مخدوم کی غزل (مخدوم کی 46 ویں برسی کے موقع پر)

ڈاکٹر سید داؤد اشرف

 

مخدوم کی غزل
(مخدوم کی 46 ویں برسی کے موقع پر)

مخدوم کا نظم سے غزل کی جانب سفر بدلے ہوئے تاریخی اور سماجی حالات اور خود شاعر کے مزاج کی تبدیلی کا ایک ناگزیر نتیجہ نظر آتا ہے ۔ مخدوم نے جو تقریباً ربع صدی تک صرف نظمیں لکھتے رہے تھے 1959ء میں صنفِ غزل کی جانب توجہ کی اور مختصر عرصے میں متعدد غزلیں لکھ کر غزل کی شاعری میں بھی اپنے لہجے اور اپنی آواز کو شامل کردیا ۔ مخدوم نے غزل گوئی  اس وقت شروع کی جب غزل کی مخالفت ماضی کی بات بن چکی تھی اور بعض ترقی پسند شعراء بھی نئی غزل میں نئے مزاج اور نئے آہنگ کے ساتھ اس صنف سخن کی اہمیت اور افادیت واضح کرچکے تھے ۔ آزادی کے بعد کے حالات اور واقعات نے اس صنف کے لئے سازگار فضا پیدا کردی تھی ۔ آزادی کے ساتھ تاریخ کے انتہائی بھیانک اور انتہائی المناک فسادات ، آزادی کے بعد ’’داغ داغ اجالا‘‘ اور ’’شب گزیدہ سحر‘‘ کا احساس شاعری میں انقلاب کی گھن گرج نہیں بلکہ محرومی اور بدقسمتی کے پراثر بیان کا متقاضی تھا ۔ محرومی اور بدقسمتی کے اظہار کے معنی احساس ندامت اور گریز اور فرار ہرگز نہیں ہوتے ۔ اگر بعض شعرا نے اقدار کو تبدیل ہوتے دیکھ کر فرار یا گریز کا راستہ اختیار کیا اور محض داخلیت کے خول میں بند ہوگئے تو یہ کوئی صحت مند علامت نہیں تھی ۔ آزادی کے بعد درد و غم کو اپنی ذات میں رچاکر بیان کرنے کی ضرورت تھی ۔ فیض نے اس سلسلہ میں کامیاب تجربے کئے ۔

مخدوم نے جب غزل گوئی شروع کی تو فراق ، مجروح ، جذبی اور فیض کی غزل گوئی کے کامیاب نمونے ان کے سامنے موجود تھے ۔ کسی اجتہاد کی ضرورت نہیں تھی ۔ مخدوم نے اپنی غزلوں میں اپنے اظہار پر ہی توجہ کی ۔ ایک نظام فکر سے وابستہ ہونے کی وجہ سے وہ ’’سرخ سویرا‘‘ تک اپنی نظموں میں ابہام سے احتراز کرتے رہے لیکن ’’گل تر‘‘ سے ان کی نظموں میں اشاریت کا عنصر نمایاں ہونے لگا لیکن طویل عرصے کی خاموشی کے بعد صرف چند نظمیں لکھ کر وہ مطمئن نہ ہوسکے ۔ دماغ میں خیالات کا ہجوم تھا ۔ برس ہا برس کے تجربات اور تاثرات اظہار کا نام اور راستہ چاہتے تھے ۔ اچھا شاعر فارم کو منتخب کرکے اپنی شاعری کو خارجی شکل نہیں دیتا بلکہ اس کے ذہن کے اندر شعر مطلق کی تخلیق موزوں فارم کو عملی تخلیق کا ایک جزو بنا کر ہی منتخب کرلیتی ہے  ۔مخدوم کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے ایک اچھے شاعر کی طرح از خود غزل کے فارم کا انتخاب کیا ۔ بنیادی طور پر نظم گو شاعر ہونے کے باوجود مخدوم نے غزل کے فارم کو بڑے سلیقے اور احتیاط سے برتا ہے ۔ ان کی غزل میں اردو کی روایتی غزل کا لہجہ اور آہنگ ملتا ہے ۔ روایتی غزل کی داخلیت بھی ان کے یہاں موجود ہے ۔ مخدوم نے بلاشبہ غزل کے فن کا پورا اہتمام کیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کی غزل محض روایتی غزل نہیں۔ اس کی فضا عام غزل کی فضا سے مختلف ہے  ۔مخدوم کی نظم میں اسلوب کا اچھوتا پن ، زبان و لفظیات کی جو تازگی اور فکر کی جو ندرت ملتی ہے قریب قریب وہی خصوصیات ان کی غزل میں بھی موجود ہیں ۔ غزل میں انھوں نے جو زبان استعمال کی ہے وہ اگرچہ روایتی غزل ہی سے اخذ کی گئی ہے لیکن فکر و اسلوب کی تازگی اسے روایتی غزل کی فضا سے دور لے جاتی ہے ۔

ان کی نظموں میں نئے الفاظ کا استعمال اور انداز بیان چونکادینے والا ہوتا ہے ۔ لیکن غزل میں انھوں نے ایسا نہیں کیا ۔ غزل کے فن ، زبان اور اسلوب تینوں پر انھوں نے توجہ دی ہے ۔ اگر نظم نگار شاعر غزل کہتا ہے تو اس کی غزل پر خارجیت غالب ہوجاتی ہے اور داخلیت ، گھلاوٹ اور لطافت کی کمی رہتی ہے ۔ لیکن مخدوم کی غزل میں یہ بات نہیں ہے ۔ مخدوم کی سیاسی شاعری میں ایک قسم کی لہک ہے لیکن ان کی غزل میں گداز بھی ملتا ہے ۔ وہ غزل ہی سیاسی افکار و مسائل کو بیان کرنے کے لئے پرانی علامتیں استعمال کرتے ہیں اور بڑے سلیقے کے ساتھ استعمال کرتے ہیں ۔
غزل کی صنف کے تقاضوں کا انھوں نے لحاظ رکھا اور اظہار پر زیادہ توجہ دی ہے ۔ سیاسی و انقلابی افکار اور مسائل کو بیان کرنے کی دانستہ کوشش ان کی غزلوں میں نظر نہیں آتی بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ مسائل اور تجربات شاعر کی شخصیت میں رچ کر آئے ہیں ۔ غزل میں اگر راست افکار ہیں تو اکھڑا اکھڑاپن پیدا ہوجاتا ہے اور غزل کا آہنگ بگڑ جاتا ہے ۔ مخدوم کی غزل میں کہیں بھی اکھڑا اکھڑاپن نظر نہیں آتا ۔ سماجی اور سیاسی مسائل کی ترجمانی غزل کے مخصوص اشاروں اور کنایوں میں ہوتی ہے ۔ نئے مسائل کو غزل کی زبان میں بیان کرنے میں انھیں بڑی مہارت ہے۔
سب وسوسے ہیں گرد رہ کارواں کے ساتھ
آگے ہے مشعلوں کا دھواں دیکھتے چلیں
ہائے کس دھوم سے نکلا ہے شہیدوں کا جلوس
جرم چب سر بہ گریباں ہے جفا آخر شب
مخدوم نے اپنے گرد و پیش کے حالات اور وسائل کو اپنے کئی اشعار میں بڑے خلوص اور شدت تاثر کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ ماحول کی بے حسی ، زندگی میں حرکت اور عمل کی کمی اور جذبہ ایثار و قربانی کے فقدان کو انھوں نے اپنے خوب صورت پیرایہ اظہار میں بیان کیا ہے ۔
کوئی جلتا ہی نہیں ، کوئی پگھلتا ہی نہیں
موم بن جاؤ پگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے
نہ کسی آہ کی آواز نہ زنجیر کا شور
آج کیا ہوگیا زنداں میں کہ زنداں چپ ہے
گل ہے قندیل حرم ، گل ہیں کلیسا کے چراغ
سوئے پیمانہ بڑھے ، دست دعا آخر شب
ان اشعار میں شاعر کا غم یہ ہے کہ زندگی کی حرارت تو ختم ہو ہی چکی ہے ۔ ’آہ کی آواز‘ یعنی صدائے احتجاج تک بلند نہیں ہوتی اور نہ ہی ’زنجیر کا شور‘ یعنی نہ بغاوت کے لئے جنبش ہوتی ہے ۔ سارا ماحول احساس شکست و ہزیمت کے بوجھ تلے چپ سادھے ہوئے ہے ۔ آہ کی آواز تو کجا اضطراب کے عالم میں کروٹ بدلتا ہوا بھی دکھائی نہیں دیتا چنانچہ وہ دیکھتے ہیں کہ بے یقینی ہے ۔ عقیدے کمزور ہوچکے ہیں ۔ روشنی دکھائی نہیں دیتی ۔ ہیجان اور انتشار ہے ۔
جہاں انھوں نے سیاسی اور سماجی زندگی کے نئے مسائل اور تجربات بیان کئے ہیں وہیں انھوں نے حسن و عشق کے تجربات کے اچھوتے پہلو کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اگر انھوں نے کہیں عام اور پرانے عشقیہ تجربات بیان کئے ہیں تو ان تجربات کو ندرت احساس کے ساتھ نئے انداز میں پیش کیا ہے ۔ ان اشعار میں غزل کا گھسا پٹا اسلوب نہیں ملتا ۔ اسلوب کی تازگی نے ان میں نئی بات پیدا کردی ہے     ؎
رات بھر درد کی شمع جلتی رہی
غم کو لو تھرتھراتی رہی رات بھر
یاد کے چاند دل میں اترتے رہے
چاندگی جگمگاتی رہی رات بھر
جب برستی ہے تری یاد کی رنگین پھوار
پھول کھلتے ہیں درِمے کدہ وا ہوتا ہے

