مرحومہ خاتون کو قبر میں اتارنا

مرحومہ خاتون کو قبر میں اتارنا
سوال : میرے رشتہ داروں میں ایک خاتون کا انتقال ہوا۔ تجہیز و تکفین تو خاتون غسال نے انجام دی۔ بعد ازاں تدفین کے وقت کچھ مسئلہ پیش ہوا ، چونکہ مرحومہ کے شوہر پہلے فوت ہوچکے تھے ، ان کے لڑکے بیرون ملک مقیم ہیں۔ ان کے ایک حقیقی بھائی تدفین کے وقت موجود تھے، دوسرے مرحومہ کے خالہ زاد بھائی قبر میں اتر کر مرحومہ کو قبر میں اتارے۔ اسی وقت سے قبرستان سے چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں کہ خالہ زاد بھائی کو قبر میں نہیں اترنا چاہئے تھا ۔ ازروئے شرع مرحومہ خاتون کو قبر میں اتارنے کیلئے کیا احکام ہیں؟
محمد مقبول حسین، تالاب کٹہ

جواب : رحمی قرابت دار مثلاً باپ ، بیٹا ، بھائی ، بھتیجہ ، بھانجہ ، ماموں ، چچا ، نواسا، پوترا ، عورت کو قبر میں اتارنے کے اجنبی کے مقابل میں زیادہ اولی و حقدار ہیں۔ اور اگر کوئی رحمی قرابت دار بوقت تدفین موجود نہ ہو تو بوجہ ضرورت غیر رحمی قرابت دار جیسے خالہ زاد بھائی یا کوئی اجنبی شحص اتارے تو شرعاً کوئی حرج نہیں۔ بدائع الصنائع جلد دوم صفحہ 64 میں ہے ۔ و ذوالرحم المحرم أولی باد خال المرأۃ القبر من غیرہ لأنہ یجوز لہ مسھا حالۃ الحیاۃ، فکذا بعد ا لموت و کذا ذوالرحم المحرم منھا اولی من ا لاجنبی ، ولو لم یکن فیھم ذو رحم فلا بأس للا جانب و ضعھا فی قبرھا ولا یحتاج الی اتیان النساء للوضع۔

وجوب حج اور زکوۃ کا حکم
سوال : میرے پاس چھ لاکھ روپئے سرمایہ ہے جو میں اپنی لڑکی کی شادی کیلئے جمع کیا ہوں اور میری لڑکی کی شادی کیلئے کچھ وقت ہے۔ میں نے سنا کہ مجھ پر حج فرض ہوگیا ہے کیونکہ میرے پاس اتنی مقدار میں سرمایہ ہے جس سے میں اپنا حج ادا کرسکتا ہوں لیکن چونکہ لڑکی کی ذمہ داری اہم ہے اس لئے میں اس کو موخر کر رہا ہوں۔ایک اہم بات آپ سے دریافت کرنا ہے کہ میرے ایک دوست نے مجھے اطلاع دی کہ حج آپ پر فرض ہوگیا ہے اور اگر آپ ادا نہ کریں تو یہ آپ کے ذمہ قرض ہے۔ اس لئے آپ کو پورے چھ لاکھ روپئے پر زکوۃ دینے کی ضرورت نہیں ۔ حج کو جانے کیلئے جو رقم درکار ہے مثلاً ڈھائی تین لاکھ روپئے منہا کر کے مابقی رقم پر زکوۃ ادا کرنا چاہئے ۔ شرعاً کیا حکم ہے ؟
محمد ابرار ، دودھ باؤلی
جواب : اگر کوئی شخص صاحب استطاعت ہو اور وہ حج ادا نہ کرے تو حج کا وجوب اس پر ضرور ہے لیکن اس کے اثرات آخرت میں مرتب ہوں گے یعنی وہ حج ادا کرے گا تو ثواب کا مستحق ہوگا اور حج ادا نہ کرے تو آخرت میں ماخوذ ہوگا۔ دنیا میں کوئی حکم مرتب نہیں ہوگا ۔ مثلاً اس کو حج ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے برخلاف اگر کسی شخص کے ذمہ قرض ہو تو اس کو وقت مقررہ پر ادا نہ کرنے کی بناء مجبور کیا جاسکتا ہے اور اس کو قید بھی کروایا جاسکتا ہے ۔ اس بناء پر فقھاء نے صراحت کی ہے کہ حج ، صدقہ فطر، کفارات ، نذر وغیرہ وجوبِ زکوۃ کیلئے مانع نہیں ہیں۔ بدائع الاصنائع جلد دوم ص : 86 م یں ہے : واما الدیون التی لا مطالب لھا من جھۃ العبادات کالنذور و الکفارات و صدقۃ الفطر و وجوب الحج و نحوھا لا یمنع وجوب الزکوۃ لان اثرھافی حق احکام الآخرۃ و الثواب بالاداء والاثم بالترک فاما لا اثرلہ فی احکام الدنیا الاتری انہ لا یجبر ولا یحبس فلا یظھر فی حق حکم من احکام الدنیا فکانت ملحقۃ بالعدم فی حق احکام الدنیا: لہذا حج کی ادائیگی کیلئے درکار رقم کو کل سرمایہ سے منھا کر کے مابقی رقم پر زکوۃ ادا کرنے کی بات شرعاً بے اصل ہے۔

