مرزا داغ دہلوی (اردو زبان و ادب کے منفرد شاعر)

ڈاکٹر امیر علی
داغ 25 مئی 1831 ء کو محلہ چاندنی چوک دلی میں پیدا ہوئے ۔ داغ چاندنی چوک کے جس کوچے میں پیدا ہوئے تھے، اب اس کا نام کوچہ استاد داغ کے نام سے موسوم ہے۔ داغ کے اجداد کا تعلق سمر قند سے تھا جو اٹھارویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں آکر آباد ہوئے۔ داغ کا نام ابراہیم رکھا گیا مگر انہوں نے اپنا نام بدل کر مرزا خان رکھ لیا ۔شاعری کی دنیا میں بلبل ہندوستان ، ناظم یار جنگ نواب فصیح الملک مرزا خان داغ دہلوی کے نام اور خطابات سے جانے جاتے ہیں۔ چھ برس کی عمر تھی کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ 1837 ء میں اُن کی والدہ چھوٹی بیگم نے مغل شنشاہ بہادر شاہ ظفر کے فرزند فتح الملک مرزا فخر و ولی عہد سے عقد کیا اور شوکت محل کے خطاب سے موسوم ہوئیں۔ داغ بھی اپنی والدہ کے ہمراہ قلعہ معلیٰ میں رہنے لگے۔ داغ بڑے ہی خوش نصیب تھے کہ ان کو مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر اور ولیعہد مرزا فخرو کی رہنمائی و سرپرستی حاصل رہی اور ساتھ ہی ساتھ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت قلعہ معلیٰ کے شہزادوں کے ہمراہ ہوئی ۔داغ نے غلام حسین شکیبا کے صاحبزادے مولوی سید احمد حسین سے فارسی اور اردو کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اس دور کے مشہور خوش نویس سید امیر پنجہ کش دہلوی سے فن خوش نویسی میں مہارت حاصل کی ۔ قلعہ معلیٰ کے ادبی ماحول اور بہادر شاہ ظفر کی سرپرستی نے داغ کو شعر و شاعری کی طرف مائل کیا ۔ داغ شاعری میں ابراہیم ذوق کے شاگرد ہوئے ۔ قلعہ معلیٰ میں مرزا غالب کا تو آنا جانا تھا اور قلعہ معلیٰ میں آئے دن ادبی مشاعرے ہوا کرتے تھے جس میں بہادر شاہ ظفر موجود رہتے وہ خود بھی اردو کے پر گو شاعر اور نیک دل شہنشاہ  تھے۔ اُن کا دربار علماء ، شعراء اور اہل ہنر کا ملجا و ماوا تھا ۔ داغ نے شاعری کے میدان میں قدم رکھا تو ہر طرف غالب ، ذؤق ، مومن اور ظفر کی شاعری کی دھوم تھی ۔ قلعہ معلیٰ کے اندر اور باہر ان شعراء کے فکر و فن کا طوطی بول رہا تھا ۔ غالب فلسفیانہ مضامین اور مسائل تصوف کے باب میں بیان کے دریا بہا رہے تھے ۔ استاد ذوق زبان و محاورے کو جلا دینے میں مصروف تھے ۔ داغ نے بھی شعر و شاعری اور ادب میں ایسے جوہر دکھائے ہیں جس کے اجلے نقوش آج بھی نمایاں ہیں۔ داغ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ غزل ان کی محبوب صنف سخن ہے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے دوسری اصناف سخن  میں بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ داغ نے اپنے کلام میں اس دور کے حالات کو سمودیا ہے۔ گلزار داغ ، مہتاب داغ اور فریاد داغ ، آپ کی اہم شعری تصانیف ہیں ۔ داغ کی شخصیت اور شاعری کے غالب ، ذوق ، مومن ، صہبانی اور ظفر سبھی مداح تھے  اور ان کو ہونہار سمجھتے تھے ۔ بہادر شاہ ظفر اور امام بخش صہبانی پر تو داغ کی شاعری کا جادو چل چکا تھا ۔ دلی کے زینت باڑی محلے میں ’’ایک طرحی‘‘ مشاعرہ منعقد ہوا تھا جس میں نامور شعراء شریک تھے جب داغ نے اپنا کلام پیش کیا تو امام بخش صہبانی جھوم اٹھے اور خواب داد دی اور داغ کو گلے لگالیا تھا ۔ داغ نے جو شعر پڑھا تھا وہ اس طرح تھا۔
