مخدوم محی الدین

میرا کالم            مجتبیٰ حسین
یہ لطیفہ بھی مخدوم ہی سنایا کرتے تھے جو ان کے دور روپوشی سے متعلق ہے ۔ کہتے ہیں کہ ایک بار یہ اپنے ایک برہمن دوست کے گھر روپوش ہوگئے ۔ ان کا برہمن دوست بھی پارٹی کا ممبر تھا ۔ ان کے دوست نے ان سے کہہ رکھا تھا کہ ’’مخدوم بھائی میرے والد بڑے قدامت پرست ہیں ۔ اسی لئے ان پر کبھی یہ ظاہر نہ کرنا کہ آپ برہمن نہیں ہیں ۔ اپنی برہمنیت کی لاج رکھنا‘‘ ۔
ایک دن ان کے دوست کے والد نے مخدوم سے کہا  ’’بھئی تم لوگ کمیونسٹ پارٹی میں ہو ، تمہارے دھرم کا کوئی بھروسہ نہیں ۔ کہیں تم گوشت تو نہیں کھاتے‘‘ ۔

مخدوم نے جھٹ سے کہا ’’لاحول ولاقوۃ یہ آپ نے کیسے سوچ لیا کہ میں گوشت کھاتا ہوں ۔ نعوذ باللہ یہ تو مجھ پر سراسر تہمت ہے‘‘ ۔
اس نان ویجیٹیرین جملے کے بعد ان کی روپوشی کا کیا بنا اس کے بارے میں مخدوم کچھ نہیں کہتے تھے ۔ وہ جہاں خوش مذاقی اور شگفتہ مزاجی کا پیکر تھے وہیں عقیدے کے معاملے میں بے حد سنجیدہ ہوجاتے تھے ۔ ہم نے اکثر دیکھا کہ وہ ہنستے کھیلتے سیٹی بجاتے خوش خوش اورینٹ ہوٹل آتے مگر ٹیبل پر بحث کے بعد جب جانے لگتے تو مٹھیاں بھنچی ہوتی تھیں ، منہ سے کف نکل رہا ہوتا تھا اور آنکھوں سے شعلے برس رہے ہوتے تھے ۔ اس اعتبار سے مخدوم بہت احتیاط سے برتنے کی چیز تھے ۔ ذرا کوئی چوک گیا اور مخدوم کی مٹھیاں بھنچ گئیں ۔
1969 ء ان کے انتقال سے دو برس پہلے کی بات ہے ، حیدرآباد میں ایک عظیم الشان مشاعرہ برپا تھا ۔ مخدوم ڈائس پر بیٹھے تھے اور ایک شاعرہ مائک پر کلام سنارہی تھیں ۔ ڈائس کے سامنے ایک لحیم شحیم شخص نشہ میں دُھت بیٹھا شاعرہ کو گھورے جارہا تھا ۔ پھر اس کے جی میں نہ جانے کیا آئی کہ اس نے اچانک شاعرہ کی طرف چھلانگ لگائی ۔ مخدوم نے بھی چیتے کی سی پھرتی کے ساتھ اس شخص کی طرف چھلانگ لگائی ۔ سکینڈوں میں اس شخص کو ڈائس سے نیچے گرایا اور اس کے سینے پر سوار ہوگئے ۔ میں کیسے بتاؤں کہ بیس پچیس برس بعد مخدوم کے اندر چھپے ہوئے انقلابی کو پھر ایک بار سرگرم عمل دیکھ کر کتنی خوشی ہوئی ۔ لوگوں نے مخدوم کی اس ادا کی داد بھی اسی طرح دی جس طرح ان کے کلام پر دیا کرتے تھے ۔
