محنت کر کے بتانا ہوگا تربیت دے کر دکھانا ہوگا

محمد مصطفیٰ علی سروری
یہ 27 ستمبر 2000 ء کی بات ہے 5 برس کی معصوم سی لڑکی آسنا اپنی ماں اور بھائی کے ساتھ اپنے گھر کے باہر کھڑی ہوئی تھی اور وہاں ہونے والے شور شرابہ کو دیکھ رہی تھی ، تبھی کنور کیرالا میں اس کے گھر کے باہر مبینہ طور پر آر ایس ایس کے کارکنوں نے کانگریس کے کارکنوں پردھماکو اشیاء پھینکی۔ مجالس مقامی کے الیکشن میں ہوئی اس سیاسی جھڑپ میں آر ایس ایس والوں کا پھینکا ہوا بم آسنا کے قریب گر کر پھٹ گیا اور اس دھماکہ میں آسنا اس کی ماں اور بھائی بھی زخمی ہوگئے ۔ لوگوں نے زخمیوں کو دواخانہ منتقل کیا جہاں پر ڈاکٹروں نے اس معصوم سی پانچ سال کی بچی کا سیدھا پاؤں گھٹنے سے کاٹ دیا ۔ زخم اس قدر شدید تھے ، آسنا تقریباً 3 مہینے تک دواخانے میں شریک رہی اور جب اس کو دواخانے سے ڈسچارج کیا گیا تو اس کے سیدھے پاؤں کی جگہ ایک مصنوعی پاؤں لگایا گیا تھا ۔ آسنا کے والد گاؤں میں ہی ایک چھوٹی چائے کی دکان چلاتے تھے ، اپنی بچی کی معذوری کو دیکھ کر انہوں نے اپنی چائے کی دکان کو بند کردیا۔
قارئین آپ لوگوں کے ذہن میں یہ خیال آرہا ہوگا کہ اب تو اس چائے والے کے ہاتھ ایک ایسی بیٹی آگئی کہ دنیا کے سامنے اس کی جتنی پریڈ کروائی جائے اتنی ہی امداد ملتی جائے گی تو ہوسکتا ہے کہ غریب چائے بیچنے والے باپ نے یہی سوچ کر اپنی چائے کی دکان کو بند کردیا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوا تھا۔ آسنا کے والد نے اپنی چائے کی دکان کیوں بند کردی اس کے متعلق اخبار انڈین اکسپریس نے 26 مارچ 2018 ء کو اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ آسنا کے والد نے اپنی چائے کی دکان کواس لئے بند کردیا تاکہ وہ اپنی بچی کو اسکول آنے جانے میں مدد کرسکیں۔ آسنا کے والد غریب تھے لیکن اُن کا ماننا تھا کہ غریبی کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ بچوں کو تعلیم دلوائی جائے اس لئے انہوں نے چائے کی دکان کی بجائے دوسرے کام کاج کو اپنایا اور اپنی لڑکی کو اسکول لانے لے جانے کا کام نہ چھوڑا۔ یہاں تک کہ جب آسنا دسویں کلاس میں آگئی تو اس کا اسکول گھر سے دور پڑتا تھا ، آسنا کے والد نے گھر خالی کر کے آسنا کے اسکول کے قریب ہی دوسرا گھر کرایہ سے لے لیا تاکہ اسے اسکول آنے جانے تکلیف نہ ہو۔ آسنا نے لوگوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے حصول تعلیم کیلئے آگے بڑھنے کی جستجو کو جاری رکھا اور مخیرحضرات نے آسنا کے اس جذبہ اور شوق کو دیکھ کر اس کیلئے کسی نے مصنوعی پیر کا انتظام کیا تو حکومت نے اس کے کالج میں صرف اس لئے لفٹ لگوادی کہ اس کو مصنوعی پیر کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنی نہ پڑے۔

آسنا کے والدین نے غریبی اور معاشی خراب حالات کے با وجود اپنے طور پر ہر ممکنہ کوشش کی ۔ آسنا نے بھی اپنے گھر والوں کو مایوس نہیں کیا اور جی جان لگا کر پڑھتی رہی۔ بارھویں کے امتحان کے بعد آسنا کی محنت نے رنگ دکھایا اور معذورین کے زمرے میں آسنا کو ایم بی بی ایس میں داخلہ مل گیا۔ انڈین اکسپریس اخبار سے بات کرتے ہوئے آسنا نے بتلایا کہ جب وہ دھماکے میں زخمی ہوکر تقریباً تین مہینے تک دواخانے میں زیر علاج رہی تھی ، اس دوران ہی اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ ڈاکٹر بنے گی اور خاص کر غریبوں کی مدد کرے گی ۔ آسنا فی الحال ایک سال کی پریکٹس کر رہی ہے ۔ پچھلے 18 برسوں کے دوران جب آسنا نے اپنا سیدھا پاؤں گنوادیا ہے ، اب تک 15 مصنوعی پیر بدلوایئے ہیں۔ عمرکے ساتھ قد بھی بڑھتا گیا اور مصنوعی پیر چھوٹے ہوگئے لیکن مصنوعی پیر بھی کس قدر تکلیف دیتا ہے ، یہ بات وہی لوگ جانتے ہیں جنہوں نے مصنوعی پیر لگوایا ہے یا جنہوں نے اپنے عزیزوں کو مصنوعی پیر استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ بعض اوقات مصنوعی پیر لگانے سے زخم بن جاتے تھے اور ہر نیا مصنوعی پیر شروع میں مسائل ہی پیدا کرتا تھا ، آسنا نے اب جو مصنوعی پیر لگایا ہے ، اس کی قیمت دو لاکھ ہے ۔ ایک این آر آئی صاحب خیر نے آسنا کیلئے یہ مدد بھیجی تھی۔ ایک پاؤں سے محروم ہوکر بھی حوصلے نہ ہارنے والی یہ لڑکی اب ڈاکٹر بن چکی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ آگے ایم ڈی کا کورس بھی پورا کرے۔
آسنا کی اس کہانی میں جتنی تعریف خود اس کی کرنی چاہئے اس سے کہیں زیادہ قابل تعریف اسکے والدین ہیں جنہوں نے آسنا کی تعلیم کو یقینی بنانے کیلئے ہر طرح کی قربانی دی ۔ والد نے جہاں اپنی دکان بند کر کے نوکری شروع کردی تو گھر والوں نے گھر بھی اس لئے بدل ڈالا تاکہ اسکول آنے جانے میں آسنا کو تکلیف نہ ہو۔ والدین کے لاڈ پیار سے زیادہ والدین کا اپنے بچوں کو تربیت دینے کا طریقہ بچوں پر کس قدر گہرے اور مثبت اثرات مرتب کرتا ہے ، آسنا کی زندگی میں کامیابی اس کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
جب والدین اپنے بچوںکو اسکول کالج میں داخلہ دلواکر یہ سمجھنے لگتے ہیں ، اسکول میں بہت اچھے ٹیچرز ہیں اور کالج میں پڑھانے والے لیکچرارس بہت قابل ہیں، لہذا ہمارے بچے اچھا پڑھ بھی لیں گے اور قابل بھی بنیں گے ، ساتھ میں ٹیوشن بھی بچوں کو لگاکر ہم جب یہ سمجھنے لگتے ہیں ، اب تو کامیابی ہمارے بچوںکا مقدر بن چکی ہے اور ہمارے بچے امتحان ہال میں امتحانی پرچوں میں کیا کیا لکھ کر آجاتے ہیں، اس کا اندازہ ہندوستان ٹائمز اخبار کی 26 مارچ 2018 ء کو شائع ہونے والی رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے ۔

ایک لڑکی نے اپنے جوابی بیاض میں لکھا کہ ’’میں اپنے ہاتھ جوڑ کر آپ سے اپیل کرتی ہوں مجھے معاف کردیجئے گا میں بہت ہی غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔ میں نے لوگوں کے کپڑے سی سی کر کچھ پیسے جمع کئے ہیں۔ میرے پاس پڑھنے کیلئے کتابیں نہیں تھی ، میں لوگوں کی کتابیں مانگ کر پڑھا کرتی تھی ۔ مجھے پاس کردیں تو بڑی مہربانی ہوگی ۔ اس لڑ کی نے اپنے جوابی بیاض کے ساتھ کچھ نوٹ لگادیئے تھے۔
اخبار نے ایک اور ٹیچر کے حوالے سے لکھا کہ ایک لڑکے نے اپنے جوابی بیاض میں لکھا کہ ’’سر میں نے ہائی اسکول تک پوری سنجیدگی سے تعلیم حاصل کی ۔ مجھے جب ایک لڑکی سے پیار ہوگیا تو میں پڑھائی پر توجہ مرکوز نہیں کرسکا ۔ اس لو اسٹوری کی وجہ سے میں پڑھائی سے دور ہوگیا تھا ، بے حد معافی چاہتا ہوں۔
ایک اور اسٹوڈنٹ نے اپنے Answer Sheet میں لکھا کہ میرا تعلق بہت غریب خاندان سے ہے، میرے والد کا بہت عرصہ قبل انتقال ہوگیا ۔ مجھے اپنے گھر کے اخراجات پورا کرنے کے لئے کام کرے بغیر دوسرا کوئی چارہ نہیں تھا، آپ مجھے پاس کردیں تو مہربانی ہوگی اور میرا پورا خاندان آپ کا شکر گزار رہے گا۔ صرف پاسنگ مارکس دینے کی اپیل ہی نہیں بلکہ کئی بچوں نے اپنے جوابی بیاض کے ساتھ پیسے بھی رکھ کر چھوڑے تھے ۔ بچے اسکولس میں کیا کر رہے ہیں اور امتحان ہال میں کیا لکھ کر اور پرچوں کے ساتھ کیا کیا لگاکر آرہے ہیں والدین کو خبر نہیں ؟
تعلیم کے ساتھ ساتھ سب سے اہم ضرورت تربیت کی ہے جس کے متعلق ہم میں سے اکثر چوک جاتے ہیں جیسے آسنا کم عمری میں ہی ایک پاؤں سے محروم ہوگئی تو اس کے والد نے ہی فیصلہ کیا کہ اب زندگی کے ہر قدم پر اگر آسنا کا ایک قدم ہوگا تو دو قدم ان کے بھی ہوں گے ۔ والدین اپنے بچوں کی تربیت والی ذمہ داری اگر نبھانا چاہیں تو بچوں کیلئے زندگی کے ہر امتحان میں کامیابی آسان ہوجاتی ہے۔ ریاست ٹاملناڈو کے دارالحکومت چینائی سے 300 کیلو میٹر دور کومیا کونم کو مندروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے ۔ اس شہر میں جئے روی گزشتہ 20 برسوں سے میکانک کے طور پر کام کر رہا ہے ۔ اس میکانک کی دکان شہر کی ایک ایسی سڑک پر تھی جہاں سے آگے لڑکیوں کا کالج ہے، مجبوراً میکانک جے روی کو اپنی دکان پر لڑکوں کے بجائے لڑکیوں کو ہی کام پر رکھنا پڑتا تھا روی نے پہلے تو اپنی بیوی کو ساتھ کام پر رکھا اور پھر 2008 ء سے اپنی بیٹی کو گاڑیوں کے کام میں تربیت دینے لگا اخبار دی ہندو نے ٹاملناڈو کے مندروں کے شہر سے تعلق رکھنے والی اس “Bullet Rani” کے متعلق 28 مارچ کو ایک تفصیلی مضمون شائع کیا جس میں لکھا ہے کہ بلٹ رانی اسکول کی کتابیں لیکر ہر شام اپنے والد کی دکان کو چلی جاتی تھی تاکہ اپنی ماں کو چھٹی دے سکے جو صبح سے والد کے ساتھ دکان پر کام کر رہی ہوتی تھی ۔ دکان پر اپنے اسکول کا ہوم ورک تو کرتی ہی تھی ، ساتھ میں اپنے والد کے کام میں ہاتھ بھی بٹانے لگتی ۔ گزشتہ نو برسوں کے دوران میکانک کی لڑکی روہنی نے گاڑیوں کی مرمت کا کام اچھے طریقے سے سیکھ لیا اور صرف بلٹ گاڑی ہی نہیں بلکہ ہر طرح کے دو پہیوں والی گاڑیوں کی مرمت کا کام بخوبی جان چکی ہے ۔ آج روہنی کے والد نے بڑے فخر سے اخبار ہندو سے بات کرتے ہوئے بتلایا کہ ان کی بچی اب اس قابل بن چکی ہے کہ وہ اکیلے ہی گیاریج کا سارا کام سنبھال سکتی ہے ۔ انجن کو ٹھیک کرنے سے لیکر ٹائروں کی مرمت کا غرض مکمل کام وہ تنہا انجام دے سکتی ہے ۔ اخبار کے مطابق روہنی ہر مہینے 12 تا 15 ہزار روپئے اوسطاً کما رہی ہے۔ روزانہ صبح 10 بجے سے شام 9 بجے تک کام کرنے کی مصروفیات کے دوران روہنی نے تعلیم ترک کردی ۔ ایک سڑک حادثہ کے بعد روہنی نے اسکول کے آ گے کی تعلیم حاصل نہیں کی ۔ روہنی کے ایک ویڈیو نے سوشیل میڈیا پر بری دھوم مچادی ۔ اس ویڈیو میں وہ ایک بلٹ گاڑی چلا رہی ہے۔
قارئین ٹاملناڈو کی روہنی ہو یا کیرالا کی آسنا ان لڑکیوں نے اپنی محنت اور کامیابی سے ثابت کیا کہ والدین کا تعاون اگر بچوں کو ملتا ہے تو آگے بڑ ھنے سے انہیں کوئی طاقت نہیں روک سکتی ہے ۔ ہمیں اس بات کو نہ صرف محسوس کرنے کی ضرورت ہے بلکہ عملی طور پر یہ بھی دیکھنا ہے کہ اسکول کالج کو بھیجنے کے علاوہ بحیثیت سرپرست اور والدین ہم اپنے بچوں کی تربیت کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔
جتنا ضروری بچوں کو جھوٹ بولنے سے روکنا ہے اس سے کہیں زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم سچ سننے کی عادت ڈالیں۔ ورنہ ہمارا عالم تو یہ ہے کہ بچوں کو جھوٹ بولنے سے ہزار منع کریں گے اور بچہ سچ بول دے تو اس کو سزا دیںگے ۔ قول و فعل کا یہ تضاد ہمارا عملی امتحان ہے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس امتحان میں کامیابی عطا فرمائے اور ہمیں دوسروں کیلئے آسانیاں بانٹنے والا بنائے ۔ آمین
sarwari829@yahoo.com