جرم کے ارادہ سے سفر اور قصر نماز
سوال : ایک سوال میرے ذہن میں آیا ہے ، اگرچہ آپ اس کو پسند نہ کریں لیکن معلومات میں اضافہ کیلئے میں یہ سوال کرر ہا ہوں کہ ایک شخص مثال کے طور پر حیدرآباد سے ممبئی کا سفر کر رہا ہے اور اس کی نیت اس سفر میں سوائے چوری کے کچھ نہیں ، وہ چوری کے ارادہ سے سفر کر رہا ہے ۔ ا یسی صورت میں چوری کی نیت و ارادہ سے کئے جانے والے سفر میں چور کو قصر نماز کا حکم ہوگا یا پھر اس کو پوری نماز ادا کرنا چاہئے ۔ رکعات میں کمی تو مسافر کی سہولت کیلئے ہے اور مجرم و چور کو تو بظاہر چار رکعات ہی ادا کرنا چاہئے جو بھی شریعت کا حکم ہو واضح فرمائیں تو مہربانی

نام …
جواب : شریعت نے مسافر پر چار رکعات والی نماز میں تخفیف کی ہے اور قصر کا حکم دیا ہے ۔ قصر کا حکم سفر کی بناء پر ہے ، مسافر کی نیت و ارادہ پر نہیں۔ کوئی شخص سفر اطاعت جیسے حج پر روانہ ہو یا کوئی سفر مباح پر ہو جیسے سفر تجارت وغیرہ یا سفر معصیت ہو، چوری ڈاکہ کی نیت ہو تو سفر کی نوعیت بدلنے سے حکم میں تبدیلی نہیں ہوگی ۔ ہر شخص اپنے عمل کا جوابدہ ہوگا ۔ بدائع الصنائع جلد اول صفحہ 260 میں ہے : و یستوی فی المقدار المفروض علی المسافر من الصلاۃ سفر الطاعۃ من الحج و الجھاد و طلب العلم و سفر المباح کسفر التجارۃ و نحوہ و سفر المعصیۃ کقطع الطریق والبغی و ھذا عندنا ۔

تدفین بوقت غروب آفتاب
سوال : ایک جنازہ میں شریک رہا ، عین غروب آفتاب کے وقت تدفین عمل میں آئی۔ شرعی لحاظ سے غروب آفتاب کے وقت تدفین کا کیا حکم ہے ؟
نام …
جواب : طلوع آفتاب ، غروب آفتاب اور زوالِ آفتاب کے وقت نماز جنازہ ادا کرنا منع ہے ۔ البتہ ان اوقات میں تدفین کی جائے تو کوئی حرج نہیں۔ بدائع الصنائع جلد دوم ص : 57 میں ہے ، تکرۂ الصلاۃ علی الجنازۃ عند طلوع الشمس وغیر و بہ و نصف النھار لما روینا من حدیث عقبۃ بہ عامر أنہ قال : ثلاث ساعات نھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نصلی فیھا و ان نقبر فیھا موتانا والمراد من قولہ : ان نقبرفیھا موتانا الصلاۃ علی الجنازۃ دون الدفن اذ لا بأس با لدفن فی ھذہ الاوقات

رضاعی بہن سے نکاح
سوال : ماموں زاد بھائی اور پھوپھی زاد بہن میں دودھ کا رشتہ بھی ہے۔ مامی زمانہ شیرخواری میں بچی کو کئی بار دودھ پلائی ہو جس کے گواہ گھر کے رشتہ دار ہیں۔ لڑکا لڑکی رشتہ ازدواج میں باندھنے کے درپے ہیں ۔ اب اس کا علم ہونے کے بعد بھی لڑکا کورٹ میاریج کرنے پر آمادہ ہے۔ لڑکی بھی راضی ہے ۔ برائے مہربانی اس مشکل مسئلہ کو اللہ و رسول کے احکام و شریعت مطھرہ کی روشنی میں واضح ہدایت فرمائے تو عین نوازش و کرم ہوگا۔
ایم ایم علی خان، حیدرآباد
جواب : رضاعی بھائی بہن کا آپس میں رشتہ نکاح شرعاً حرام ہے ۔ معلوم ہونے کے باوجود دونوں کا آپس میں کورٹ میاریج کرنا اور تعلق زن و شو قائم کرنا شرعاً زنا ہے۔اور اسلامی ملک ہو تو ان پر حد جاری ہوگی۔

