محبت ہوگئی ہے زندگی سے

نفیسہ خان
جی ہاں ہماری بڑھتی عمر کے ساتھ زندگی سے ہماری محبت بڑھتی ہی جارہی ہے اور یہ شعر ہم پر صادق آرہا ہیکہ
محبت ہوگئی ہے زندگی سے
مگر جینا بہت مہنگا پڑا ہے
ان دنوں ہر آدمی خصوصاً عمر رسیدہ اشخاص کا یہ حال ہوگیا ہیکہ ہر لحظہ ایک دھڑکا لگا رہتا ہے ۔ ہر لمحہ سراسیمہ کہ جانے اگلے پل کیا ہوجائے بظاہر کوئی آزار کوئی خطرناک بیماری بھی نہیں جو باعث تشویش ہو لیکن موت کے خوف نے راحت جاں اور پرسکون زندگی کو ترسادیا ہے ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو خوشحال اور مطمئن زندگی میں بھی انجانے خطرات کے خوف سے پریشان رہتے ہیں گویا بہاروں میں بھی سدا خزاں کا اندیشہ دامن گیر ہوتا ہے ۔ غم و اندوہ سے اس قدر مانوس ہوچکے ہیں کہ رقص و سرود کی محفلیں شاق گزرتی ہیں خوشیوں کا حصول اور مسرتوں کو پانے کی تمنا سعی لاحاصل ہے ۔ زیادہ اور کچھ نہیں لگتی اسلئے حیات ایک بوجھ ایک بار گراں محسوس ہوتی ہے ایک بہت پرانا گانا ہے
’’ذرا سی آہٹ ہوتی ہے تو دل سوچتا ہے کہیں یہ وہ تو نہیں؟‘‘
بس اسی موت کی آمد کا خوف مارے ڈال رہا ہے دراصل
اب تو اس موڑ پہ لے آئی ہے عمر رفتہ
اب تو پتا بھی کھڑکتا ہے تو ڈر لگتا ہے

بالکل یہی حال ہوگیا ہیکہ روزمرہ کے معمول میں ذرا سا فرق آیا نہیں کہ بڑے سے بڑے نامور ڈاکٹر کی تلاش میں کارپوریٹ ہسپتال کی راہ پکڑ لیتے ہیں کہ اگر نہ جائیں تو محترم ملک الموت بس آیا ہی چاہتے ہیں جب تک چند ہزار روپئے ڈاکٹروں کی نذر نہ کردیں سکون میسر ہی نہیں ہوتا ۔ حالانکہ معمر افراد صحت و بیماری کے علاوہ کئی ایک دوسرے خاندانی مسائل سے بھی دوچار ہیں مگر کیا کریں ۔ کوئی کہیں محلہ والوں سے بیزار ہے تو کوئی بہو سے نالاں ، تو کوئی بیٹے کے بدلے ہوئے رویہ کا رونا روتا ہے ۔ کوئی ناتے ناتیوں کی روش سے خوفزدہ کہ کل کے دن وہ خاندانی عزت و ناموس کو خاک میں ملانے کے درپے نہ ہوجائیں ۔ لیکن مجال نہیں کہ کسی کے خلاف منہ کھولیں اور جو کھول بھی دیا تو ان کو کب بزرگوں کے صلاح و مشورے ماننے ہیں ۔ انہیں ٹوک کر بلاوجہ اپنی شوگر و بلڈ پریشر کو بڑھالینا کہاں کی عقلمندی ہے اور یوں بھی اب عمر کے اس حصے میں ہمیں خاموش تماشائی بن کر زندگی گذارنے میں عافیت نظر آتی ہے کیونکہ عمر رفتہ اس مرحلے سے گذررہی ہے جہاں

