مخدوم محی الدین

(گذشتہ حیدرآبادکے مشاہیر کے بارے میں لکھے گئے مجتبیٰ حسین کے خاکوں کا سلسلہ)

میرا کالم               مجتبیٰ حسین
پچیس چھبیس برس اُدھر کی بات ہے ۔ مخدوم محی الدین’’انڈرگراونڈ‘‘ تھے اور میں مڈل اسکول کا طالب علم تھا ۔ اُن دنوں بھی مجھے اتنی ہی انگریزی اور اردو آتی تھی جتنی کہ آج آتی ہے ۔ لہذا میں اپنے تئیں ’’انڈر گراؤنڈ‘‘ کا آسان ترجمہ ’’زیر زمین‘‘کر کے گھنٹوں حیران رہا کرتا تھا کہ مخدوم بھائی آخر زیرِ زمین رہ کر کیا کرتے ہیں ۔ مجھے تو وہ ’’یکے از معدنیات‘‘ قسم کی کوئی چیز لگتے تھے ۔ بھلا ایک آدمی کو خواہ مخواہ ’’زیر زمین‘‘ جا کر رہنے کی کیا ضرورت ہے ۔ ترجمے کی یہ غلطی مجھ سے بچپن میں سرزد ہوئی تھی مگر جب بڑے ہوئے تو کہیں پڑھا کہ پاکستان کے ایک شاعر سے ترجمے کی یہ غلطی تو عین جوانی میں سرزد ہوئی تھی ۔ جن دنوں بنّے بھائی یعنی سجاد ظہیر پاکستان میں پارٹی کی سرگرمیوں کے سلسلے میں روپوش تھے ، تاجکستان کے مشہور شاعر مرزا ترسون زادہ پاکستان کے دورے پر آئے اور ایک پاکستانی شاعر سے فارسی میں پوچھا ’’سجاد ظہیر کجا است؟‘‘۔ پاکستانی شاعر نے بڑی روانی کے ساتھ فارسی میں ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’سجاد ظہیر زیر زمین است‘‘ ۔ یہ سنتے ہی مرزا ترسون زادہ کی آنکھوں میں کم و بیش اتنی ہی روانی کے ساتھ آنسو آگئے بولے ’’یہ کب ہوا؟ ہمیں تو کچھ بھی پتہ نہ چلا ، آخر انہیں کیا بیماری ہوگئی تھی؟‘‘ ۔

پاکستانی شاعر کو اچانک اپنی فارسی دانی کا احساس ہوا تو ہاتھوں اور بھنوؤں کے اشارے سے مابقی فارسی بولتے ہوئے مرزا ترسون زادہ  پر ’’زیر زمین‘‘ اور ’’رُوپوش‘‘ ہونے کے نازک فرق کو واضح کیا ۔ اسی طرح مخدوم بھی میرے لئے ایک عرصہ تک ’’زیر زمین‘‘ ہی رہے اور کسی نے میری غلط فہمی دور نہیں کی ۔ پھر جب ہم نے شعور سنبھالنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ مخدوم بڑی تیزی سے ہمارے شعور کا حصہ بنتے جارہے ہیں ۔ پھر حصہ بنتے بنتے وہ مکمل شعور ہی بن گئے ۔ مخدوم سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ میرے ایک دوست مخدوم کے مجموعۂ کلام’’سرخ سویرا‘‘ کو رحل پر رکھ کر نہ صرف پڑھا کرتے تھے بلکہ مطالعہ کے دوران میں آگے اور پیچھے جھولتے بھی تھے ۔ ہے کوئی شاعر جس کا کلام اس طرح پڑھا گیا ہو؟

