مجروح سلطانپوری شخصیت اور شاعری

ڈاکٹر امیر علی
مجروح سلطانپوری کا شمار صف اول کے ترقی پسند شاعروں میں ہوتا ہے ۔ ان کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ غزل جیسی روایتی صنف سخن میں انہوںنے ایک دلکش اور منفرد اسلوب کی بنیاد ڈالی۔ مجروحؔ نے تقریباً (55) سال تک اردو شعر و ادب کی گراں قدر خدماتانجام دی ہے جو قابل قدر کارنامہ ہے۔ مجروحؔ بنیادی طور پر غزل کے مشہور شاعر ہیں، غزل ان کی محبوب صنف سخن تھی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا شعری مجموعہ’’غزل‘‘ بہت مختصر ہے لیکن ساراکلام انتخاب معلوم ہوتا ہے جس میں خودان کے حسن انتخاب کو بڑا دخل ہے ۔ فلمی دنیا میں مجروح سلطانپوری کی آمد بڑے ہی شاندار طریقے سے ہوئی اور وہ ایک کامیاب شاعر ،ادیب اورایک نیک دل انسان کی حیثیت سے ہمیشہ سربلند ہے۔ مجروحؔ کا سب سے بڑا اور اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوںنے فلمی نغموں میںادبی اقدار کو اہمیت دی ۔ اس کے علاوہ انہوں نے غزل کو ارتقاء کی نئی منزلوں سے روشناس کروایا ہے اور مجروح نے جدید غزل کو تمکنت اور وقار بخشا اوراُن کے اشعار آج بھی ہر خاص و عام کی زبان پر ہے اور ان کے اشعار ضرب المثل اور یادگار بن گئے ہیں۔
یہ ذرا دور پہ منزل ، یہ اُجالا ، یہ سکوں
خواب کو دیکھ ، ابھی خواب کی تعبیر نہ دیکھ
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن ، جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
مجروح کی شہرت جتنی فلمی دنیا میں تھی اتنی ہی شہرت حیدرآباد میں تھی۔ مجروحؔ کی شخصیت اور شاعری سے متاثر ہوکر مخدوم محی الدین صاحب نے ان الفاظ میں داد دی تھی اور کہا تھا کہ ’’جب کوئی شاعر اچھا شعر کہتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرا شعر ہے‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مشرق کی نمائندگی آج دنیا بھر میں غزل ہی کر رہی ہے، خواہ وہ غزل گائیکی ہی کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو ۔ جن شعراء نے جدید غزل کو اس لائق بنایا ہے ، ان میں مجروح کا نام ہمیشہ توقیر سے لیا جائے گا ۔ مجروحؔ نے اپنے جذبات ، احساسات اور دلی کیفیات کو کلاسکی غزل کے رچے ہوئے انداز میں پیش کیا ہے جس کا جواب نہیں۔ چنانچہ مجروحؔ فرماتے ہیں۔

میںاکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
دہر میں مجروحؔ کوئی جاوداں مضمون کہاں
میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا
مجروحؔ سلطانپوری کا اصل نام اسرار حسن خان ہے۔ والد محمد حسین خان پہلے انگریزی فوج میں ملازم تھے اور بعد میں سارجنٹ کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے ۔ مجروح کا آبائی وطن ضلع سطان پور (یو پی) ہے ، اور وہاں اُن کے آبا و اجداد کی چھوٹی سی زمین داری بھی تھی اور بڑے آرام سے گزر بسر ہوجاتی تھی ۔ والد بہ سلسلۂ ملازمت قصبہ نظام آباد (ضلع اعظم گڑھ) میں قیام پذیر تھے۔ مجروحؔ وہیں عیدالفطر کے دن بروز جمعہ 13 اگست 1915 ء کو پیدا ہوئے ۔ مجروح کی ابتدائی تعلیم اعظم گڑھ میں ہوئی ۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے ٹانڈہ (ضلع فیض آباد) یو پی گئے اور انہوں نے مدرسہ کنزالعلوم میں داخل ہوگئے اور وہاں پر انہوں نے صرف و نحو ، فقہ ، حدیث اور تفسیر کا درس لیتے رہے لیکن نصاب کی تکمیل سے قبل ہی الہ آباد یونیورسٹی کے امتحانوں میں مولوی ، عالم اور مولوی فاضل کی خانگی طور پر تیاری کی اور دونوں ہی امتحانوں میں کامیاب ہوئے ۔ 1936 ء میں لکھنو جاکر تکمیل الطب کالج میں داخلہ لیا اور 1939 ء میں (طب) کی سند ابھی حاصل کی اور پھر قصبہ ٹانڈہ (ضلع فیض آباد) چلے گئے اور وہاں پر اپنا ذاتی مطب قائم کیا اور اسی سال اپنے آبائی وطن سلطان پور واپس آگئے اور یہاں اپنا مطب قائم کیا اور پریکٹس شروع کردی ۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور اس زمانے میں مجروح کو شعر و شاعری کا چسکا لگ گیا ۔ مجروح نے 1940 ء میں پہلی بار اپنی غزل سلطان پور کے مشاعرے میں سنائی تھی جس کو لوگوں نے بہت پسند کیا اور خوب داد ملی جس کا مطلع یہ تھا ۔

چشم تر ، لب خشک ، آہ و زاریاں
رنگ پرہیں ان کی فتنہ کاریاں
دوست احباب نے مجروحؔ کی ہمت بڑھائی اور مشورہ دیا کہ وہ شعر و شاعری کے شغف کو بھی جاری رکھیں۔ اُس زمانے میں ہر طرف مشاعروں کی دھوم تھی اور خود سلطان پور میں ہر ہفتہ کوئی نہ کوئی ادبی مشاعرہ منعقد ہوا کرتا تھا ۔ ملک کے نامی گرامی شعراء ان ادبی مشاعروں میں شرکت کرتے اور اپنا کلام سناتے تھے ۔ مجروح کو بھی ان مشاعروں میں شرکت کا موقع ملتا گیا اور ان کے نام اور کام سے لوگ واقف ہوگئے تھے اور ان کی شہرت ملک کے دوسرے مقامات تک پھیل گئی ۔ چنانچہ شعر و شاعری کے اس شغف نے مجروحؔ کو پیشہ طب سے ہمیشہ کے لئے دور کردیا اور وہ ڈاکٹر سے شاعر بن گئے اور پھر فلمی دنیا کے مشہور گیت کار بھی بن گئے ۔ قدرت بھی اپنے خزانے یوں ہی ن ہیں لٹاتی۔ سچی محنت اور لگن سے کام کرنے والوں کو ہی قدرت کے خزانے ہاتھ آتے ہیں۔ مجروح کو زندگی میں ہی عزت ، شہرت ، دولت اور نیک نامی نصیب ہوئی ۔ مجروح وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے غزل کی صنف کو ترقی پسندانہ نظریہ ادب کے مطابق سیاسی اور سماجی مسائل کے اظہار کا ذریعہ بنایا اور خود بھی اس پر قائم رہے۔ مجروحؔ کا نام اردو شاعری میں غزل کے احیاء کے باعث ہمیشہ زندہ رہے گا ۔ اردو غزل کے دور جدید میں جب غزل گوئی کے تمام رسالیں ختم ہوتے نظر آرہے تھے اور متاخرین کے ہاتھوں میں غزل بے جان سی ہوچکی تھی تو مجروح نے اس کے جسد بے جان میں ایک نئی روح پھونکی اور اسے زندگی سے زیادہ قریب کردیا ہے۔

مجروح سلطانپوری نے اپنی ابتدائی غزلوں اور نظموں پر مولانا آس لکھنوی سے اصلاح لی تھی۔ مگر یہ سلسلہ دراز نہ ہوسکا اور 1941 ء کے بعد مجر وحؔ اپنے کلام پر کسی سے اصلاح نہیں لی ۔ جون پور کے مشاعرے میں ان کی ملاقات اُس دور کے مشہور شاعر جگر مرادآبادی سے ہوئی ۔ یہ 1941 ء کی بات ہے ۔ جگر صاحب کو مجروحؔ کا کلام بہت پسند آیا اور خوب داد دی ۔ یہ وہ دور تھا جبکہ ملک کے کونے کونے میں جگر صاحب کے کلام کی دھوم تھی اوران کے نام ملک کے مختلف مقامات سے مشاعروں میں شرکت کی دعوت آتی تھی ۔ چنانچہ یہ بات مشہور تھی کہ ان دنوں ان کا بستر نہیں کھلتا تھا یعنی فوراً مقام سے دوسرے مقام کو روانہ ہوجایا کرتے تھے ۔ جگر صاحب کی فرمائش پر مجروح ان کے ساتھ مشاعروں میں دوچار مہینے ساتھ رہے ۔ جگر صاحب کی فیض تربیت سے مجروح نے بہت کچھ سیکھا ۔ انہوں نے مجروح کے کلام پر اصلاح نہ دی مگر اس کے باوجود مجروح جگر صاحب کو استاد سے بڑھ کر مانتے تھے اور ان کی دل سے عزت کرتے تھے ۔ جگر صاحب ا کثر یہ کہا کرتے تھے کہ ’’میاں جیسے انسان بنو گے ویسے ہی شاعر بنوگے‘‘۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مجروحؔ نے جگر صاحب کی کہی ہوئی بات اپنی گرہ میں باندھ لی تھی جو ہمیشہ ان کے پیش نظر رہی ۔ مجروح جب علی گڑھ گئے تو ان کی ملاقات پروفیسر رشید احمد صدیقی سے ہوئی جو علی گڑھ یونیورسٹی کے نامور ہستی تھے ۔ صدیقی صاحب مجروحؔ کی شخصیت اور شاعری سے کافی متاثر ہوئے اور دو سال تک مجروحؔ کو اپنے ہی پاس مہمان رکھا ۔ اسی دوران ملک کے نامی گرامی شخصیتوں سے مجروحؔ کی ملاقات ہوئی جن میں ڈاکٹر ذاکر حسین ، مولانا مسرت موہانی ، ڈاکٹر عابد حسین اور پروفیسر محمد مجیب قابل ذکر ہیں۔ صدیقی صاحب کی خاموش تربیت اور علی گڑھ کی نامور ادبی شخصیتوں سے میل جول اور مشوروں نے مجروح کی شخصیت اور شاعری کو خوب نکھارا اور مجر وح ایک کامیاب شاعر ، ادیب اور مشہور نغمہ نگار بن گئے ۔ مجروح 1945 ء میں ایک مشاعرے میں شرکت کی ، غرض سے بمبئی گئے اور وہاں ان کی ملاقات جگر صاحب سے ہوئی ۔اُس مشاعرے میں مشہور فلم ڈائرکٹر عبدالرشید کاردار صاحب بھی شریک تھے ، انہوں نے اپنی فلم ’’شاہجہاں ‘‘ کے گیت لکھنے کی جگر صاحب سے فرمائش کی مگر جگر صاحب نے معذرت چاہی اور مجروح صاحب کو پیش کر  دیا۔ جگر صاحب کے اصرار پرمجروح فلم کے گیت لکھنے پر راضی ہوگئے اور یہی ان کا مستقل ذریعہ معاش بن گیا اور وہ ہمیشہ کیلئے بمبئی آگے اور یہیں کے ہوگئے۔ مجروح سلطانپوری کا شمار فلمی دنیا کے کامیاب اور مشہور نغمہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے ابتداء ہی سے بے شمار کامیاب گیت دیئے ۔ فلمی نغموں میں ادبی معیار کو مجروح نے بڑے ہی موثر انداز سے پیش کیا اور ان کو ادبی رنگ دینے اور انہیں مقبول عام بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے جو ایک ناقابل فراموش کارنامہ ہے ۔ ان کی پہلی کامیاب فلم ’’شاہجہاں‘‘ کا وہ مشہور نغمہ جسے مجروح صاحب نے لکھا تھا جس کو اس دور کے نامور گائک کے ایل سہگل صاحبن نے اپنی جادو بھری آواز میں گایا تھا اور اس کی موسیقی نوشاد علی صاحب نے ترتیب دی تھی ۔ فلم کے سبھی نغمے بے حد پسند کئے گئے لیکن کے ایل سہگل صاحب کا گایا ہوا وہ نغمہ بہت مشہور ہوا ۔ آج بھی شائقین سن کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ نغمے کے بول اس طرح ہیں۔

غم دیئے مستقل ، کتنا نازک ہے دل
یہ نہ جانا
ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ
فلم ’’دوستی‘‘ کا وہ مشہور و معروف نغمہ جسے مجروح صاحب نے لکھا تھا جو کافی مقبول ہوا ۔ اس گیت کو محمد رفیع صاحب مرحوم نے اپنی سحر انگیز آواز میں گایا تھا جس کو لوگوں نے بے حد پسند کیا ۔ نغمے کے بول اس طرح ہیں ۔

