مجمع لگانے والے لیڈروں کی اہمیت

تلنگانہ ۔ اے پی ڈائری         خیر اللہ بیگ
انتخابات کے موقع پرمجمع لگانے والے لیڈروں کی کافی اہمیت ہوتی ہے۔ بلدی انتخابات کیلئے تو ایسے مجمع باز لیڈروں کی چاندی ہی چاندی دیکھی جارہی ہے۔ انتخابی مہم اور جلسہ عام کے لئے جب تک مجمع نہیں ہوتا مقرر کو تقریر کرنے اور سیاسی مخالفین پر تنقیدیں کرنے میں مزہ ہی نہیں آتا۔ مجمع میں موجود عوام بھی مقرر کی تقریر کو اس وقت تک شوق سے نہیں سنتے جت تک اس نے اپنے سیاسی حریفوں کو ننگا نہ کیا ہو۔ ایسے سیاسی مجمع پرانے شہر میں کافی نرالے اور مزیدار ہوتے ہیں، ان دنوں مجمع باز لیڈروں نے ایسے ایسے جھوٹ بولنا شروع کیا ہے کہ خود ان کے برسوں پرانے حامی اور سامعین کو شرم آرہی ہے کیونکہ تلنگانہ حکومت کے تمام موافق اقلیت اسکیمات کا سہرا اپنے سر باندھ کر یہ باور کیا جارہا ہے کہ ٹی آر ایس حکومت نے جو کچھ کیا ہے یہ ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے ورنہ ٹی آر ایس ایک پیسہ بھی مسلمانوں پر خرچ کرنے والی نہیں تھی۔ شادی اسکیم ہو یا اسکالر شپ، ہر وہ اسکیم جس سے حکمراں پارٹی کو اقلیت نواز ہونے کا  فخر ہے اس پر مقامی جماعت کے مجمع باز لیڈروں نے اپنی مرضی اور منشاء کی مہر ثبت کرنے کی حماقت کی ہے لیکن آج کے عوام کل کے بھولے بھالے رائے دہندے نہیں رہے بلکہ انہوں نے  فی الفور اجتماعات سے تربیت حاصل کی ہے تاہم بعض ایسے بھی حامی ہیں جو اپنے لیڈر کی ہر بات کو حرف آخر سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔ بلدی انتخابات کی اس طوفانی انتخابی مہم کے دوران حکمران پارٹی ٹی آر ایس کو دیگر پارٹیوں پر سبقت حاصل ہورہی ہے یا نہیں یہ خود ٹی آر ایس کے ورکرس اور قائدین کو احساس ہے۔ خاصکر ان ٹی آر ایس ورکرس کو جنہوں نے پارٹی کے لئے اب تک بہت کچھ کیا  مگر انتخابات میں پارٹی ٹکٹ سے محروم رہے، اپنی پارٹی کے ناقص مظاہرے کا اندیشہ ستا رہا ہے۔

یہ قانون فطرت اور اصول تاریخ ہے کہ جب کوئی اپنے خدمتگاروں کو ٹھکراکر دوسروں کو عزیز رکھتا ہے تو اس کا انجام براہی ہوتا ہے۔ ٹی آر ایس کے قدیم ورکرس اور قائدین کو یہ شکایت ہے کہ پارٹی سربراہ نے ان کی دیرینہ کوششوں کو نظرانداز کرتے ہوئے پارٹی میں نئے وارد ہونے والوں کو عزیز رکھا گیا اور انتخابی دلہا بناکر شہر کے ڈیویژنوں میں سہرا پہناکر گشت کروایا جارہا ہے۔ جب نتیجہ آئے گا تو نہ سہرا ہوگا اور نہ دلہا سب اپنی ناکامی کو نئے سال کا پہلا سانحہ سمجھ کر رفو چکر ہوں گے۔پھر سیاستدانوں کو خاص طور پر ان کو جنہیں عوام نے منتخب کیا ہے معاشرے اور ماحول کی تبدیلیوں کا اندازہ نہیں ہوگا۔ سارے شہری ووٹ ڈالنے کے بعد آنکھیں بند کرکے خوابوں میں شہر کی ترقی و تبدیلی کے لئے گہری نیند کے مزے لے رہے ہوں گے جب پانچ سال بعد اٹھیں گے تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ تبدیلی نہیں ہوئی ہے کوئی ترقی نہیں ہوئی ہے۔آخر انہوں نے پھر ایک بار دھوکہ کھایا اور انہیں سیاستدانوں کو ووٹ دیا جو آزمودہ تھے۔ لہذا 2فبروری کو ووٹ ڈالنے کے لئے جانے سے قبل شہر کی بلدی تاریخ کے سینہ میں ایک خنجر کی طرح پیوست یہاں کی قیادت اور اس کے کارکنوں کو فراموش نہ کریں کیونکہ یہ لوگ حکمراں پارٹی سے درپردہ ہاتھ ملاتے ہیں اور حکران پارٹی کی اسکیمات کو اپنے سر لے کر عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ ان کے جواب میں تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے قائدین اور امیدواروں نے کوئی موثر مہم نہیں چلائی۔ اس لئے کئی پارٹی قائدین نے اپنی کامیابی کے امکان پر مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ دیگر کارکنوں نے کہا کہ حریفوں کی بڑھتی سیاسی لہر کے سامنے حکمراں پارٹی کے امیدوار کمزور دکھائی دیتے ہیں۔ بعض حلقوں میں ٹی آر ایس نے نفسیاتی محاذ پر رائے دہندوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کی ہے جن پارٹی ورکرس کو عہدوں اور اختیارات حاصل ہونے کی آرزو ہے وہ اب بھی پارٹی قیادت پر بھروسہ کئے ہوئے ہیں کہ بلدی انتخابات کے بعد ٹی آر ایس کے اصل خدمت گار ورکرس کو پارٹی کے عہدے اور کارپوریشنوں کی کرسیاں عطاء کی جائیں گی۔

لیکن ٹی آر ایس میں ایسے لیڈر بھی ہیں جو پارٹی کی بے رخی کا شکار ہوئے ہیں۔ عنبرپیٹ پٹیل نگر کے ٹی آر ایس ورکر رمنا نے ٹی آر ایس کے اندر ہونے والی ناانصافیوں کو منظر عام پر لانے کی ہمت دکھائی اور پارٹی اعلیٰ قیادت کی جانب سے حقیقی ورکرس کو نظر انداز کرنے کے خلاف احتجاج کیا۔ اس نے سیل ٹاور پر چڑھ کر خود کو خبروں میں رکھا لیکن اس احتجاج کے باوجود پارٹی قیادت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ ٹی آر ایس کے قدیم اور حقیقی ورکرس کی بھی شکایت ہے کہ پارٹی میں محنت کش ورکرس کو نظرانداز کرکے نئے آنے والوں کو اہمیت دی جارہی ہے۔ تلگودیشم، بی جے پی، کانگریس چھوڑ کر آنے والے قائدین کو ٹی آر ایس میں اہم مقام دیا جارہا ہے تو یہی لوگ آگے چل کر پارٹی کے لئے مسائل پید کرسکتے ہیں۔ انتخابات کے موقع پر ٹی آر ایس کے حقیقی ورکرس اور پارٹی قیادت کے درمیان تلخی بڑھتی گئی تو نتائج کا فیصد کیا ہوگا اس کا اندازہ کرلیا جاسکتا ہے۔ مگر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی سیاسی صلاحیتوں اور انتخابی حکمت عملیوں کے واقف کاروں کو یقین ہے کہ ٹی آر ایس کو بلدی انتخابات میں کم از کم 70 تا 80 ڈیویژنوں میں کامیابی ملے گی۔ انتخابات میں کامیابی کیلئے چند ہزار ووٹوں کا تناسب ہی کافی ہوتا ہے کسی بھی پارٹی کے حق میں یہ چند ہزار ووٹ ہی فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں اس لئے ٹی آر ایس صدر اور چیف منسٹر کے سی آر نے ووٹوں کا فیصد بڑھانے کیلئے انتخابی مہم میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ پارٹی کے ووٹ بینک کو مضبوط بنانے کیلئے ہر وارڈ میں ٹی آر ایس لیڈروں کو سرگرم رکھا گیا ہے کئی حلقوں میں آزاد امیدوار اور باغی امیدواروں کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود اصل پارٹی کے امیدواروں کو اپنی کامیابی کا یقین ہے۔ انتخابات میں جتنے امیدوار میدان میں ہیں کئی امیدواروں کو سیاست میراث میں ملی ہے لیکن جب حلقوں کی حد بندی اور خواتین کے لئے نشستیں مختص کردی گئیں تو انتخابات میں موروثی سیاست پر ازدواجی سیاست نے جگہ بنالی ہے۔ اس ازدواجی سیاست کا فائدہ کچھ پارٹیوں کو ضرور ہوگا۔ موروثی سیاست کے قائدین جیسے کے کویتا، ہریش راؤ، کے ٹی راما راؤ نے بلدی انتخابات کی مہم کا رنگ تبدیل کردیا ہے۔

یہ لوگ اپنی حکومت کی طاقت اور چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی فلاحی اسکیمات کو عوام کے سامنے پیش کرکے ووٹ لینے میں کامیاب ہوں گے۔ چیف منسٹر نے ازخود انتخابی مہم میں اپنی حکومت کی پالیسیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ حکومت کی کئی اسکیمات میں سے ڈبل بیڈروم کے فلیٹس کی تقسیم کی اسکیم بھی حیدرآبادی عوام کے لئے پرُکشش بن گئی ہے۔ چیف منسٹر نے عوام کو یہ بھی تیقن دیا کہ شہر حیدرآباد میں مقیم غریب شہریوں کو ان کے آبائی وطن کا امتیاز کئے بغیر ہی انہیں دو بیڈ روم فلیٹس الاٹ کئے جائیں گے۔ شہر کی قیمتی اراضی پر اگر حکومت کی جانب سے فلیٹ ملتا ہے تو یہ ہر کسی کے لئے دلچسپی اور آرزو کی بات ہوگی۔ٹی آر ایس حکومت کو اس بات کی فکر نہیں کہ مرکز نے ملک کے 20شہروں کو اسمارٹ سٹیز بنانے کی فہرست تیار کی ہے جس میں تلنگانہ کا کوئی شہر شامل ہیں کیا گیا ، ٹی آر ایس آگے چل کر کوئی قدم اٹھائے گی۔ فی الحال شہر کے مئیر کا عہدہ ٹی آر ایس کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ ایک حکمراں پارٹی کو اگر میئر کا عہدہ حاصل نہیں ہوتا ہے تو پھر حیدرآباد میں اس کے وجود کا ماتم ہوگا۔ گزشتہ 20ماہ سے حکومت کرنے والی ٹی آر ایس کے وعدوں پر بھروسہ اس لئے بھی کیا جارہا ہے کہ اس نے بعض اسکیمات کو یقینی طور پر روبہ عمل لایا ہے۔ حکومت نے مختلف بہبودی پروگراموں میں 40,000 کروڑ روپئے خرچ کئے ہیں۔ سماج کے غریب افراد کو اس کا راست فائدہ ہوا ہے۔ اب حیدرآباد کی تیز تر ترقی کے لئے بریکس لنک سے 25000کروڑ روپئے حاصل کرنے کا بھی منصوبہ ہے۔

بلا شبہ شہریوں کو اچھی سڑکیں، بہتر ٹریفک نظام، زیادہ سے زیادہ بس اسٹیشنس، ریلوے اسٹیشنس، پارکس، 500 پبلک ٹائیلٹس، 200 مارکٹس اور صاف صفائی کا خاص انتظام ملتا ہے تو شہر کی ترقی یقینی کہی جائے گی۔ مگر 5فبروری کو نتائج ٹی آر ایس پارٹی کے توقع کے مطابق ہوں گے تو پھر میئر بھی ٹی آر ایس کا ہوگا۔ اس دن سے جوش اور ولولہ کے ساتھ پارٹی قائدین اپنے منصوبوں کی نشاندہی کے ساتھ گھروں کو واپس ہوں گے۔ اگر ٹی آر ایس کے حق میں توقع کے مطابق ووٹ نہیں ملے تو پھر پرانے شہر سے لیکر نئے شہر تک وہی پرانی کہانی دہرائی جائے گی۔ عوام کا حال اور مستقبل درست کرنے کی فکر صحیح ہمیشہ کی طرح معلق رہے گی۔ اب تک شہریوں کو منافقت کی سیاست اور قیادت نے بہت مایوس کیا تھا مگر یہ ایک ایسا سکہ رائج الوقت ہے جو برسوں سے چل رہا ہے۔
kbaig92@gmail.com