چوری کا مال تحفہ میں قبول کرنا
سوال : میں بہت ہی افسوس کے ساتھ یہ چند کلمات کی تشریح چاہتا ہوں، ایک محترمہ جو حیدرآباد کی رہنے والی ہیں ۔ سعودی عربیہ ملازمت کیلئے گئی تھیں، وہاں کے عرب اور آفس کے اسٹاف کا ناجائز رویہ دیکھتے ہوئے وہ وہاں سے صرف ایک ماہ میں ہندوستان یعنی حیدرآباد واپس آگئی ۔ آتے وقت وہاں کی عورتیں جو کعبۃ اللہ شریف میں کام کرتی ہیں انہیں چند گھڑیاں ، چپلیں ، جوتیاں، اسکارف اور جائے نماز وغیرہ جو وہاں سے چھپائی ہوئیں تھیں یا چوری کی تھیں۔ ان محترمہ کو معلوم تھا تحفہ میں دیا گیا۔ وہ یہاں پر آکر ان سامان کو اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کیں ۔ کیا یہ چیزیں جو کہ انہیں معلوم تھا چوری کی ہیں ، قبول کرنا چاہئے تھا یا یہ جائز ہے یا ناجائز؟ کیا کرنا چاہئے تھا تشریح چاہتا ہوں ۔
عبدالمجید خان، وجئے نگر کالونی
جواب : چوری کا مال معلوم ہونے کے باوجود مذکور در سوال خاتون کا چوری کے ساز و سامان کو تحفۃً قبول کرنا شرعاً روا نہیں، ان کو چاہئے کہ وہ صدقِ دل سے توبہ کریں۔
اقرار وتصدیق کے بغیر اسلام کا حکم
سوال : میرا ایک غیر مسلم دوست تھا، ہم دونوں میں کافی محبت و دوستی تھی۔ انہوں نے پولیس ایکشن سے قبل کا مذہبی رواداری والا دور دیکھا تھا، اسلامی تہذیب سے متاثر تھے، عموماً اسلام کی صداقت کو مانتے تھے اور کہتے تھے کہ اسلام میں خدا کا جو تصور ہے وہ سب سے صحیح تصور ہے۔ وہ بت پرستی کو غیر معقول تصور کرتے تھے اور علی الاعلان اس کی مخالفت کرتے تھے۔ حال ہی میں ان کا انتقال ہوا ، ان کے مذہب کے مطابق ہی ان کی آخری رسومات انجام دی گئیں۔
مجھے سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح اسلام کی حقانیت کے اظہار سے کیا وہ دامن اسلام میں داخل نہیں ہوئے۔ اس سلسلہ میں شرعی رہنمائی فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔
نام ندارد

جواب : ایمان دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے اور کوئی شخص دل سے تصدیق کرے لیکن زبان سے اقرار نہ کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن ہوگا۔ دنیا میں اس پر اسلام کا حکم نہیں ہوگا ۔ البتہ کوئی شخص مذہب اسلام کو صرف حق و سچا مذہب سمجھا ہو تو محض حق سمجھنے کی وجہ سے وہ مسلمان نہیں ہوگا کیونکہ کفار و مشرکین اور اہل کتاب دین اسلام کو حق جانتے تھے لیکن سرکشی عناد اور تکبر کی وجہ سے مسلمان نہیں ہوئے تھے اور اہل کتاب تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی کے طور پر ایسا جانتے تھے جیسا کہ وہ اپنی اولاد کو جانتے تھے یعنی اپنے اولاد کو پہچاننے میں کبھی کسی قسم کی تکلیف و دشواری نہیں ہوتی۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے آثار و قرائن سے وہ اس قدر واقف تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت میں انہیں ادنی سے ادنی درجہ کا شک و شبہ نہیں تھا ۔ اس کے با وصف وہ ایمان نہیں لائے اور حق کو چھپادیئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الذین آتینا ھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم وان فریقا منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون (سورۃ البقرہ 146/25)
پس آپ کے دوست نے صرف دین اسلام کو حق جانا ہے اس کا اعلان نہیں کیا تو ان پر مسلمان ہونے کا حکم نہیں ہوگا۔

زکوۃ کی رقم سے دعوت افطار
سوال : آپ سے دریافت کرنا یہ ہے کہ زکوۃ کی رقم سے ہم افطار کی دعوت کرسکتے ہیں یا نہیں۔
نام …
جواب : زکوۃ کی رقم کا کسی غریب و مستحق زکوۃ کو مالک بنانا لازم ہے۔ دعوت میں اگر مستحق زکوۃ شریک ہوں تو وہ مالک نہیں ہوتے۔ نیز دعوت میں مستحق زکوۃ و غیر مستحق زکوۃ سب شریک ہوتے ہیں اس لئے زکوۃ کی رقم سے افطار کی دعوت نہیں کی جاسکتی۔