راہی منوا دکھ کی چنتا کیوں ستاتی ہے
دکھ تو اپنا ساتھی ہے
مجروح صاحب کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے فلم ’’انداز‘‘ کے نغموں میں اردو الفاظ کی شیرینی اور لطافت کوا یک الگ انداز سے پیش کیا ہے جس کا جواب نہیں۔ اس فلم کے سبھی گیت بے حد مقبول ہوئے۔ مجروح صاحب نے اپنی فلمی زندگی کے ابتدائی دور سے ہی بے شمار کامیاب نغمے دیئے اور پیچھے مڑ کر کبھی نہیں دیکھا ۔ انہوں نے اپنے خون جگر سے اپنے کلام کو سینچا ہے جس کو ادب کا مورخ ان کی گراں قدر ادبی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ مجروح صاحب نے اپنی (55) سالہ فلمی زندگی میں  (350) سے زائد فلموں کے لئے تقریباً (2225) کامیاب نغمے دیئے ہے ں۔ فلمی گیت کار کی حیثیت سے ان کی شاندار خدمات پر انہیں باوقار ’’دادا صاحب پھالکے ‘‘ایوارڈ اور اردو ادب کی خدمات کے صلے میں انہیں گراں قدر ’’اقبال سنسمان‘‘ ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ شاعری میں مجروح صاحب کا مجموعہ کلام ’’غزل‘‘ کے نام سے پہلی بار 1952 ء میں شائع ہوا ہے۔ یہ مجموعہ ان کے دوسرے دور کے آخری حصے اور تیسرے دور کی یادگار ہے ۔ ڈسمبر 1982 ء تک اس کے چھ (6) ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ مجروح صاحب کی شاعری میں کلاسیکی اور ترقی پسندی کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ ان کی غزلوں میں کلا سے کی غزل کی تمکنت اور آہنگ کی سربلندی پائی جاتی ہے۔ ان کے اشعار عصری حیثیت کے رازداں معلوم ہوئے ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہوں ؎

کب تک ملوں جبیں سے اب اس سنگِ درگو میں
ائے بے کسی ! سنبھال ، اٹھاتا ہوں سر کو میں
ساقی وہ جام تیز عطا ہو مجھے کہ آج
حل کر کے پی لوں گردش شام و سحر کو میں
کتنی فسوں طرآز ہے صیاد کی نظر
آکر قفس میں بھول گیا بال و پر کو میں
مجروح اب نہیں ہے کسی کا بھئی انتظار
اب کیا کروں گا لے کے دعا میں اثر کو میں
مجروح سلطانپوری کی شادی 1948 ء میں ہوئی ۔ ان کی بیوی کا نام فردوس گل ہے جو لکھنو کے متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ مجروح کو ان سے پانچ اولادیں ہوئی جن میں تین لڑکیاں اور دو لڑکیاں شامل ہیں۔ غرض مجروحؔ کے ہاں اشتراکت کوئی فارمولا یا وقت گزاری کا مشغلہ نہیں ہے ۔ سوشلزم کے تحت فروغ پانے والے سماجی و سیاسی اقدار ، اخلاقیات اور ثقافت کے تقدس اور احترام کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ اس تصور کی بنیادگزاری کا فریضہ انجام دیا اور زندگی کے آخری لمحات تک اس کی آبیاری کرتے رہے۔ ادب اور شاعری کے فروغ میں بھی مجروح صاحب نے گراں بہا خدمات انجام دیں اور ان کی خدمات کی بدولت ان کا نام ہمیشہ توقیر سے لیا جائے گا ۔ مجروح صاحب کے دوست احباب کا حلقہ بہت وسیع تھا ۔ وہ ایک کامیاب شاعر اور گیت کار کے علاوہ نیک دل ، ہمدرد اور شریف انسان تھے ۔ آخر 24 ، 25 مئی 2000 ء کی درمیانی شب مجروح صاحب انے اپنی جان ، جانِ آفرین کے سپرد کردی ۔ اس طرح اردو زبان و ادب کی یہ شمع سلطان پور (یو پی ) میں روشن ہوئی ۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا