محبوبہ مفتی کی خاموشی سے جموں و کشمیر میں غیر یقینی صورت حال

شاہد احمد چودھری
مفتی سعید کا انتقال 7 جنوری کو ہوا تھا ۔ توقع کی جارہی تھی کہ اپنے والد کے انتقال پر کچھ دن کے سوگ کا وقت گزر جانے کے بعد محبوبہ مفتی ریاست کی پہلی خاتون وزیراعلی بن جائیں گی لیکن قیاس آرائیوں کے باوجود اس سرحدی ریاست میں نئی حکومت کی تشکیل کے امکانات اب بھی نظر نہیں آرہے ہیں ۔ فی الوقت جموں و کشمیر میں گورنر راج نافذ ہے ۔ حالانکہ نئی حکومت کی تشکیل کے تناظر میں متعدد اقسام کی مسلسل قیاس آرائیاں روز کی جارہی ہیں جیسے محبوبہ مفتی کی پارٹی پی ڈی پی اپنی حلیف جماعت بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر کانگریس کے ساتھ نیا اتحاد بنانا چاہتی ہے ۔ فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس بی جے پی کے ساتھ مل کر سرکار بنانے کی خواہش مند ہے ۔ بی جے پی روٹیشنل وزیراعلی بنانے کے لئے دباؤ ڈال رہی ہے کہ نصف میعاد میں اس کی پارٹی کا وزیراعلی ہو اور آدھی میعاد پی ڈی پی کی لیکن اب تک محبوبہ مفتی نے اپنے پتّے کسی کے سامنے کھولے نہیں ہیں ۔

یہ قیاس آرائیاں یوں ہی نہیں کی جارہی ہیں ۔ پی ڈی پی اور کانگریس اتحاد کی باتیں اس لئے کی جارہی ہیں کہ کانگریس اور سونیا گاندھی خاص طور سے محبوبہ مفتی سے ملنے کے لئے کشمیر گئی تھیں ۔ اگرچہ کہ سونیا گاندھی نے ایمس ، نئی دہلی میں ہی مفتی محمد سعید کو خراج عقیدت پیش کردیا تھا ، لیکن پھر بھی وہ محبوبہ مفتی سے ملنے کے لئے کشمیر میں ان کے گھر پر گئیں ۔ ظاہر ہے اس ملاقات سے سیاسی اٹکلیں لگانا فطری تھا  ۔اس کے بعد ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی طرف سے یہ بیان آیا کہ ان کی نیشنل کانفرنس، بی جے پی کو سرکار بنانے کے لئے حمایت دینے کے لئے تیار ہے ۔ ڈاکٹر عبداللہ نے بعد میں اپنے اس بیان کو مسترد کردیا ، لیکن یہ واضح ہوگیا کہ وہ اپنے طور پر یا بی جے پی کے اشارے پر محبوبہ مفتی پر دباؤ ڈالنا چاہتے تھے کہ ریاست میں دوسرے متبادلات بھی موجود ہیں ۔ بہرحال جب نیشنل کانفرنس کا ظاہر کردہ نظریہ یہ ہے کہ اگر پی ڈی پی اور پی جے پی اپنا گٹھ بندھن جاری رکھ کر حکومت نہیں بنارہے ہیں ، تو جموں و کشمیر میں نئے سرے سے چناؤ کرائے جائیں ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پچھلے سال جب جموں و کشمیر اسمبلی کے چناؤ میں کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں حاصل ہوئی تھی تو کئی ہفتوں تک کھینچ تان کے بعد اسمبلی میں دو سب سے بڑی پارٹیوں پی ڈی پی اور بی جے پی نے آپس میں مل کر سرکار بنانے کا فیصلہ کیا تھااور مفتی محمد سعید وزیراعلی بنائے گئے تھے ۔ سعید کا قد اتنا بڑا تھا کہ ان کے سامنے روٹیشنل وزیراعلی کی تجویز رکھا جانا ممکن ہی نہیں تھا لیکن ان کی موت کے بعد بی جے پی نے فوراً سری نگر میں اپنے ایم ایل ایز کی میٹنگ کی اور غیر متوقع طور پر روٹیشنل وزیراعلی کا ذکر چھیڑا ۔ شاید اس پر محبوبہ مفتی کا ردعمل جاننے کے لئے ایسا کیا گیا ۔