صاحبو ، وہ بھی کیا دن تھے ۔ ہر صبح بستر سے جاگتے ہی آسمان پر نظر جاتی تھی کہ کہیں ’’سُرخ سویرا‘‘ تو نہیں آگیا ۔ جی چاہتا اپنے ملک میں بھی ایک عدد ’’انقلاب روس‘‘ لے آئیں ۔ انقلاب کے انتظار میں سگریٹیں پی پی کر کئی راتیں گزاریں ۔ ہمارا سوشلزم وہی تھا جو مخدوم اور فیض کی شاعری ، کرشن چندر کے افسانوں ، سجاد ظہیر اور سردار جعفری کی تحریروں کے وسیلے سے ہم تک پہنچا تھا  ۔یہ خالصتاً اردو سوشلزم تھا مگر ہم حیدرآبادیوں کے لئے مخدوم صرف شاعر اور دانشور نہیں تھے بلکہ بہت کچھ تھے ۔ مخدوم کے زیر زمین رہنے کی عادت کی وجہ سے ان کی شخصیت کے اطراف ایک عجیب سا سحر پیدا ہوگیا تھا ۔ یار لوگوں نے ان کے بارے میں باتیں بھی کچھ ایسی پھیلا رکھی تھیں کہ کبھی کبھی مخدوم ایک مافوق الفطرت شئے دکھائی دیتے تھے ۔ کہا جاتا تھا کہ مخدوم بیک وقت چار مختلف مقامات پر موجود رہتے ہیں ۔ اگر چار بجے ورنگل میں مزدوروں کے ایک خفیہ جلسہ سے خطاب کررہے ہیں تو ٹھیک اسی وقت نلگنڈہ میں ایک زمین دار کی زمین کسانوں میں بانٹ رہے ہیں اور پھرٹھیک اسی سمئے حیدرآباد کے محلہ میں اپنے ایک دوست کو اپنی تازہ نظم سنارہے ہیں اور پھر اسی وقت … اب خیر جانے بھی دیجئے ، ایسی باتیں کہاں تک سنائی جائیں ۔ مخدوم کے بارے میں اس قسم کے انکشافات کو سن کر ہمارے کمسن اور نوخیز خون کی جو حالت ہوتی ہوگی اس کا اندازہ آپ خود بھی لگاسکتے ہیں ۔ خون رگوں میں اُبلا پڑتا تھا جسے بعد میں مخدوم کے کلام کے ذریعہ ہی ٹھنڈا کیا جاتا تھا ، علاج بالمثل اسی کو کہتے ہیں ۔ اس وقت تک مخدوم کو نہیں دیکھا تھا ، حالانکہ ان کے ہر جگہ موجود (OMNI PRESENT) ہونے کی اتنی ساری افواہیں سن رکھی تھیں ۔

پھر یوں ہوا کہ مخدوم جب قید سے رہا ہوئے تو ہمیں اطلاع ملی کہ وہ شاہ آباد میں مزدوروں کے ایک جلسے سے خطاب کرنے کے لئے آرہے ہیں ۔ ان دنوں میں گلبرگہ انٹرمیڈیٹ کالج میں پڑھتا تھا ۔ جس شاعر کا کلام اپنے لئے وظیفہ تھا اور جس کی تصویر سدا دل کے آئینے میں رکھی رہتی تھی اس کے شاہ آباد آنے کی اطلاع ملی تو رگوں میں خون کچھ اس زور سے اُبلا کہ میں اور میرا وہ دوست جو ’’سرخ سویرا‘‘ کو رحل پر رکھ کر پڑھا کرتا تھا ریلوے اسٹیشن کی طرف بھاگے ۔ معلوم ہوا کہ شاہ آباد جانے والا مدراس میل ابھی جاچکا ہے ۔ انکوائری سے پوچھا کہ شاہ آباد کا یہاں سے کتنا فاصلہ ہے ؟ جواب ملا ’’25 کیلومیٹر‘‘ ۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے ۔ آج عشق آتشِ نمرود میں کود پڑے گا اور 25 کیلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرے گا ۔ اپنے جنوں کی کہاں تک تشہیر کی جائے ۔ یہ ہماری زندگی کی پہلی اور آخری ’’لانگ مارچ‘‘ تھی ۔ مگر شاہ آباد پہنچے تو معلوم ہوا کہ مخدوم آئے اور چلے بھی گئے ۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے ماتھے پیٹ کر چپ ہورہے ۔ مگر مخدوم مافوق الفطرت شئے تو تھے ہی ۔ انہیں غالباً کسی غیبی طاقت نے بتادیا تھا کہ گلبرگہ میں دو روحیں ان سے ملنے کے لئے بے تاب ہیں ۔ لہذا پندرہ دن بعد مخدوم گلبرگہ چلے آئے ۔ مزدوروں کے کسی جلسے کو مخاطب کرنے ۔ جلسے کے بعد کالج کے نوجوانوں نے انہیں گھیر لیا ۔ مجھے یاد ہے وہ پورے چاند کی رات تھی ۔ ایسا روشن چاند ہم نے زندگی میں پھر کبھی نہیں دیکھا ۔ گلبرگہ کے مومن پورہ میں ایک بزرگ کے مزار کے سامنے ایک چبوترے پر مخدوم ہم نوجوانوں کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ آدھی رات بیت چکی تھی اور مخدوم ہم سب کو اپنا کلام سنارہے تھے ۔ ’’سرخ سویرا‘‘ تو ہمیں زبانی یاد تھا ہی لہذا ہم نے کہا ’’مخدوم بھائی اپنا کوئی غیر مطبوعہ کلام سنایئے‘‘ ۔ ہنس کر بولے ’’میں غیر مطبوعہ کلام نہیں کہتا۔ ہمیشہ مطبوعہ کہتا ہوں‘‘ ۔