لگ گئی چپ تجھے ائے داغ حزیں کیوں ایسی
مجھ کو کچھ ال تو کم بخت بنایا ہوتا
احسن مارہروی نے داغ کی شاعرانہ صلاحیتوں کے کچھ واقعات  بیان کئے ہیں۔ نواب مصطفی خان شیفتہ کے ہاں ایک مشاعرہ منعقد ہوا تھا اور کئی نامور شعراء شریک تھے ۔ داغ نے اپنی غزل سنائی تو سب لوگ حیرت میں پڑگئے ۔ داغ کی غزل کا مطلع اس طرح تھا :
شرر و برق نہیں شعلہ و سیماب نہیں
کس لئے پھر یہ ٹھہرتا دل بیتاب نہیں
مرزا غالبؔ داغ کی شخصیت اور شاعری کے بڑے مداح تھے اور داغ کو ہونہار سمجھتے تھے۔ بقول داغ میں نے مرزا غالب کی مشہور غزل:
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

مرزا غالب بے چین ہوگئے ۔ زانوں پر ہاتھ مار کر بولے ’’خدا نطر بد سے بچائے صاحبزادے تم نے تو کمال کردیا‘‘۔ داغ ازل سے ہی عشق کا جذبہ اپنے دل میں لیکر پیدا ہوئے تھے ۔ وہ سانس بھی لیتے تھے تو عشق کی چھری  ان کے قلب و جگر میں پیوست ہوتی تھی ۔ ان کے ہاں عشق کی بے انتہا شدت ہے ۔ والہانہ جذبات ، لطافت زبان ، نزاکت الفاظ و بیان، محاوروں کا برمحل استعمال ، ترنم اور سوزو گداز داغ کی شاعری کا مخصوص رنگ ہے ۔ داغ نے اپنی شاعری میں عاشقانہ زندگی کی بہترین مرقع کشی کی ہے اور ان کی کہی ہوئی غزلیں اس بات کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ اُن کے اشعار میں ترنم ، دلکشی اور سوز و گداز بدرجہ اتم موجود ہے۔ داغ نے غزل جیسی روایتی صنف سخن میں ایک دلکش اور منفرد اسلوب کی بنیاد ڈالی ہے ۔ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی داغ کی شاعری اپنا خاص اثر رکھتی ہے۔
ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی 1857 ء سے دس ماہ پیشتر جب داغ کی عمر تقریباً پچیس (25) برس کی تھی کہ مرزا فخرو ولی عہد نے انتقال فرمایا جس کا داغ کو گہرا صدمہ ہوا  اور پھر غدر 1857 ء کا حادثہ پیش آیا اور یہ واقعہ خونین ان کی آنکھوں کے سامنے گزرا ۔ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے تخت سے معزول کردیا اور ان کو رنگون میں قید میں رکھا گیا ۔ اُن کا انتقال اسی قیدکے عالم میں 1882 ء کو رنگوں میں ہوا ۔ 1857 ء غدر کے بعد مغلیہ سلطنت روبہ زوال ہوگئی اور ہندوستان پرملکہ وکٹوریہ کی حکومت قائم ہوگئی ۔ 1857 ء کے ناکام انقلاب کے بعد داغ اپنی والدہ اور اپنی بیوی کے ہمراہ اکتوبر یا نومبر 1857 ء میں دلی سے رام پور چلے گئے ۔ نواب یوسف علی خان بہادر وائی رام پور علماء شعراء اور اہل ہنر کے بڑے قدرداں  تھے ، وہ خود بھی اردو کے پر گو شاعر تھے اور شاعری میں نظم تخلص فرماتے تھے اور آپ کو مرزا غالب سے تلمذ حاصل تھا ۔ آپ نے داغ دہلوی کو اپنے صاحبزادے نواب کلب علی خان کا مصائب مقرر کردیا اور داغ دربار رام پور سے وابستہ ہوگئے اور انہوں نے اپنی ادبی  سرگرمیوں کو بھی جاری رکھا ۔ نواب یوسف علی خان والی رام پور داغ کی شخصیت اور شاعری کے بڑے مداح تھے۔ نواب یوسف علی خان کے انتقال کے بعد اُن کے فرزند نواب کلب علی خان بہادر والی رام پور مقرر ہوئے تو داغ کی قدر و منزلت میں ا ضافہ ہوا ۔ نواب کلب علی خان اپنے پدر بزرگوار کی طرح ادبی ذوق رکھتے تھے اور خود بھی اردو کے اچھے شاعر تھے اور شاعری میں نواب تخلص فرماتے تھے۔ داغ نے رام پور میں اپنی عمر کا طویل عرصہ گزارا تھا۔ نواب کلب علی خان کے انتقال کے بعد 1888 ء میں کونسل کا تقرر عمل میں آیا اور ریاست میں انگریزی طرز پر انتظامی اصلاحات شروع ہوگئیں اور جنرل عظیم الدین خان جو ریاست کے صدر المہام مقرر ہوئے تھے ، ان سے داغ کی نہ بنی اور داغ رام پور سے اپنے وطن دلی لوٹ آئے اور بعد میں انہوں نے ملک کے کئی علاقوں کی سیاحت کی لیکن وہ آرام و سکون جس کے داغ متلاشی تھے ، انہیں کہیں بھی نصیب نہ ہوا ، اور ان کا یہ زمانہ نہایت تنگ دستی اور پریشانی میں بسر ہوا تھا ۔
آڑے آیا نہ کوئی مشکل میں
مشورے دے کے ہٹ گئے احباب
اعلیٰ حضرت نواب میر محبوب علی خان بہادر آصف جاہ سادس والی حیدرآباد (دکن) داغ کی شخصیت اور شاعری کے مداح تھے اور ریاست حیدرآباد (دکن) کے عوام بھی داغ کی شاعری کے شیدائی تھے ۔ اعلیٰ حضرت غفران مکان آصف جاہ سادس 17 اپریل 1888 ء کو فرمان جاری کیا اور بڑی خواہش سے دا غ کو حیدرآباد (دکن) طلب فرمایا تھا اور داغ حیدرآباد تشریف لائے اور شاہ دکن کی نوازشوں کے مورد ہوئے اور ساڑھے چار سو روپئے ماہوار تنخواہ عطا کی گئی اور تین برس تک یہی ماہوار ملتی رہی اور اس کے بعد ساڑھے پانچ سو روپئے کا اضافہ کرکے ایک ہزار روپئے وظیفہ ماہوار مقرر ہوا جو تاحیات جاری رہا ۔ داغ جس آرام و سکون کے متلاشی تھے 1857 ء کے بعد ان کو رام پور اور حیدرآباد (دکن) میں نصیب ہوا ۔داغ ’’استاد سلطان‘‘ کے باوقار خطاب سے بھی نوازے گئے اور جہان استاد فصیح الملک ناظم یار جنگ دبیر الدولہ جیسے اعلیٰ اعزازات سے بھی سرفراز ہوئے ۔ داغ نے غفران مکان آصف جاہ سادس کی بے انتہا نوازشوں کا  ذکر اپنے اس شعر میں کیا ہے ۔

ہے لاکھ لاکھ شکر ائے داغ ان دنوں
آرام سے گزرتی ہے شاہ دکن کے پاس
داغ کا قیام محلہ ، افضل گنج حیدرآباد میں رہا ۔ داغ کی حیدرآباد میں مقبولیت اور شہرت کا راز ان کی خوش اخلاقی ، ملنساری ، خودداری اور ہمدردی ہے ۔ داغ کے حیدرآباد آنے سے پہلے لوگ ان کے نام اور کام سے اچھی طرح واقف تھے ۔ داغ کے آنے سے قبل ہی ان کا شعری دیوان ’’گلزار داغ‘‘ حیدرآباد پہنچ چکا تھا اور ’’دال منڈی‘‘ کے ناٹک جو حیدرآباد میں پہلی بار قائم ہوئی تھی ، داغ کی غزلیں گائی جاتی تھیں اور لوگ بڑے ہی اشتیاق سے ان کی غزلیں سنتے تھے اور اکثر لوگ ان سے خط و کتابت کے ذریعہ شاگرد ہوچکے تھے ۔ داغ کے حیدرآباد آتے ہی ان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوگیا ۔ ارباب اقتدار مہاراجہ چندولال شاداب ، مہاراجہ کشن پرشاد شاد اور دوسرے امراء داغ کی شخصیت اور شاعری کے بڑے مداح تھے اور شاہ دکن آصف جاہ سادس پر تو داغ کی شاعری کا جادو چل چکا تھا ۔ داغ نہایت شریف النفس اور نیک دل انسان تھے ۔ انہوں نے زندگی میں کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا اور نہ کسی کے کلام پر اعتراض کیا اور نہ کسی معترض کو جواب دیا اور نہ کسی سازشوں میں ملوث رہے ۔ داغ کے امیروں ، رئیسوں اور ارباب اقتدار سے گہرے مراسم تھے اور وہ ہر سبھی سے ملتے تھے مگر وہ غریبوں سے بھی اکڑتے نہ تھے۔ یہ تھا شائستہ تہذیبی ورثہ جس کے داغ تنہا وارث تھے ۔ شاعری میں والہانہ جذبات ، لطافت زبان ، نزاکت الفاظ و بیان ، محاوروں کا بر محل استعمال ، ترنم اور سوز و گداز داغ کا مخصوص رنگ ہے ۔ داغ نے اپنی شاعری میں عاشقانہ زندگی کی بہترین مرکش کی ہے ۔