وہ چھوٹوں کے ساتھ بہت شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے ۔ حیدرآباد کے کتنے ہی ادیبوں اور شاعروں کی ذہنی تربیت انہوں نے کی ۔ سلیمان اریب ، عزیز قیسی ، اقبال متین ، وحید اختر ، جیلانی بانو ، انور معظم ، آمنہ ابوالحسن ، شاذ تمکنت ، عاتق شاہ ، عوض سعید اور مغنی تبسم یہ سب مخدوم سے متاثر تھے ۔ وہ میری بھی ہر قدم پر ہمت افزائی کرتے تھے چنانچہ مجھے ’’مسخرا‘‘ کہہ کر پکارتے تھے ۔ اب اس سے زیادہ کوئی میری ہمت افزائی کرکے دکھادے ۔ اردو کے مسخروں یعنی مزاح نگاروں کی پہلی کل ہند کانفرنس ہوئی تو اس کا افتتاح انہوں نے ہی فرمایا ۔ میرے مضامین کے پہلے مجموعے کی رسم اجراء بھی انہوں نے ہی ازراہ تمسخر انجام دی تھی ۔
ادیبوں سے وہ الجھتے بھی تھے ۔ اس معاملہ میں وحید اختر پر ان کی بڑی نظرِ عنایت رہا کرتی تھی ۔ کبھی کبھی دوستوں کو جان بوجھ کر چھیڑتے بھی تھے ۔ ایک رات سلیمان اریب کے گھر پر حیدرآباد کے مشہور آرٹسٹ سعید بن محمد سے کہا ’’شاعری ، مصوری سے کہیں زیادہ طاقتور میڈیم ہے‘‘۔

سعید بن محمد نے برش بکف جواب دیا ’’مصوری اور شاعری کا کیا تقابل ۔ شاعری میں تم جو چیز بیان نہیں کرسکتے ہم رنگوں اور فارم  میں بیان کردیتے تھے ۔ تم کہو تو میں ساری اردو شاعری کو پینٹ کرکے     رکھ دوں‘‘ ۔
مخدوم بولے ’’ساری اردو شاعری تو بہت بڑی بات ہے ، تم اس معمولی مصرعے کو ہی پینٹ کرکے دکھادو‘‘
’’پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے‘‘ ۔
سعید بن محمد بولے ’’یہ کون سی مشکل بات ہے  ،میں کینوس پر گلاب کی ایک پنکھڑی بنادوں گا‘‘ ۔
بولے ’’پنکھڑی گلاب کی تو پینٹ ہوگئی مگر ’’سی‘‘ کو کیسے پینٹ  کرو گے؟‘‘
سعید بن محمد بولے ’’سی‘‘ بھی بھلا کوئی پینٹ کرنے کی چیز ہے؟‘‘
مخدوم بولے ’مصرعے کی جان تو ’’سی‘‘ ہی ہے ۔ سعید آج میں تمہیں جانے نہیں دوں گا جب تک تم ’’سی‘‘ کو پینٹ نہیں کروگے‘‘ ۔
یہ سنتے ہی سعید بن محمد وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔
مجھے اس وقت مخدوم کا وہ مضمون یاد آرہا ہے جو انہوں نے حیدرآباد کے اردو ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں بہ زبان انگریزی ’’السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا‘‘ میں لکھا تھا ۔ مضمون کی اشاعت کا چونکہ پہلے سے اعلان ہوچکا تھا اس لئے جس دن ویکلی کا شمارہ حیدرآباد پہنچا ، اردو ادیبوں اور شاعروں نے دھڑا دھڑ اس کی کاپیاں خرید لیں ۔ نیوز پیپر اسٹال والا سخت حیران کہ اردو شاعروں کو آج کیا ہوگیا کہ انگریزی کا رسالہ خریدے چلے جارہے ہیں ۔ میں عابد روڈ سے گزر رہا تھا کہ حیدرآباد کے ایک بزرگ شاعر ویکلی کا شمارہ ہاتھ میں پکڑے میرے پاس آئے اور کہنے لگے ’’بھئی ، اس میں مخدوم کا مضمون کہاں ہے بتاؤ؟‘‘ ۔