وہ غزل میں جو ردیف استعمال کرتے ہیں وہ بولتی ہوئی ہوتی ہے ۔ مثلاً آخر شب ، دیکھتے چلیں ، کچھ رات کٹے وغیرہ ۔ اچھی اور بولتی ہوئی ردیف کے استعمال سے غزل کے آہنگ و نغمے میں اضافہ اور غزل کی معنویت میں قوت اور توانائی پیدا ہوجاتی ہے ۔ غزل کی شاعری میں مخدوم کو ایک نظام فکر سے وابستگی کے باوجود تحریف پسندی سے کام لینے کا موقع ہاتھ آیا ۔ اچھے آرٹ کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہر بات صاف صاف اور واضح طور پر بیان کردی جائے ۔ اشاروںکنایوں میں بیان کی گئی ادھوری بات زیادہ فنکارانہ حسن اور گہرائی رکھتی ہے ۔ ان کی  غزل میں کئی شعراء ایسے ملتے ہیں جن میں یہ حسن اور کمال ملتا ہے ۔ ان اشعار میں اظہار کی جھجک اور تامل بھی موجود ہے ۔ سوال ہیں ، تشکیک ہے ۔ غرض یہ کہ تاثر کے اظہار کو زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔
ان کی غزلوں کے کچھ اور خوب صورت کامیاب اشعار ملاحظہ ہوں ؎
بزم سے دور وہ گاتا رہا تنہا تنہا
سوگیا ساز پہ سر رکھ کے سحر سے پہلے
قدم قدم پہ اندھیروں کا سامنا ہے یہاں
سفر کٹھن ہے دم شعلہ ساز ساتھ رہے
یہ کوہ کیا ہے یہ دشت الم فزا کیا ہے
جو اک تری نگہ دل نواز ساتھ رہے
ہجوم پارہ و گل میں ہجوم یاراں میں
کسی نگاہ نے جھک کر مرے کلام لئے
بجا رہا تھا کہیں دور کوئی شہنائی
اٹھا ہوں آنکھوں میں اک خواب ناتمام لئے
ساز آہستہ ذرا گردش جام آہستہ
جانے کیا آئے نگاہوں کا پیام آہستہ
کھکھٹا جاتا ہے زنجیر درمیخانہ
کوئی دیوانہ کوئی آبلہ پا آخرشب
آج تو تلخیٔ دوراں بھی بہت ہلکی ہے
گھول دو ہجر کی راتوں کو بھی پیمانوں میں
کرہ غم اور گراں اور گراں اور گراں
غمزدو تیشہ کو چمکاؤ کہ کچھ رات کٹے
دھڑک گئے ہیں کبھی دل ، کبھی جھکی ہے نظر
کہاں چھپا ہے کسی سے کی کی چاہ کا رنگ
مخدوم نے اگرچہ بہت کم غزلیں لکھی ہیں لیکن ان کا یہ سرمایہ قلیل ہونے کے باوجود بیش قیمت ہے جسے اردو ادب کبھی فراموش نہیں کرسکتا ۔ اگر وہ اس صنف سخن پر زیادہ توجہ دے سکتے تو غزل کی شاعری میں مزید قابل قدر اضافے کرسکتے تھے ۔ اس بات سے قطع نظر مخدوم کی غزل کا جو بھی سرمایہ ہے اس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ بحیثیت غزل گو شاعر اپنے کسی ہم عصر شاعر سے پیچھے نہیں بلکہ غزل کے بنیادی مزاج اور آہنگ کا خیال رکھنے اور روایت کی پابندی اور اسے آگے بڑھانے کے معاملے میں وہ دیگر چند اہم غزل گو شعراء سے آگے نظر آتے ہیں ۔ غزل کہنے کا اہتمام ، سلیقہ ، فکر کی سنجیدگی و صحت ، بلندی و گہرائی اور شعریت کے لحاظ سے اس کا خوب صورت امتزاج یہ اہم اور بنیادی خصوصیات ان کی غزل میں صاف دکھائی دیتی ہیں جبکہ اس میدان میں اہم غزل گو شعراء کی لغزشوں اور کوتاہیوں کو موضوع بحث اور ہدف تنقید بنایا جاسکتا ہے ۔