محکمہ موسمیات اور حکومت

ہندوستان میں مانسون اور خشک سالی کے مسئلہ پر محکمہ موسمیات کی پیش قیاسیوں میں فرق پیدا ہونے سے احتیاطی اقدامات کا عمل بھی نظرانداز ہوتا جارہا ہے ۔ یہ بات کسی کے اختیار میں نہیں کہ ملک میں بارش کی گنتی نوٹ کی جائے ‘ ان دنوں ملک کی کئی ریاستوں میں پینے پانی کی قلت اور زیر زمین آبی ذخائر کی کمی نے تشویشناک صورتحال پیدا کردی ہے ۔ ایسے میں نریندر مودی کی قیادت میں کام کرنے والی حکومت کو عوام کے سامنے جوابدہ ہونے کی نوبت آرہی ہے ۔اس سے پہلے کہ حکومت کی ناقص کارکردگی کے اثرات اسمبلی انتخابات کے نتائج پر پڑجائیں محکمہ موسمیات نے اس سال اچھے مانسون کا سوشہ چھوڑا ہے ۔ انڈیا میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ نے زرعی شعبہ کی تشویش اور معاشی پیداوار پر اٹھنے والے اندیشوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس سال مانسون ’’ معمول سے بہتر ‘‘ ہوگا ۔ اس سال کے مانسون کی پیش قیاسی کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اوسط سے زیادہ بارش ہوگی ۔ گذشتہ تین سال سے یعنی 2013ء سے سالانہ بارش کے فیصد میں کمی دیکھی گئی ہے ‘ زرعی پیداوار گھٹ گئی اور پانی کی شدید قلت پیدا ہوئی ۔ مہاراشٹرا کے کئی ٹاؤنس میں پینے کے پانی کی قلت سے عوام پریشان ہیں ۔ حکومت اور کرکٹ میاچس کے درمیان تنازعہ بھی پیدا ہوا ہے کہ ریاست مہاراشٹرا کو شدید خشک سالی او عوام کو پانی کی قلت کا سامنا ہے ایسے میں ٹی۔20 میاچس پر توجہ دی جارہی ہے جبکہ مودی حکومت کی بدنامی کو روکنے کیلئے محکمہ موسمیات نے مضبوط پیش قیاسی کرتے ہوئے عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ اس سال مانسون اچھا ہوگا ۔یہ پیش قیاسی دراصل مودی کی پانچ سال میں زرعی آمدنی میں اضافہ کرنے کے نشانہ کو درست بنانے کی محکمہ جاتی دوڑ کا حصہ معلوم ہوتا ہے ۔ اہم ریاستی اسمبلی انتخابات سے قبل ان کی مقبولیت پر کوئی آنچ نہ آنے دینے کی چال بھی چلی جارہی ہے ۔ گذشتہ سال جو بارش ہوئی‘اتنی بارش گذشتہ تین دہوں میں سب سے کم بارش ریکارڈ کی گئی تھی ۔ اس سے اہم ترین ضروری اشیائی پیداوار گھٹ گئی تھی ۔ چاول ‘ مکئی ‘ شکر کے لئے گنا کی پیداوار اور تیل کی پیداوار بھی گھٹ گئی جس کے نتیجہ میں ایشیاء کے تیسرے سب سے بڑی معیشت والے ملک میں غذائی اجناس بہت زیادہ مہنگے ہوگئے ۔ضروری اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ نے عام آدمی کی کمر ہی توڑ دی تھی ۔ جن اُمور پر قدرت کو ملکہ حاصل ہے ان کے تعلق سے ماہرین کی پیش قیاسیاں ناقابل یقین ہوجاتی ہیں ۔ انسان صرف احتیاطی اقدامات کرسکتا ہے اور پیشگی انتظامات کے ذریعہ حالات کو  دگرگوں ہونے سے روک سکتا ہے ۔

یہ کام حکمراں طبقہ کا ہے کہ وہ عوام پر پڑنے والی مصیبتوں کو کم کرے ۔ آفات سماوی کی صورت میں رونما ہونے والی کیفیت سے نمٹنا حکومت اور اس کے محکموں کا کام ہے ۔خشک سالی پر قابو پانے کے لئے کئے گئے بلند بانگ دعوؤں اور بے شمار آبپاشی پراجکٹس کے باوجود اس عصری دنیا کے عوام کو پینے کے پانی کے ایک ایک بوند کیلئے ترسنا پڑے تو نظم و نسق کی ناہلی اور حکمرانوں کی بے عملی آشکار ہوجاتی ہے ۔ مانسون پر انحصار کرنے والے شعبوں میں زرعی شعبہ سب سے زیادہ اہم ہے اگر معمول با معمول سے زیادہ بارش ہوتی ہے تو کسانوں کی زندگیوں میں خوشحالی آئے گی عوام کو پینے کے پانی کے مسئلہ سے چھٹکارہ ملے گا ۔ آر بی آئی نے زرعی شعبہ سے وابستہ افراد کیلئے شرح سود میں کمی کا اعلان کیا ہے کیونکہ ہندوستان کی نصف آبادی زراعت سے وابستہ ہے اور اس سے روزگار حاصل کرتی ہے ۔

حکومت اپنے سرکاری محکموں اور ان کے ملازمین کیلئے مراعات میں اضافہ کرتی ہے‘ نئے نئے محکمہ اور ادارے بنائے جاتے ہیں ‘ بیوروکریسی کو راحت پہنچانے کے اقدامات کرتی ہے لیکن خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کے عوام بے آب ہورہے ہیں اور مودی جیسے حکمراں کہتے ہیں کہ ’’ آچھے دن آرہے ہیں ‘ غریبوں کی زندگی میں اب سکون محسوس ہورہا ہے ‘‘ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ غریبوں کی زندگی میں سکون تو نہیں موت ضرور آرہی ہے ۔ ایسے میں مانسون کا شوشہ چھوڑ کر محکمہ موسمیات کو سیاسی مفادات کا مرکز بنانے کی کوشش افسوسناک ہے ۔