پھر میں حیدرآباد آیا ۔ مخدوم سے ان گنت ملاقاتیں ہوئیں ۔ پھر یوں ہوا کہ کئی برس بعد ایک دن میں ، پروفیسر حسن عسکری اور مخدوم حیدرآباد کے ویکاجی ہوٹل میں بیٹھے تھے ۔ مجھے مخدوم سے ملنے کا وہ پہلا اور اچھوتا اشتیاق یاد آیا ۔ میں نے مخدوم سے کہا ’’مخدوم بھائی آپ کو پتہ نہیں کہ کئی برس پہلے آپ سے ملنے کے لئے میں اور میرے ایک ساتھی نے گلبرگہ سے شاہ آباد تک پیدل سفر کیا تھا‘‘ ۔
یہ سنتے ہی نہایت رازداری کے انداز میں بولے ’’اچھا تو اب ملو ۔ بتاؤ کیا کام تھا تمہیں مجھ سے ۔ کوئی خاص بات تھی کیا؟‘‘ ۔
مجھے بے ساختہ ہنسی آگئی ۔ میں نے کہا ’’مخدوم بھائی اب تو مجھے یاد نہیں رہا کہ میں اس وقت آپ سے کیوں ملنا چاہتا تھا ۔

زندگی کے سفر میں بہت سی باتیں ، بہت سی خواہشیں اور بہت سے کام یوں ہی اوجھل ہوجاتے ہیں‘‘ ۔ بولے ’’یاد کرکے بتانا ۔ تمہارا حافظہ خاصا کمزور ہوتا جارہا ہے اور ہاں آئندہ کبھی پیدل چلنے کی غلطی نہ کرنا‘‘  ۔ یہ کہہ کر مخدوم نے زوردار قہقہہ لگایا (مجھے آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ مخدوم نے یہ قہقہہ مجھ پر لگایا تھا یا اپنے آپ پر ۔ بعض قہقہوں کے سرچشمے کا سراغ لگانا بہت دشوار ہوتا ہے) ۔ اپنی بات کو ختم کرکے مخدوم نے مجھ سے اور حسن عسکری سے زوردار مصافحے کئے  ۔ان کی عادت تھی کہ جب بھی کوئی چبھتا ہوا فقرہ کہتے ، جو وہ اکثر کہتے تھے اور مذاق کی کوئی بات کرتے ، جو وہ اکثر کرتے تھے تو مخاطب سے مصافحہ ضرور کرلیا کرتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ جب بھی مخدوم روبرو ہوتے تو میں بائیں ہاتھ سے سگریٹ پیتا تھا اور دائیں ہاتھ کو مصافحے کے لئے محفوظ رکھتا تھا ۔ ایک بار مجھے اور مخدوم کو ایک ادبی تقریب میں شرکت کے لئے بمبئی جانا پڑگیا ۔ حیدرآباد کے اسٹیشن پر میں پہنچا تو میرے ایک ہاتھ میں اٹیچی کیس تھا اور دوسرے میں ہولڈال ۔ مخدوم نے مجھے دیکھتے ہی مصافحہ والا فقرہ کہہ دیا اور میں نے اٹیچی کیس کو نیچے رکھ کر ان سے مصافحہ کیا ۔ پھر انہوں نے تابڑ توڑ کئی بار بامصافحہ فقرے کہہ کر مجھے سے اٹیچی کیس کو نیچے رکھوایا ۔ میں ان کے فقروں سے ایسا الرجک ہوا کہ ابھی وہ آدھا فقرہ ہی کہتے تھے کہ میں اٹیچی کیس کو نیچے رکھ دیتا تھا ۔ اس صورت حال کو دیکھ کر بولے ’’بیٹا، اب تو تم میرے ایسے فقروں پر بھی اٹیچی کیس کو نیچے رکھنے لگے ہو جن پر میں مصافحہ نہیں کرتا ۔ تم خود ورزش کرنا چاہتے ہو تو کرو‘‘ ۔
یہ کہہ کر مجھے اٹیچی کیس نیچے رکھنے کا حکم دیا ۔ مصافحہ کیا اور بولے ’’خبردار جو اب کبھی اٹیچی کیس نیچے رکھا‘‘ ۔ اور اس کے بعد پھر مصافحے کی منزل آگئی ۔

مخدوم کی بذلہ سنجی اور شگفتہ مزاجی کے بے شمار واقعات مجھے یاد ہیں ۔ اپنا مذاق آپ اُڑانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔ ایک بار علی الصبح اورینٹ ہوٹل میں پہنچ کر بیرے سے پوچھا ’’نہاری ہے؟‘‘ ۔
بیرا بولا ’’نہیں ہے‘‘ ۔
مخدوم نے پوچھا ’’آملیٹ ہے؟‘‘
بیرا بولا ’’نہیں ہے‘‘ ۔
مخدوم نے پوچھا ’’کھانے کے لئے کچھ ہے؟‘‘
بیرا بولا ’’اس وقت تو کچھ بھی نہیں ہے‘‘  ۔
اس پر مخدوم بولے ’’یہ ہوٹل ہے یا ہمارا گھر کہ یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے‘‘ ۔
ان کی عادت تھی کہ جب بھی کوئی نئی غزل کہتے تو اسے سنانے کے لئے دوڑ پڑتے تھے۔ اپنی اس عادت سے متعلق خود ہی ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے ۔ ایک دن ان سے غزل ہوگئی تو فوراً اورینٹ ہوٹل چلے آئے کہ کوئی مائی کا لال مل جائے تو اسے غزل سنائیں  ۔ یہاں کوئی نہ ملا تو ’’صبا‘‘ کے دفتر چلے گئے ۔ وہاں بھی کوئی نہ ملا ۔ تھک ہار کر چائنیز بار میں چلے گئے ۔ بار کے بیرے قاسم کو بلا کرکہا ’’دو پیگ وہسکی لے آؤ‘‘۔ قاسم وہسکی لے آیا تو اس سے بولے ’’بیٹھو اور وہسکی پیو‘‘ ۔ قاسم شرماتا رہا مگر وہ مُصر رہے ۔ اس نے کھڑے کھڑے وہسکی پی لی ۔ پھر بولے ’’دو پیگ وہسکی اور لے آؤ‘‘ ۔ دوسرے دور میں بھی انہوں نے قاسم کو وہسکی پلائی ۔ پھر تیسرا دور چلا ۔ اس کے بعد مخدوم نے قاسم سے کہا :
’’اچھا قاسم ، اب میرے سامنے بیٹھو ۔ میں تمہیں اپنی تازہ غزل کے کچھ شعر سنانا چاہتا ہوں‘‘ ۔
یہ سنتے ہی قاسم نے کہا ’’صاحب ، آپ بہت پی چکے ہیں۔ آپ کی حالت غیر ہورہی ہے ۔ چلئے میں آپ کو گھر چھوڑ آؤں‘‘ ۔
مخدوم کہا کرتے تھے کہ اپنی ہوش مندی کے ہزار ثبوت پیش کرنے کے باوجود قاسم نے اُس رات اُن کی غزل نہیں سنی ۔ یہ لطیفہ سنا کر خود ہی ہنستے تھے اور مخاطب سے زوردار مصافحہ کرتے تھے ۔
(دوسری قسط اگلے اتوار کو)