مدارس میں اردو اور عربی کے استعمال پر شیوسینا کو تکلیف

محمد ریاض احمد
کسی زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ کسی علاقہ یا سرحد تک محدود نہیں ہوتی ۔ زبان کسی بھی فرد کے ساتھ اس کے مذہب اور ذات پات اور علاقہ کی بنیاد پر امتیاز بھی نہیں برتتی ‘ جانبداری اور تعصب کا مظاہرہ بھی نہیں کرتی ‘ زبانیں تو انسان کو دوسری تہذیبوں روایات اور طرز حیات اور جینے کا سلیقہ سکھاتی ہیں ‘ کسی بھی شخص کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتی ہیں ۔ زبانیں دراصل ایک دوسرے کو سمجھنے اور قریب لانے کا ذریعہ ہوتی ہیں ۔  زبانوں کے باعث ہی دنیا میں انقلاب برپا ہوتے ہیں ۔ یہ جہاں حریت پسندوں کو پُرکشش نعرے عطا کرتی ہیں وہیں انقلابیوں میںایک نیا عزم و حوصلہ پیدا کرنے کا باعث بھی بنتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں ایسے شرپسند عناصر کی کمی نہیں جو مختلف زبانوں پر اعتراض کرنے میں سب سے آگے رہتے ہیں ۔ ہندوستان میں ایسے فرقہ پرست بھی ہیں جو جدوجہد آزادی ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلانے میں اہم کردار ادا کرنے والے مجاہدین آزادی ‘ انگریزوں کے خلاف نبرد آزما ہونے والی تنظیموں ‘ علماء ‘ شاعروں ‘ ادیبوں ‘ صحافیوں سے واقف ہی نہیں ہیں ۔ اس کے باوجود وہ اول اول فول  بکتے رہتے ہیں یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں ہندوستان کی آزادی اس کی ترقی و خوشحالی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ‘انہیں تو بس مذہب کے نام پر بھولے بھالے عوام کا استحصال کرتے ہوئے اپنی تجوریاں بھرنے سے دلچسپی ہے ‘ اپنے اسی واحد ایجنڈہ کو لیکر وہ نہ صرف فرقہ وارانہ فسادات برپا کراتے ہیں بلکہ مذہب کے نام پر نعشوں کی ڈھیر لگادیتے ہیں اور ان نعشوں پر سے گذر کر اقتدار کی کرسی تک پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر چیز کو فرقہ پرستی کی عینک سے دیکھتے ہیں ‘ ان کی زبان پر ہندو توا کے نعرہ ہوتے ہیں انہیں اقلیتوں کے خلاف زہر اگلنے سے فرصت ہی نہیں ہوتی ۔ ایسے ہی شرپسندوں اور شرپسند تنظیموں میں شیوسینا اور اس کے قائدین شامل ہیں ۔ ان جاہلوں کو پتہ ہی نہیں کہ زبان اردو خالص ہندوستانی زبان ہے جو متحدہ ہندوستان میں ہی وجود میں آئی ۔ اسی زبان نے جدوجہد آزادی میں انقلاب زندہ باد جیسا طاقتوں نعرہ دیا ۔ عوام کو وطن عزیز کے تحفظ اور انگریزوں کی غلامی کے شکنجہ سے اس کی آزادی کا پیام دیا ‘ قابضوں کے خلاف لڑائی کیلئے ہندوستانی عوام میں شعور بیدار کیا ‘ شیوسینا اور اس کے متعصب قائدین کو یہ بھی اندازہ نہیں کہ زبان اردو کا ہر لفظ انگریزوں پر ہیبت طاری کردیتا تھا ‘ غزلوں ‘ نظموں ‘ مرثیوں ‘ رباعیات کی شکل میں اردو بلالحاظ مذہب و ملت ہندوستانیوں کے دلوں کو موہ لیتی تھی ‘ ان کے درمیان محبت و مروت کی شیرینی بانٹا کرتی تھی ۔ اردو زبان نے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور تنوع پر مبنی تاریخ کو خود میں جذب کیا کہ اس کے رگ رگ میں ہندوستانیت رچ بس گئی ۔ شیوسینا اور اس کے فرقہ پرست قائدین کو یہ بھی اندازہ نہیں کہ جدوجہد آزادی میں زبان اردو نے تمام ہندوستانی زبانوں کی قیادت و ترجمانی کا فریضہ ادا کیا ۔ اردو زبان کے ہر حروف ‘ ہر ہر لفظ کو اپنی آنکھوں سے لگائے رکھنے کی بجائے یہ ظالم اب اردو میڈیم مدارس کی برخواستگی کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ شیوسینا قائدین کی بیوقوفی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے ترجمان اخبار ’’ سامنا‘‘ کے اداریہ میںاردو کے خلاف کافی زہر افشانی کی ہے ۔ ان کوتاہ ذہن عناصر نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وزیراعظم نریندر مودی کو حکومت برطانیہ سے سبق حاصل کرنے کا مشورہ دے ڈالا ۔ دراصل برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے پناہ گزین شوہروں اور بیویوں کے ویزوں پر ملک میں مقیم ان شوہروں اور بیویوں کو برطانیہ سے نکال دینے کا انتباہ دیا ہے جو انگریزی زبان میں ناکام ہوجائیں ۔ برطانیہ کی عجیب غریب مثال سے حوصلہ پاکر شیوسینا نے جو اپنی مسلم اور اردو دشمنی کیلئے سارے ملک میں بدنام ہے ۔ اپنے اداریہ میں لکھا ہیکہ ہندوستان میں مدرسوں کا دریعہ تعلیم اردو اور عربی برخاست کردینا چاہیئے ‘ اس کی بجائے مدرسوں کا ذریعہ تعلیم انگریزی اور ہندی ہوناچاہیئے جس کسی نے بھی یہ مشورہ دیا ہے وہ یقیناً آخری درجہ کا بیوقوف ‘ چھٹاہوا بدمعاش اور فرقہ پرستی کی گندگی میں مبتلا تعصب کی بیماری کا شکار ذہن مریض ہوگا ۔ اس بے وقوف کو پتہ ہی نہیں کہ انسان اپنی مادری زبان میں ہی ہر چیز بہ آسانی سمجھ سکتا ہے ۔ علم و ہنر کیلئے مادری زبان میں تعلیم بہت ضروری ہے ‘ اسے یہ پتہ ہوناچاہئے کہ اردو زبان صرف ہندوستان میں بولی اور سمجھی نہیں جاتی بلکہ دنیا کے اکثر ملکوں میں اردو جاننے والے پائے جاتے ہیں

اور ساری دنیا میں یہ زبان ’’ ہندوستانی ‘‘ کی حیثیت شہرت رکھتی ہے ۔ اردو کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میںہوتا ہے ‘ وہ ہندو ‘مسلم ‘ سکھ ‘ عیسائی اور  بدھسٹ  غرض ہر مذہب کے ماننے والوں ‘ ہر ملک کے باشندوں اور ہم تہذیب کی نمائندگی کرنے والوں کے دل میں پاکیزہ خیالات کی طرح اتر جاتی ہے ‘ ہاں اردو انسانیت  کے دشمنوں، ملک کے غدداروں ‘ انگریزوں کے چھوڑے ہوئے غلاموں ‘ گندی نالیوں میں پنپنے والے کیڑوں کی مانند ماحول کو تعفن زدہ کرنے والے فرقہ پرستوں‘ مذہب کے نام پر عوام کے درمیان نفرت کی تخم ریزی کرنے والوں ‘ کمزوروں پر ظم و اسرائیلیت ( درندگی) کی انتہا کرنے والوں اور اپنی رائے دوسروں پر زبردستی تھوپنے کے عادی وحشیوں کی کٹر دشمن اور حریف ہے ۔ اردو زبان اس طرح کے عناصر کو اپنے پیروں تلے روند کر آگے بڑھ جاتی ہے ‘ ان کی بکواس کی اس کے پاس کتوں کی بھونک سے زیادہ حیثیت نہیں ۔ اردو مذہب کے نام پر بھونکنے والے کتوں پر توجہ ہی نہیں دیتی ۔ اردو اور عربی کی مخالفت کرنے والے عقل  کے اندھوں کو اس بات کا بھی اندازہ نہیں کہ عربی انگریزی کی طرح ایک عالمی زبان ہے ۔ 70 لاکھ سے زائد ہندوستانی شہری‘ مشرق وسطیٰ میں خدمات انجام دیتے ہیں اور ہر سال ہندوستان کے بیرون زرمبادلہ کے ذخائر میں 70 ارب ڈالرس سے زائد رقم کا اضافہ کرتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ عربی زبان سے ہی واقف نہ ہوں تو ان کے روزگار پر اثر پڑسکتا ہے ۔عرب ممالک کی ایک اور اہم بات یہ ہیکہ ملک میں کسی پر بھی عربی سیکھنے کا لزوم نہیں ہے ۔ شیوسینا صرف اور صرف مسلمانوں سے عداوت کے باعث اردو اور عربی سے دشمنی کا اظہار کررہی ہے ۔ وہ مہاراشٹرا میں بی جے پی حکومت کا ایک حصہ ہے ۔ شیوسینا نے سامنا کے اداریہ میں وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے کابینی رفقاء پر بھی شدید تنقید کی ہے ۔ اس کی یہ تنقید ایسی ہی ہے جیسے ’’ آستین کا سانپ ‘‘ والا محاورہ اپنے آپ میں کافی اہمیت رکھتا ہے ۔ شیوسینا کیلئے یہ محاورہ بالکل موزوں ہے کیونکہ بی جے پی حکومت میں اسے شامل کرتے ہوئے نریندر مودی اور ان کی پارٹی نے اس پر ایک احسان کیا ہے ۔ جواب میں وہ مودی اوران کے کابینی رفقاء پر شدید تنقیدوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ شیوسینا کو سب سے پہلے احسان مند بننے کا سلیقہ سیکھنا چاہیئے ۔ سامنا کے اداریہ کے مطابق نریندر مودی اور کابینی رفقاء کے بارے میں کہا گیا ہیکہ وہ دوسرے ملکوں کے دورے کرتے ہوئے ملک میں بیرونی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کیلئے راغب کرسکتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ اندروںن ملک موجود دشمنوں ( داخلی دشمنوں) کا مقابلہ کرنے کی ہمت عزم و حوصلہ کہاں سے لائیں گے ۔ اگر نریندر مودی سے اس سوال کا جواب طلب کیا جائے تو ہمیں یقین ہیکہ وہ یہی جواب دیں گے کہ ملک میں شیوسینا جیسی فرقہ پرست جماعتوں کی موجودگی کے بعد دوسرے داخلی اور خارجی دشمنوں کی ضرورت ہی نہیں ۔

شیوسینا نے نریندر مودی کو یہ بھی مشورہ دے ڈالا کہ ملک میں یکساں سیول کوڈ نافذ کیا جائے اور ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر شروع کریں ۔ اس مشورہ سے شیوسینا کے قائدین کی اپنے ہی مذہب کے بارے میں کم معلومات کا اظہار ہوتا ہے ۔ ہندوؤں  میں ہزاروں ذاتیں ‘ لاکھوں بھگوان ‘ کروڑوں رسم و رواج ہیں ۔ برہمنوں اور دیگر ذاتوں  کا طرز زندگی رسم و رواج بالکل جدا جدا ہے ۔شادی  بیاہ سے لیکر موت تک برہمنوں اور ہندوؤں کی دیگر ذاتوں میں رسم و رواج بالکل مختلف ہیں ۔ اب سوال یہ پیداہوتا ہیکہ کیا برہمن بھی ملک کی اکثریت ( دلتوں و کمزور طبقات) کے رسم و رواج کو اپناکر یکساں سیول کوڈ کی مثال قائم کریں گے ۔ اعلیٰ ذات کے ہندو بھی اپنے شادی بیاہ اور موت کی رسم و رواج کیلئے ادنی ذاتوں جنہیں وہ نچلی ذاتیں کہتے ہیں کے نقش قدم پر چلیں گے ؟ شیوسینا اور ہندو توا کی حامی جماعتوں اور قائدین کو یکساں سیول کوڈ کے نفاذ سے قبل ہندوؤں میں پائی جانے والی ذات بات کی تفریق ختم کرنی چاہیئے ۔ ادنی ذات کے ہندوؤں کو جانور سے بدتر سمجھنے کی بجائے انہیں اپنے ہی جیسا انسان سمجھ کر اسے اپنے سینے سے لگانا چاہیئے ۔  ہندو سماج میں ادنی اعلیٰ کی تفریق مٹانے کی بجائے شیوسینا جیسی فرقہ پرست جماعتیں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف زہر اگلنے کا کام کرتی ہیں ۔ اردو زبان کی مخالفت میں حد سے تجاوز کرنا ایسا لگتا ہیکہ ان کے خون میں شامل ہے ۔ ماحول میں فرقہ پرستی کا زہر گھولنے والے قائدین کو کم از کم اقبال کا ترانہ ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘ سننا چاہیئے تب انہیں اندازہ ہوسکتا ہے کہ اردو زبان میں کتنی طاقت ہے اور وہ کیسے بلا لحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل اور علاقہ لوگوں کو اپنی دیوانہ بنادیتی ہے ۔ ادھو ٹھاکرے اور ان کی قبیل کے دیگر لیڈر اردو اور عربی کی مخالفت کرتے ہیں ۔ مدارس کے ذریعہ تعلیم کو اردو اور عربی سے بدل کر انگریزی اور ہندی کردینے کی وکالت کرتے ہیں ۔ اس کے لئے وہ ڈیوڈ کیمرون اور انگریز سامراج کی مثالیں پیش کررہے ہیں اور مودی کو انگریزوں کے نقش قدم پر چلنے کا مشورہ دے رہے ہیں ‘ انہیں شاید پتہ نہیں کہ انگریزوں کے نقش قدم پرچلنے کا مشورہ ہندوستان کی آزادی کے دشمن ہی دے سکتے ہیں ۔ سب سے پہلے انہیں اپنا خود کا محاسبہ کرلینا چاہیئے ۔ شیوسینا کے ترجمان سامنا میں وزیراعظم کی داخلی دشمنوں سے لڑنے کیلئے ہمت جٹانے کا مشورہ دیا جارہا ہے لیکن انہیں سب سے پہلے یہ بتانا ہوگا کہ داخلی دشمن کون ہیں ۔ ہماری نظر میں داخلی دشمن وہ ہیں جو فرقہ پرستی کے ذریعہ ملک میں امن و امان بگاڑنے میں فخر محسوس کرتے ہوئے جن میں ملک کے قانون اور دستور کے تئیں احترام نہیں پایا جاتا جو ہمیشہ کتوں کی طرح بھونکنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان تفرقہ ڈالتے ہیں ۔ زبان اور علاقہ کے نام پر ہندوستانیوں کو نشانہ بناتے ہیں ۔ ادھو ٹھاکرے اور ان کی پارٹی کو اب یہ سوچ لینا چاہیئے کہ ان کا شمار کن لوگوں میں ہوتا ہے ‘ ملک کے داخلی دشمنوں میں یا پھر ملک کے بہی خواہوں میں  ۔ ادھو ٹھاکرے کو شاید یہ بھی پتہ نہیں کہ ڈیوڈ کیمرون حکومت پناہ گزین خواتین کو انگریزی سیکھنے کیلئے 20ملین پاؤنڈس کے نئے فنڈ کا اعلان کیاہے جب کہ ملک میں مسلمانوں کی بہبود کیلئے کوئی اسکیم شروع کی جاتی ہے تو شیوسینا اور اس کے قائدین کے علاوہ دیگر فرقہ پرست جماعتوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں ۔ ان کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگتے ہیں ۔
mriyaz2002@yahoo.com