اپنی مرضی کے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں
ہر ایک کو اپنا بچپن ، اپنا لڑکپن ، اپنی معصومیت ، اپنی نوجوانی کی اٹھکھیلیاں سب کچھ رنگین خواب سے لگتے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے یہ ماہ و سال کچھ زیادہ ہی جلد گذر گئے گویا اتنی جلد گذرنا نہیں چاہئے تھا ۔ حکومت نے ہمارے تندرست و چاق و چوبند رہنے کے باوجود بھی ہمیں وظیفہ پر سبکدوش کردیا ہو ۔ ویسے بھی ہم اتنے ضعیف ، کمزور و لاغر بھی کہاں ہوئے ہیں ۔ ماضی کی یادوں کا بے بہا خزانہ البم میں محفوظ ہے ۔ اپنی ان تصاویر کو ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ متاع دو جہاں لگتی ہیں ۔ ان دنوں کی یادیں دل میں کسک پیدا کرتی ہیں کہ
گئے وقتوں کی البم دیکھنے بیٹھے تو یاد آیا
ہم اک چہرے میں اپنا ناک نقشہ چھوڑ آئے ہیں
ہماری پرانی تصاویر دیکھ کر بچے اطراف میں جمع ہوجاتے ہیں اور ہر تصویر پر حیرت سے پوچھتے ہیں ’’یہ آپ ہیں پاشاہ نانی؟‘‘ اور ہم اپنے بگڑے ہوئے خد و خال کو آئینے میں جانچنے کی کوشش کرتے ہیں اور
آئینہ مجھ سے میری پہلی سی صورت مانگے
میرے اپنے میرے ہونے کی نشانی مانگیں

والا معاملہ ہوجاتا ہے ۔ اسکول و کالج کے کھیلوں کے مقابلوں کے تمغوں و بیشمار انعامات کے ساتھ ہمیں کھڑا دیکھ کرننھی منی آنکھیں اعتبار کرنے سے قطعی انکار کردیتی ہیں کہ کیا سچ مچ آپ ہائی جمپ ، لانگ جمپ میں اتنی اونچی اور اتنی لمبی چھلانگیں لگایا کرتی تھیں ؟ کیا آپ کالج میں باسکٹ بال ٹیم کی کپتان تھیں ؟ کیا آپ فتح میدان و گگن محل میں پی ٹی اوشا کی طرح دوڑ میں اول آتی تھیں ؟ تو ہم اپنے شدید درد دینے والے اکڑے ہوئے گھٹنوں ، خمیدہ کمر اور بھاری بھرکم بدن کی طرف دیکھ کر سرنگوں ہوجاتے ہیں کیونکہ
کل تک تو زندگی تھی تماشا بنی ہوئی
اور آج زندگی بھی تماشائیوں میں ہے
پہلے ضعیفی میں کمردرد یا خمیدہ کمر کی کوئی خاص وجہ سمجھ میں نہ آتی تھی اب slip disc کا پیارا سا نام دے کر کمر کو بیلٹ سے جکڑ دیا جاتا ہے ۔ گردن کے درد و چکر کا علام کالر ہے ۔ جیسے لگا کر ہم اپنے آپ کو کسی پالتو کتے جیسا سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ کل تک ماضی کی کتاب کا ہرورق رنگین و جاذب نظر تھا اس پر کامیابی و کامرانی کی کئی ایک حکایت رقم تھیں ۔

عمر عزیز کے رنگین و دلچسپ فسانے تحریر تھے اور آج ہم اپنے آپ کو آصفیہ لائبریری میں رکھی ہوئی اردو کی وہ بوسیدہ کتاب سمجھنے پر مجبور ہیں جس کا ہر ورق دیمکوں کی زد میں ہے زندہ رہنے کا اب کوئی مقصد بھی نظر نہیں آتا ۔ تمام عمر ہم نے خوب جم کر پڑھائی کی ، بہترین نتائج حاصل کئے ، نوکری ملی ، حکومت سے نہ صرف یہ کہ ماہانہ معقول تنخواہ اٹھائی ہے بلکہ سونے کا تمغہ اور سرکاری اعزازات سے نوازے بھی گئے ،کارنامہ حیات کے چیک و سرٹیفیکٹ بھی سابق چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو اور وائی ایس آر سے حاصل کئے ، اپنی گھریلو وسماجی ذمے داریاں بھی بخوبی نبھائی ہیں ، جتنا بھی ہوسکا اپنوں پرایوں کاساتھ بھی دیا ہے ، اب بھی کرنے کو بہت سے کام پڑے ہیں لیکن دو نسلوں کے درمیان کا فاصلہ ہماری مرضی ، ہمارے مشوروں کو دوسروں پر تھوپنے کی اجازت کہاں دیتا ہے ، ایک بے نام سی دوری ایک انجان سافاصلہ ہمارے رشتوں کے درمیان پیدا ہورہا ہے ، آپسی تعلقات میں تصنع و بناوٹ کی آمیزش معلوم ہوتی ہے بقول وسیم بریلوی

نبھانا خون کا رشتہ کوئی آساں نہیں ہوتا
گذر جاتی ہے ساری زندگی خود سے لڑائی میں
اب تو یہ عالم ہیکہ خیر خیریت ، مزاج پرسیاں ، عیادتیں بھی ناگوار گذر رہی ہیں ، جی چاہتا ہیکہ یہ سلسلہ بھی بند ہوجائے تو بہتر ہیکہ
مجھے چھوڑ میرے ہی حال پر ترا کیا بھروسہ ہے چارہ گر
یہ تیری نوازش مختصر مرا درد اور بڑھا نہ دے
ہم نہ معاشی طورپر کسی کے دست نگر ہیں نہ جسمانی طور پر اتنے کمزور یا معذور بھی ابھی نہیں ہوئے ہیں کہ گھر سے باہر کی دنیا کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کی حس کھوبیٹھے ہوں ۔ ہم جیسے کئی ایک عمر رسیدہ لوگ کسی معاملے میں کسی پر بوجھ نہیں ، اسکے باوجود ہماری عمر کے لوگوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے ، کوئی بہانہ بنا کر ساتھ گھومنے لے جانے سے گریز کیا جاتا ہے اور معمر لوگ دل مسوس کر رہ جاتے ہیں، غلطی ہم جیسے لوگوں کی ہی ہے کہ

اپنی حالت پہ مجھے خود ہی ترس آتا ہے
پر شکستہ ہوں مگر خواہش پرواز بھی ہے
کبھی جب ہمارے کانوں میں یہ بھنک پڑتی ہیکہ گھر کے جملہ افراد کہیں دوسرے مقام پر جانے کا پروگرام بنارہے ہیں تو ہم خوشی سے سرشار ہوکر وقت سے پہلے اپنا ایربیگ جمانے لگتے ہیں ۔ جس میں کپڑوں وغیرہ سے زیادہ روزانہ استعمال کی دوائیں ہوتی ہیں کیونکہ بقول منور رانا
ہمارے کچھ گناہوں کی سزا بھی ساتھ چلتی ہے
ہم اب تنہا نہیں چلتے دوا بھی ساتھ چلتی ہے
بوڑھے لوگوں سے اہل خاندان دور بھاگ رہے ہیں گویا ضعیف لوگ ایک معتدل بیماری کے مانند ہوگئے ہیں جس سے فاصلے بنائے رکھنا شاید ضروری ہوگیا ہے حالانکہ ہم ہمارے بچپن میں بوڑھوں کی باتوں سے ان کے بچپن کی کہانیوں سے بیحد لطف اندوز ہوا کرتے تھے ۔ ان کی باتیں ہم گرہ میں باندھ کر رکھ لیا کرتے تھے ،

ان کی ضروریات زندگی حد یہ کہ ان کے پاندان ، ان کی پان کی گلوریوں کو مدرے کے کچے کپڑے میں لپیٹ کر رکھنے کا ہمیں خاص خیال تھا کہ کبھی امی ، ابا جان کی آنکھ بچا کر دادی ماں چٹکی بھر شکر آدھے پان میں ڈال کر ہمارے منہ میں ڈال دیں گی یا ہماری چھوٹی چھوٹی ہتھیلیوں میں ایک آنہ رکھ کر چپکے سے مٹھی بند کردیں گی اور ہم آناً فاناً بھاگ کر گھر کے سامنے والی دکان سے گڑ و مرمرے سے بنا لڈو خرید کر لالیں گے وہ ایک آنہ پا کر ہم اتنا خوش ہوتے گویا دو جہاں کی دولت مل گئی ہو ۔ آج بھی وہ ایک آنہ ہماری سوکھی جلد والی ہتھیلی میں ہمیں پیوست نظر آتا ہے اور جس کا مول ہماری زندگی بھر کی کمائی سے کئی گنا زیادہ معلوم ہوتا ہے ۔ جب ہم ہائی اسکول میں داخل ہوئے تو بڑی بوڑھی خواتین کی ہمیں اور زیادہ ضرورت محسوس ہوئی تاکہ ہمارے دوپٹوں کو قوس قزح کے رنگوں میں رنگ مگر کلف و ابرک میں ڈبو کر چن کر کھینچ کھینچ کر اسکی گول سے گیند بنا کر ہمیں دیں اور ہم باریک چنت والے دوپٹوں کو پہن کر اتراسکیں ۔ اب نئی نسل کی لڑکیوں کو ایسی ضرورتیں درپیش نہیں ہیں ۔ ایک سے خوبصورت ایک انارکلی سوٹ و شلوار سوٹس بازار میں موجود ہیں یا پھر ایک بدر رنگ سے جینس و ٹی شرٹ میں ان کی زندگیاں گذر جارہی ہیں ۔ تب ہمارے لمبے گھنے بالوں کو دھونے سنوارنے اور چوٹیاں گوندھنے ہمیں بڑوں کی ضرورت تھی ۔ ہمارے دراز بالوں کی تصدیق ویمنس کالج کے انٹرکلاس ڈراموں کے مقابلوں کی وہ تصویر کرتی ہے ، جسے دیکھ کر بوڑھی بزرگ بی جان برسوں پہلے کاگانا لہک لہک کر گاتیں
جب اس نے گیسو بکھرائے بادل آیا جھوم کے
مست امنگیں لہرائی ہیں رنگین مکھڑا چوم کے

اور سب ان کی بے سری آواز پر ہنس ہنس کر لوٹ جاتے اور اب نئی نسل کی زیادہ تر لڑکیوں کے تراشیدہ بالوں کو ہاتھ لگانے کی مجال ہم میں نہیں کہ وہ خود ایک چھوٹی سی مشین خرید کر گھر لاچکی ہیں کہ جس کی مدد سے بال کبھی سیدھے ہوجاتے ہیں تو کبھی گھنگھریالے تو کبھی نیچے پلٹ جاتے ہیں تو کبھی اوپر کی طرف الٹ جاتے ہیں ، منٹوں نہیں بلکہ کبھی تو گھنٹوں ان کا یہ مشغلہ جاری رہتا ہے ، گویا ہم ہیں اور ہمارا آئینہ ہے ۔ پہلے تو اللہ میاں نے بعد میں ڈاکٹروں نے ابھی اتنی بینائی محفوظ رکھی ہیکہ روز نئی نسل کے یہ مشغلے و نظارے دیکھتے رہتے ہیں ۔ ہمارے کان بھی اپنا کام بخوبی انجام دے رہے ہیں تو پھر گھر پر رہو تو چونکہ ہر گھر کا چھوٹا بڑا فرد ٹی وی یا سیل فون پر نت نئے گانے سنا کرتا ہے تو آپ اپنے کانوں میں شیش ڈالنے سے تو رہے اور اگر کبھی خدانخواستہ ان لوگوں کی کار میں سوار ہوکر جانے کا برا وقت آجائے تو ہزاروں روپئے خرچ کرکے لگائے گئے میوزک سسٹم کی جھنجھناہٹ سے دماغ کی رگیں پھٹتے پھٹتے رہ جاتی ہیں ۔ایسے وقت ہم کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
زندگی ہم تجھ ہی سے ڈرتے ہیں
تو ہمیں موت سے ڈراتی ہے

ہم سمجھتے رہے کہ یہ حالات ہم جیسے بہت کم لوگوں کے ہوں گے لیکن جب کبھی بھی محفلوں میں بات چھڑتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیا دور ہے ۔ یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ۔ ہر کوئی پریشان و نالاں زندگی گذار رہا ہے ۔ حال جیسا بھی ہے سب کی نظروں کے سامنے ہے مستقبل سے آگاہی اب بے سود ہے کہ اسکا خیال ترک کرنا ہی عقلمندی ہے ۔ کیونکہ عمر کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے ۔ اسکے باوجود ان حالات سے نہ صرف مردانہ وار بلکہ زنانہ وار مقابلہ ہر عمر رسیدہ مرد و زن کو کرنا ہوگا کیونکہ ہم سب کو زندگی بہت خوبصورت رنگ برنگی تتلی کی طرح لگتی ہے جسے مچل مچل کر ہم پکڑنا چاہتے ہیں اسکے پروں کے تمام رنگوں سے اپنے دن و رات کو رنگین بنانا چاہتے ہیں ۔ زندگی کی حقیقتوں ، تلخیوں و کڑواہٹوں کو فراموش کرکے بس حسین ، دلکش ، دلفریب لمحوںکو اپنے میں جذب کرنا چاہتے ہیں کہ نہ کوئی ہم سے نالاں رہے نہ ہمارے دل میں کسی کے خلاف کوئی نفرت آمیز جذبہ یا رنجش پروان چڑھے ہمیں اب کونسی کونین کی خواہش ، تمنا و آرزو ہے اب تو دو گز زمین کا سوال باقی رہ گیا ہے ۔ اب بھی تو وجود ایک کمرے میں سمٹ آیا ہے جہاں محبوس تنہائی کا احساس ہوتا ہے پھر بھی سبھی موت سے خائف ہیں حالانکہ

ہے ناگزیر تو اے موت تجھ سے ڈرنا کیا
ہمیں پتہ ہے کہ بے وقت تو نہیں آتی
اور اب اس عمر میں تو
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی ؟
جب ہمارے درد کا درماں ممکن نہ ہو تو دوسروں کے دکھ درد میں ساتھ دینا اپنا شعار بنالینا چاہئے کیونکہ اب بھی جسم ناتواں میں اتنی ہمت اتنا حوصلہ ہیکہ اپنوں کیلئے اپنی ملت کے لئے بہت کچھ کرنے کا ارمان ہے اسلئے اپنی بزرگی ضعیفی پر ماتم کناں ہونے کی بجائے یہ سوچیں کہ
موت کے خوف سے کیوں زیست کا مقصد بدلوں
مدتوں جی کے بھی آخر کبھی مرجانا ہے

اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ ہسپتال میں کسی کی عیادت کو جائیں تووہاں مریضوں اور خصوصاً معمر مریضوں کی زندگی و حالت یاس و حرماں ، ناامیدی ، دکھ درد ، مصائب میں گھری رائیگاں و بیکار معلوم ہوتی ہے کہ کس تکلیف دہ حیات کا بوجھ اپنے کندھوں پر ڈھو رہے ہیں ۔ گھر میں کوئی خدمت کرنے تیار نہیں اسلئے دواخانے میں ڈال دیا جاتا ہے ، کبھی اپنے ساتھیوں کو موذی ، تکلیف دہ بیماریوں کے ساتھ کربناک حالت میں پل پل موت کی طرف بڑھتے قدموں کو دیکھتے ہوئے دل لرز جاتا ہے اور اپنے کردہ و ناکردہ گناہوں کی معافی کے خواستگار ہوتے ہوئے خدائے بزرگ و برتر سے دعائیں مانگنے لگتے ہیں کہ ’’یا اللہ موت تو برحق ہے لیکن بستر مرگ پر ڈال کر ہمارا اور اہل خاندان کا امتحان نہ لے بلکہ مرگ ناگہاں سے دوچار کردے ۔ چلتے پھرتے کی موت عطا کر (آمین ثم آمین)
اب دواخانوں و ڈاکٹروں کے نام سے وحشت ہونے لگی ہے کہ
اٹھ گیا سارے مسیحاؤں سے اپنا اعتبار
سب دوائیں ہورہی ہیں بے اثراے جان جاں