شاعر مشرق علامہ اقبال جو اردو زبان و ادب کے مشہور شاعر و مفکر گزرے ہیں، انہیں داغ دہلوی سے شرف تلمذ حاصل تھا ۔ وہ داغ کی شخصیت اور شاعری کے بڑے مداح تھے ۔ حضرت امیر مینائی جو 5 ستمبر 1900 ء کو حیدرآباد تشریف لائے اور حیدرآباد آکر اپنے دیرینہ رفیق داغ کے مہمان ہوئے لیکن قضا و قدر نے انہیں یہاں زیادہ عرصہ قیام کی اجازت نہیں دی اور 13 اکتوبر 1900 ء کو آپ نے انتقال فرمایا اور آپ کی آخری آرام گاہ حیدرآباد میں ہے ۔ داغ نے اپنے دیرینہ احباب کی مفارقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس طرح فرمایا تھا ۔
داغ اس ضعف نے کی اپنی تو منزل کھوئی
ہم رہے جاتے ہیں سب یار چلے جاتے ہیں
1891 ء میں داغ نے اپنی رفیقہ حیات فاطمہ بیگم کو حیدرآباد بلوالیا تھا جو یہاں (7) سال اور چند ماہ کے قیام کے بعد 1898 ء میں انتقال فرمائیں جس کا داغ کو گہرا صدمہ ہوا ۔ اس کے بعد داغ کی طبیعت آہستہ آہستہ ان کا ساتھ چھوڑنے لگی اور داغ بیمار رہنے لگے ۔ ’’دبدبہ آصفی‘‘ 6 ذی الحجہ 1322 ھ میں داغ کے مرض الموت کی تفصیل شائع ہوئی تھی ۔ مہتمم لکھتے ہیں کہ داغ آٹھ دن تک بستر علالت پر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے۔ بائیں جانب فالج کے حملے کی وجہ سے جسم کا ایک حصہ بے حس ہوگیا تھا ۔ عبدالمجید آزاد کا بیان نور اللہ محمد نوری نے اس طرح نقل کیا ہے کہ ’’داغ کو آخری زمانہ حیات میں اپنی زندگی سے کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی تھی اور انہوں نے آزاد سے کہا تھا کہ اب مجھے عطر کی بو محسوس نہیں ہوتی ، گانا سنوں تو وحشت ہونے لگتی ہے ۔ غزل کہنے اور سننے سے طبیعت دور بھاگتی ہے ۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ اب میری زندگی کے دن ختم ہوچکے ہیں‘‘۔

ہوش و حواس تاب و تواں داغ جاچکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
داغ نے طویل عمر پائی اور ان کے دوست احباب اور ان کے شاگردوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ داغ نے قمری حساب سے (76) سال اور شمسی حساب سے (74) سال کی عمر پائی ۔ داغ اکثر خدا سے دعا کیا کرتے تھے کہ ان کو حج کے دن موت آئے اوران کی نماز جنازہ عید کی نماز کے ساتھ ہو۔ اس طرح ان کی دونوں آرزوئیں برآئیں۔ 9  ذی الحجہ 1322 ھ مطابق 16 فروری 1905 ء کی شام داغ نے اپنی جان ، جان آفرین کے سپرد کردی اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے اور عیدالاضحیٰ کی صبح کو آپ کی نماز جنازہ حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد میں ہزاروں سوگواروں کے بیچ ادا کی گئی ۔ آپ کے انتقال کی خبر ملتے ہی شاہ دکن آصف جاہ سادس اور ان کے رفقاء ، اراکین ارباب اقتدار ، امراء و سلاطین اور شاگردوں کی کثیر تعداد نے مکہ مسجد پہنچ کر داغ دہلوی کو گل ہائے عقیدت پیش کیا اور آپ کی مغفرت کے لئے دعا کی گئی اور درگاہ حضرات یوسفینؒ حیدرآباد کے احاطہ میں مشرقی جانب نقار خانے کے قریب حضرت امیر مینائی آسودہ ہیں تو درگاہ شریف کے صحن میں مغرب کی جانب سے اس کے متوازی حضرت ابراہیم مرزا خان داغ دہلوی کا مزار ہے ۔ کہاں کی مٹی کہاں لے گئی اور کہاں سپرد خاک ہوئے۔
مت سہل انہیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں