مذہب بیزاری تباہی کا پیش خیمہ

ڈاکٹر سید بشیر احمد
مسلمانوں کی مذہب کی بیزاری کی وجہ سے نوجوان نسل میں ارتداد کے واقعات رونما ہونے لگے ہیں ۔ خصوصاً لین دین کی لعنت کی وجہ سے بڑی تعداد میں مسلم لڑکیاں غیر شادی شدہ زندگی گذار رہی ہیں ۔
فطری خواہشات اور نامناسب ماحول ، ٹی وی کی لعنت ، انٹرنیٹ اور سیل فون کی وجہ سے بے شرمی اور حیا سوز واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ۔ یہی ساری باتیں مذہب سے بھی بیگانگی کا باعث بن رہی ہیں ۔ ان سب کا تدارک آج قوم کے لئے ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے ۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے قوم کو بڑی سنجیدگی اور حوصلہ سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔ اخبارات میں لڑکیوں کے گھر سے فرار ہونے ، تبدیلی مذہب اور غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادیوں کی اطلاعات روزمرہ کے معمول بن گئے ہیں ۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے مشائخ کرام ، دانشوران ملت اور نوجوانوں کو سرگرم کردار ادا کرنا پڑے گا ۔ عام طور پر جلد بازی اور جذبات کی رو میں لڑکیاں کچھ ایسا کام کرجاتی ہیں ،جس کا بعد میں احساس ہوتا ہے تو اصلاح کے لئے کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔ یہاں پر خود پر گذرا ہوا ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے جس سے معاشرہ میں پھیلی ہوئی گھوڑے جوڑے اور لین دین کی لعنت پر روشنی پڑتی ہے ۔ میرے ایک بزرگ دوست مولوی عظیم الدین صاحب ایک دن میرے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ ان کے برادر ان دنوں باہر گئے ہوئے ہیں اور ان کے پوتے کی شادی کی بات چیت کے لئے ان کو تنہا جانے کی نوبت آپہنچی ہے ۔ انہوں نے مزید یہ کہا کہ وہ راقم الحروف کے شکر گذار ہوں گے اگر وہ دوسرے دن بعد مغرب دلہن والوں کے گھر ان کے ساتھ چلیں تاکہ شادی کی بات چیت کوقطعیت دی جاسکے ۔ راقم الحروف نے ان کی بات پر ہاں کردیا اور دوسرے دن بات چیت کے لئے ہم دونوں لڑکی والوں کے گھر پہنچے ۔ راقم الحروف کو اپنے دوست کی طبیعت کا صحیح اندازہ نہیں تھا جب ہم پہنچے اور بات چیت شروع ہوئی تو سب سے پہلے ہمارے دوست نے جوڑے کی رقم کے مسئلہ کو پیش کیا ۔ بڑی رد و قدح کے بعد جوڑے کی رقم ایک لاکھ طے پائی ۔ پھر موصوف نے دیگر مال و اسباب کے تعلق سے بات کو قطعیت دی ۔ اس کے بعد انہوں نے پوچھا کہ سانچق کا کس شادی خانہ میں انتظام ہوگا اور کھانے کا کیا انتظام ہے ۔ اللہ اللہ کرکے یہ مرحلہ بھی حل ہوا اس کے بعد دلہن کے والد نے پوچھا کہ مہندی کس شادی خانہ میں کریں گے ؟ تو ہمارے دوست نے کہا کہ سانچق سے واپسی میں آدھی رات ہوجاتی ہے ، کھانے کا وقت تو رہتا نہیں ، مکان پر ہی تشریف لایئے ، چائے سے ضیافت کی جائے گی ۔ اس کے بعد لڑکی کے چچا نے پوچھا کہ مہر کیا ہوگا ۔ ہمارے دوست نے مذہبی جذبہ سے سرشار ہو کر کہا مہر تو شرعی ہونا چاہئے ، لڑکی کے والد نے دریافت کیا کہ شادی کس شادی خانہ میں ہوگی اور لوازمات کا کیا اہتمام ہوگا ۔ اللہ اللہ کرکے یہ مسئلہ بھی طے ہوا پھر لڑکی کے والد نے ولیمہ کے تعلق سے پوچھا ۔ ہمارے دوست نے جواب دیا کہ ولیمہ ان کو راس نہیں آتا ۔

ان حالات میں آپ خود غور فرمایئے کہ لڑکیوں کی شادی کی بات چیت کن کن مرحلوں سے گزرتی ہے اور کیا کیا عملی مشکلات حائل ہوتی ہیں ۔ اس طرح ان مشکلات پر قابو پانے کی کوششوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ جس کے سبب لڑکیوں کی عمریں بڑھتی ہیں اور رشتہ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ طرفہ تماشہ ، ٹی وی ، انٹرنیٹ اور سیل فون کی لعنت سے لڑکیوں کے قدم بہکنے کے واقعات روزمرہ کا معمول بنتے جارہے ہیں ۔ ان مسائل کو حل کرنے کی قومی سطح پر ضرورت ہے ۔اس خصوص میں علماء ، مشائخ اور قلم کاروں کوبھی بھرپور حصہ لینا چاہئے تاکہ ان حالات پر قابو پایا جاسکے ۔ نئی نسل میں ذمہ داری ، خود اعتمادی اور دوسروں کے مددگار بننے کا جذبہ پیدا کیا جائے تو ان تمام سماجی برائیوں کی روک تھام ہوسکے گی ۔ اس تعلق سے مسلم طبقہ کے نوجوانوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کی جس قدر کوشش کی جائے گی اسی قدر کامیابی قدم چومے گی ۔