میں نے مخدوم کا مضمون نکال کر دکھایا تو بولے ’’اچھا اب یہ بتاؤ کہ اس میں میرا نام کہاں ہے؟‘‘
پہلے تو میں بڑی دیر تک خود اپنا نام مضمون میں تلاش کرتا رہا ۔ یہ نہ ملا تو شاعر موصوف کا نام تلاش کرنے لگا ۔ حسب توقع یہ بھی وہاں موجود نہ تھا ۔ مگر اسی بیچ مجھے ایک شرارت سوجھی  ۔ میں نے  سلیمان اریب کے نام کے نیچے ایک لکیر کھینچتے ہوئے شاعر موصوف سے کہا ’’لیجئے قبلہ ، یہ رہا آپ کا نام‘‘ ۔
شاعر موصوف ویکلی کے شمارے کو سینے سے لگائے خوش خوش چلے گئے ۔ تھوڑی دور جانے کے بعد مخدوم انہیں مل گئے تو انہوں نے بڑی احسان مندی کے ساتھ مضمون میں ان کا نام شامل رکھنے کا شکریہ ادا کیا ۔
مخدوم نے کہا ’’قبلہ آپ کو کس نے بتایا کہ آپ کا نام مضمون میں شامل ہے؟‘‘
وہ بولے ’’ابھی ابھی مجتبیٰ نے مجھے بتایا ہے‘‘ ۔
مخدوم بولے ’’مولانا ، مجتبیٰ کو بھی اتنی ہی انگریزی آتی ہے جتنی کہ آپ کو آتی ہے ۔ جایئے جایئے ، آپ کا نام میں نے نہیں لکھا ہے‘‘ ۔
اس مضمون کے بعد حیدرآباد کے کئی نوجوان ادیبوں کو مخدوم سے شکایت ہوگئی ۔ ایک دن اورینٹ ہوٹل میں یہی مضمون زیر بحث تھا۔ مخدوم بولے ’’بھئی ادیب اور شاعر کواپنے نام اور شہرت سے بے نیاز رہنا چاہئے ۔ اس کا نام یا کلام چھپے یا نہ چھپے اسے تو بے تعلق رہنا چاہئے‘‘۔

اس کے بعد بحث ختم ہوگئی اور دوسرے مسائل زیر بحث آگئے ۔ مگر اسی بیچ مجھے پھر ایک شرارت سوجھی ۔ میں نے بالکل ہی بے نیاز ہو کر کہا ’’مخدوم بھائی ، آپ کی نظم دلّی کے ایک رسالے کے تازہ شمارے میں بڑے اہتمام کے ساتھ شائع ہوئی ہے‘‘ ۔ پوچھا ’’کون سے رسالے میں؟‘‘ ۔
میں نے کہا ’’مجھے نام تو یاد نہیں رہا مگر عابد روڈ کے بس اسٹاپ والے بک اسٹال پر ابھی ابھی میں یہ رسالہ دیکھ کر آرہا ہوں‘‘ ۔
مخدوم تھوڑی دیر تو انجان اور بے تعلق بنے رہے ۔ پھر اچانک کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے جیسا کہ ان کی عادت تھی ۔ پھر بولے ’’اچھا اب چلتے ہیں‘‘ ۔ یہ کہہ کر وہ تیز تیز قدموں سے باہر نکل گئے ۔ میرے ساتھ کچھ احباب بھی بیٹھے تھے ۔ میں نے کہا ’’مخدوم بھائی ، یہاں سے سیدھے بک اسٹال پر جائیں گے ، چلو ہم بھی چلیں‘‘ ۔
ہم لوگ بُک اسٹال پر پہنچے تو مخدوم سچ مچ وہاں موجود تھے اور رسالوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے ۔ جوں ہی ہم پر ان کی نظر پڑی ۔ انہوں نے فلک شگاف قہقہہ لگایا اور بولے ’’کیوں بے مسخرے ، ہم سے بدمعاشی کرتا ہے‘‘ ۔

میں نے کہا ’’مخدوم بھائی ، میں تو صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ شاعر اپنے نام اور کلام سے کس حد تک بے نیاز رہ سکتا ہے ‘‘ ۔
