامکمل ہے ۔ لنگڑا ، چوسہ ، دسہری تو ہم نے زندگی بھرکھائے لیکن تم نے حیدرآبادی آموں کا ذکر کر کے ہماری آتش شوق کو اور بھڑکا دیا ۔ یہ حمایت کونسا آم ہے ۔ حمایت کون صاحب تھے، جن سے موسوم ہوکر یہ آم ہرا یک کی زبان پر چڑھ گیا بلکہ ہر زبان کو شیریں کر گیا ۔
تم نے لکھا ہے کہ میں نے ابتداء میں فارسی شاعروں کا تتبع کیا اور بعد میں ناسخ کا ۔ وہ میرا ابتدائی زمانہ تھا۔ جان عزیز یہ نکتہ کہاں سے ڈھونڈ لائے ۔ میں نے ناسخ کی پیروی صرف ابتداء میں کی بعد میں کی نہ ورزش میں، نہ خوش خورا کی میں اور نہ شاعری میں ان کا تنقیع کہا، ہاں ایک شعر میں یوں کہا  ؎

غالب ا پنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
اس سے میر کی بڑائی ظاہر ہوئی اور ناسخ سے محض اتفاق رائے ۔ اور بس ایک اور بات ہمارے بارے میں تم نے لکھی ہے کہ ہم قصیدے لکھتے تھے تاکہ نوابوں اور صاحبان ثروت کی طرف سے ہمارے لئے شراب کا انتظام ہوجائے ۔ میاں صاحبزادے غالب سدا سے غلامِ ساقی کوثر رہا ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کئی والیانِ ریاست نے ہمارے ساتھ حسن سلوک کیا ۔ ایک شاعر حسن سلوک کا جواب شعر ہی سے دے سکتا ہے ۔ مال و متاع تو اس کے پاس ہوتا نہیں۔ ایک نواب صاحب سفر حج پر روانہ ہورہے تھے ۔ ہم نے ان کو مبارکباد پیش کی اور درخواست کی کہ اگر آپ مجھے بھی ساتھ لے چلیں تو آدھا ثواب نذر کروں گا حضور کی۔ نعوذ باللہ یہ بادۂ دوشینہ کی فرمائش تو نہیں ہے ۔
تم نے اپنی کتاب میں میری ملاقات عبدالقادر بیدل ، اقبال اور کئی اہم ہستیوں سے کرائی ہے جس کا شکریہ لیکن ونسٹن چرچل کے دادا سے مل کر مجھے بالکل خوشی نہیں ہوئی۔ ونسٹن چرچل ہو یا اس کا دادا ۔ دونوں ہی ہندوستان کو ہمیشہ غلام بنائے رکھنا چاہتے تھے۔ ونسٹن چرچل کے ذکر پر مجھے ایک بات یاد آئی ۔ انگریزوں کے خلاف جنگ میں ہمارے ہم وطنوں نے اپنی اپنی بساط کے موافق حصہ لیا ۔ پنجاب سے ایک اخبار نکلتا تھا جس کا نام تھا ’’پیسہ‘‘ اخبار ۔ اس کے مدیر ونسٹن چرچل سے کسی نہ کسی طرح ملے ۔ چرچل نے بڑی بے رخی سے ان کے آنے کی وجہ پوچھی ۔ اخبار پیسہ کے مدیر نے کہا ’’ہندوستان کو فوراً آزادی دے دو، ورنہ …، چرچل نے کہا ورنہ کیا کرلو گے ؟ ’ پیسہ‘ کے مدیر نے کہا ’ورنہ میں اپنے اخبار میں آپ کے خلاف بہت سخت اداریہ لکھوں گا۔
بھائی آخر میں تم نے اردو کے حال اور مستقبل کے بارے میں تین سوال کئے ہیں۔ کیا اردو ختم ہورہی ہے یا ختم ہوجائے گی ۔ ان سوالات کا جواب آج کی نسل دے سکتی ہے جس پر اردو کو زندہ رکھنے کی  ذمہ داری ہے۔ اس پر مجھ کو کپور یاد آگیا۔ ارے بھئی اپنا کنہیا لال کپور۔ بڑا اچھا طنز نگار تھا ۔ اردو کا عاشق اور میرے کلام کا شیدائی ۔ اس نے اپنی کتابوں کے نام میرے دیوان  سے نکالے تھے ۔ اس نے اپنی ایک کتاب اردو کے نام معنون کی تھی ان الفاظ کے ساتھ ’ اردو کے نام۔ جو مظلوم ہونے کے ساتھ ظالم بھی ہے کہ دشمنوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود مرنے ہی نہیں پاتی‘ جب تک غالب کے قدر دان زندہ ہیں اردو زندہ ہے ۔ ہاں جس دن لوگ مرزا غالب کو مرجا گالب کہنے لگیں تو اردو کی عافیت اور اپنی عاقبت کی فکر کرو۔
لو صاحب ! تم نے ہمارے بارے میں کتاب لکھی ہم نے اتنا لمبا خط تمہیں لکھ دیا ۔ تم نے ہمارے پاؤں دابے، ہم نے تمہاری اجرت دابی ، حساب برابر۔
دعاؤں کا طالب
غالب
(منظورالامین صاحب کی کتاب کی رسم اجراء کے موقع پر لکھا گیا) کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کے اہتمام سے چھپی ہے ۔ قیمت دو سو روپئے ہے)