محبوبہ مفتی بہت منجھی ہوئی سیاستداں ہیں ۔ وہ اپنے والد کے نام پر سیاست ضرور کرتی ہیں لیکن پی ڈی پی کو زمینی سطح پر کھڑا کرنے کا کریڈٹ انھیں ہی دیا جاتا ہے ۔ وہ بی جے پی سے گٹھ بندھن اپنی شرطوں پر چاہتی ہیں ۔ ساتھ ہی حکومت بنانے کی جلد بازی وہ اس لئے بھی نہیں کررہی ہیں کہ وہ اس بات کا جائزہ لینا چاہتی ہیں کہ ان کے والد کے انتقال کے بعد ان کی پارٹی کے حق میں جموں و کشمیر میں ہمدردی کی لہر ہے یا نہیں ۔ اگر انھیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمدردی کی لہر ہے تو وہ سیکولرازم کی دہائی دیتے ہوئے ریاست میں نئے اسمبلی انتخابات پر زور دیں گی ۔ اس امید میں کہ ان کے پہلے سے زیادہ ایم ایل ایز ہوجائیں ۔ اگر ان کو لگتا ہے کہ ہمدردی کی لہر نہیں ہے ، تو وہ وقت لے کر بی جے پی پر دباؤ ڈالیں گی کہ ان کی شرطوں پر ہی حکومت کی تشکیل کی جائے ۔ دھیان رہے کہ جموں و کشمیر کی اسمبلی میں کل 87 ارکان ہیں ، جن میں سے پی ڈی پی کے پاس ایسی تعداد ہے ۔ اس کے پاس متعدد متبادل ہیں ۔ اپنے 27 ارکان اسمبلی کے ساتھ وہ بی جے پی کے 25 ارکان اسمبلی کو چھوڑ کر کانگریس کے 12 ایم ایل ایز اور کچھ آزاد ایم ایل ایز کو ملا کر حکومت بنا سکتی ہے ۔ دوسرا وہ بی جے پی کے ساتھ پھر سے گٹھ بندھن کی شرطیں رکھ سکتی ہے ، خاص طور پر اس لئے کہ جموں و کشمیر میں پہلی دفعہ اقتدار میں آنے کے باعث بی جے پی کافی پُرعزم ہوگئی ہے ۔ تیسرا یہ کہ وہ وسط مدتی انتخاب پر زور دے سکتی ہے  ،اس امید میں بی جے پی سے گٹھ بندھن کے باعث جن حامیوں کو اس نے کھویا ہے انھیں واپس حاصل کرلے ۔ جموں و کشمیر میں خاص طور پر وادی میں پی ڈی پی کی بڑی مخالف پارٹی نیشنل کانفرنس ہے  ۔فی الوقت نیشنل کانفرنس حاشئے پر ہے ، لیکن ریاست کی جو موجودہ سیاسی صورت حال ہے ، اس میں وہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو تلاش کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے ۔ اسی وجہ سے عمر عبداللہ نے محبوبہ مفتی کو حال ہی میں کھلا خط لکھا کہ وہ یا تو سرکار بنائیں یا اسمبلی کو تحلیل کردیں ۔ اس واقعے سے ظاہر ہے کہ جموں و کشمیر میں سارے پتّے محبوبہ مفتی کے ہاتھ میں ہیں ، لیکن ان کا تدبذب بھی کسی سے چھپاہوا نہیں ہے ۔ محبوبہ مفتی کو پی ڈی پی میں جو عدم اطمینانی ہے اسے بھی ختم کرنا ہے ۔ انھیں اپنے روایتی سیاسی حلقے کو بھی مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کہ نئی دلی سے بھی جڑی رہیں اور اپنے علحدگی پسند حامیوں سمیت ریاست کے عوام کے زخموں پر بھی مرہم لگاتی رہیں ۔

2015 کے آغاز میں مفتی سعید کو اپنے تمام سیاسی تجربات اور اپنے سابق وزیراعلی کے دور اقتدار (2002-05) کی مقبولیت کا استعمال کرنا پڑا تھا تاکہ بی جے پی کے ساتھ ایسا گٹھ بندھن بناسکیں جو کسی نے بھی تصور نہیں کیا تھا ۔ سعید نے اس وقت کہا تھا کہ پارٹی کو جموں علاقے کے ساتھ مل کرچلنا ہوگا ، جہاں بی جے پی نے چناؤ میں اچھا مظاہرہ کیا تھا ۔ پی ڈی پی اس گٹھ بندھن کو ایک ایجنڈے کے تحت آگے لے جانے کی خواہش مند دکھائی دی جس سے نئی دہلی جموں و کشمیر کے درد کو زیادہ سمجھ سکے اور اس کی ترقی کے لئے زیادہ رقم الاٹ کرسکے ۔ پچھلے ایک سال کے دوران پی ڈی پی اور بی جے پی کے اتحاد پر ہر طرف سے بہت دباؤ پڑا ، پھر بھی وہ چلتا ہی رہا ۔ ایک دباؤ تو یہ تھا کہ سرحد پر چل رہی جنگ بندی پر روک لگ گئی جس سے تعلقات سدھرے اور پاک مقبوضہ کشمیر کے ساتھ معاشی اور عوامی رابطہ کی امید اور کم ہوگئی ۔ دوسرا دباؤ یہ تھا کہ ترقی کے لئے فنڈ خاص طور پر 2014 کے سیلاب متاثرین کے لئے بازآبادکاری پیکیج کے آنے میں بہت تاخیر ہوئی اور جو آیا بھی وہ بہت کم تھا ۔ تیسرا دباؤ یہ تھا کہ عام کشمیری زندگی میں گائے کے گوشت اور جموں و کشمیر جھنڈے جیسے ہندوتوا کے مسئلے داخل ہوئے جس سے بی جے پی کے سیاسی ایجنڈے پر عوام اور خود پی ڈی پی میں شک کا احساس پیدا ہونے لگا ۔ اس پس منظر میں محبوبہ مفتی کے لئے کوئی بھی فیصلہ کرنا آسان نہیں ہے ۔ اس کے باوجود ضرورت اس بات کی ہے کہ محبوبہ مفتی جلد کوئی فیصلہ کریں ۔ غیر یقینی صورتحال کا دیر تک قائم رہنا جموں و کشمیر کے حق میں نہیں ہے ۔