مخدوم کو حیدرآباد سے بے پناہ پیار تھا  جسے وہ ہمیشہ ’’وطن مالوف‘‘ کہا کرتے تھے ۔ حیدرآباد مخدوم کے اندر تھا اور مخدوم حیدرآباد کے اندر ۔ حیدرآباد کی گلی گلی میں ان کے چرچے تھے ۔ حیدرآبادیوں نے انہیں ٹوٹ کر چاہا بھی  ۔ ڈاکٹر راج بہادر گوڑ نے تو اپنے گھر کا نام ہی ’’چنبیلی کا منڈوا‘‘ رکھ چھوڑا تھا جو مخدوم کی ایک مشہور نظم کا عنوان ہے ۔ لوگ اپنے گھروںکے نام رکھتے ہیں ، ڈاکٹر گوڑ نے اپنے گھر کا عنوان رکھا تھا ۔ اگرچہ اپنے گھر میں معنویت پیدا کرنے کے لئے چنبیلی کی بیل بھی لگا رکھی تھی ۔ مگر اب بھی ان کے گھر میں ’’چنبیلی کا منڈوا‘‘ کم اور مخدوم کی نظم زیادہ نظر آتی ہے ۔
وہ ڈسپلن کے بڑے پابند تھے ۔ سارا دن پارٹی کا کام کرتے اور شام کو تھوڑا سا وقت دوستوں میں گزارتے تھے ۔ جہاں احساس ہوا کہ وقت ضائع ہورہا ہے ، چٹ سے اٹھ جاتے تھے اور محفل سے غائب ۔ وہ دنیا سے گئے بھی اسی طرح یعنی ایک دن چٹ سے چلے گئے ۔
آخری مرتبہ جب وہ دہلی جارہے تھے تو مجھ سے روزنامہ ’’سیاست‘‘ کے دفتر پر مل گئے ۔ میں نے پوچھا ’’مخدوم بھائی واپسی کب ہوگی؟‘‘۔

بولے ’’یہی دو چار دن میں آجاؤں گا‘‘ ۔
وہ بات کے بڑے پکے تھے ۔ لہذا حیدرآباد واپس آئے مگر کچھ اس شان کے ساتھ کہ ڈاکٹر راج بہادر گوڑ کے کندھوں پر سوارتھے ۔ سیاسی کامرانیوں کے بعد مخدوم کا ڈاکٹر گوڑ کے کندھے پر سوار ہونا یا مخدوم کے کندھے پر ڈاکٹر گوڑ کا سوار ہونا کوئی نئی بات نہیں تھی ۔ مگر اس بار وہ ڈاکٹر گوڑ کے کندھے پر سوار ہوئے تو نیچے نہیں اُترے ۔ ہمیشہ کے لئے سب کے دلوں میں ایک زخم بن کر اتر گئے ۔ مخدوم کے جنازے میں ہزاروں لوگ دہاڑیں مار مار کر رورہے تھے ، ایسا جنازہ کسی شاعر اور وہ بھی اردو شاعر کو بھلا کہاں نصیب ہوگا ۔ اور یوں وہ پھر ’’زیرِ زمین‘‘ چلے گئے ۔ مگر اس بار وہ ’’زیر زمین‘‘ جاتے ہوئے اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے گئے۔ اپنا سب کچھ دنیا کو سونپ گئے ۔ اپنی شاعری ، اپنا عقیدہ ، اپنی باتیں، اپنے لطیفے ، اپنی یادیں ، غرض سب کچھ ۔
مخدوم کے بارے میں اب سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ مخدوم ایک انسان نہیں تھے ۔ جیتا جاگتا سانس لیتا ہوا شہر تھے ۔ اس شہر کی ہم نے برسوں سیر کی ، ہم سب اسی شہر میں آباد تھے ۔ اس شہر میں کتنی سڑکیں تھیں ، کتنی گلیاں تھیں ، کتنے موڑ تھے اور یہ سب راستے انسانیت اور سچائی کی طرف جاتے تھے ۔ (1978)