مجتبیٰ حسین بحیثیت مزاحیہ خاکہ نگار

تبصرہ
کتاب     :     مجتبیٰ حسین بحیثیت مزاحیہ خاکہ نگار
مصنف     :     ارشاد آفاقی
تبصرہ نگار     :     سید امتیاز الدین
ویسے تو مجتبیٰ حسین کی تحریریں امریکہ ، برطانیہ ، یوروپ کے دیگر ممالک پاکستان ، جاپان ، مشرق وسطی اور نہ جانے کہاں کہاں شوق سے پڑھی جاتی ہیں لیکن ہم ہندوستانی جب کسی چیز کی شہرت کا حوالہ دینا چاہتے ہیں تو کشمیر سے کنیا کماری تک کا ذکر ضرور کرتے ہیں ۔ یہ بات اس لئے ہمارے ذہن میں آئی کہ اس وقت ہمارے سامنے کشمیر کے ایک اہل قلم ارشاد آفاقی کی کتاب ’’مجتبیٰ حسین بحیثیت مزاحیہ خاکہ نگار‘‘ رکھی ہوئی ہے۔ اب تک مجتبیٰ حسین کے فن پر کم و بیش ایک درجن اسکالرس پی ایچ ڈی اور ایم فل کرچکے ہیں اور بارہ کتابیں ان کی شخصیت اور فن پر شائع ہوچکی ہیں ۔ کئی مشہور نقادوں ، شاعروں اور ادیبوں نے ان پر مضامین لکھے ہیں جن کا شمار کرنا مشکل ہے ۔ ابھی حال میں روزنامہ سیاست حیدرآباد کی جانب سے ایک نہایت مبسوط ویب سائٹ ساری دنیا کے لئے پیش ہوچکی ہے جو اتنی طویل ہے کہ اسے مجتبیٰ حسین کا ادبی اعمالنامہ کہا جائے تو بجا ہوگا ۔
ایک عرصہ تک ہم اس خوش فہمی میں تھے کہ ہم بھی مجتبیٰ حسین کے جاننے والوں میں ہیں لیکن جب ہم نے مختلف اسکالرس کے پی ایچ ڈی کے مقالے پڑھے تو محسوس ہوا کہ ہر مقالہ نگار نے مجتبیٰ حسین کے فن اور شخصیت کااتنا گہرا جائزہ لیا ہے کہ بالکل نئے گوشے جو اب تک ہماری نظروں سے پوشیدہ تھے ، کھل کر سامنے آگئے ۔ مجتبیٰ حسین طنز و مزاح نگار ہیں ، کالم نگار ہیں ، خاکہ نگار ہیں ، سفر نامہ نگار ہیں ۔ انھوں نے بے شمار کتابوں کی رسم اجراء کے موقع پر شگفتہ تبصرے بھی پڑھے ہیں ۔ اگر ان پر تحقیق کرنے والا ان کی تحریر کے تمام گوشوں کو سمیٹنا چاہے تو شاید وہ اس ہمہ جہت شخصیت کا پورا احاطہ نہ کرسکے گا ۔ ارشاد آفاقی نے بڑی دانش مندی سے کام لیا کہ اپنے لئے مجتبیٰ حسین بہ حیثیت مزاحیہ خاکہ نگار کا موضوع چنا اور اس کے ساتھ کماحقہ انصاف کیا ۔ کتاب کے شروع میں مجتبیٰ شناسی ، مزاح مجتبیٰ اور مرید مجتبیٰ کے زیر عنوان شاہد حنائی اور الطاف انجم کے شگفتہ ابتدایئے ہیں ۔ ارشاد آفاقی کی پیش گفتار اور ایاز نازکی کے پیش لفظ سے کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں معلومات ملتی ہیں ۔
ایک ماہر محقق کی طرح ارشاد آفاقی نے پہلا باب ہنسی کی تعریف اور اہمیت کے لئے وقف کیا ہے ۔ ہم نے یہی ایک باب عمداً نہیں پڑھا کیونکہ ہم بچپن سے موقع بے موقع ہنستے چلے آرہے ہیں ۔ ہنسی ہمارے لئے محتاج تعارف نہیں ہے ۔ ہم کو اس موقع پر ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو ہم نے کہیں پڑھا تھا ۔ سنا ہے کہ ایک بار حکیم اجمل خاں نے اکبر الہ آبادی کو آموں کا ایک ٹوکرا روانہ کیا اور اس کے ساتھ ہی ایک خط بھی بھیجا ۔ اکبر الہ آبادی کو آم کھانے کی اتنی جلدی تھی کہ انھوں نے خط پڑھے بغیر آم کھانا شروع کردیئے ۔ اکبر کے کوئی شناسا وہیں بیٹھے تھے انھوں نے کہا ’’آپ  نے حکیم اجمل خاں کا خط پڑھا ہی نہیں‘‘ ۔ اکبر الہ آبادی نے آم کا مزہ لیتے ہوئے جواب دیا ’’حکیم صاحب نے پرچۂ ترکیب استعمال بھیجا ہوگا جس کی مجھے ضرورت نہیں ہے‘‘ ۔ ہم کو بھی ارشاد آفاقی کی کتاب پڑھنے کی اتنی عجلت تھی کہ ہم نے ہنسی کی تعریف اور اہمیت کے بارے میں پڑھنا ضروری نہیں سمجھا اور سیدھے اصل موضوع کی طرف رجوع ہوگئے۔ارشاد آفاقی نے طنز و مزاح کے بارے میں بھی کافی محنت سے کئی ناقدین ، فلسفیوں اور محققین کے مقولے نقل کئے ہیں ، جو کافی معلومات افزا ہیں ۔
’اردو میں طنز و مزاح کی روایت‘ اس کتاب کا ایک اہم باب ہے ۔ اس کتاب میں مصنف نے جعفر زٹلی سے لے کر سودا ، مصحفی  ، انشاء، رنگین چرکین اور بہت سے قدیم طنز و مزاح نگاروں کا ذکر کیا ہے لیکن مصنف نے اپنی ذاتی رائے کے علاوہ معتبر نقادوں کے اقتباسات سے یہ ثابت کیا ہے کہ ابتدائی طنز و مزاح نگاروں کی بعض تحریریں (نظم و نثر دونوں) فحش اور مبتذل اور مضامین کے پڑھنے سے اس دور کی معاشی پستی اور بعض سماجی رجحانات کا بھی پتہ چلتا ہے  ۔ اس میدان میں سب سے زیادہ قدآور شخصیت غالب کی ہے جس کی شاعری میں بھی طنز و مزاح کی ایک زیریں لہر دیکھنے کو ملتی ہے اور ساتھ ہی اس کے خطوط اپنی شگفتگی اور معنی آفرینی میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ اسی باب میں آفاقی نے اودھ پنچ اور کئی دوسرے اخباروں کا حوالہ دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی رشید احمد صدیقی ، پطرس اور شوکت تھانوی سے مشتاق احمد یوسفی اور عہد حاضر کے بہت سے طنز و مزاح نگاروں کے فن پر رائے زنی کی ہے ۔ اس طرح مجتبیٰ حسین کی ہمہ رنگ نگارشات کا تجزیہ کرنے میں مصنف کو سہولت ہوئی اور کتاب کے قاری کو مجتبیٰ حسین کے مقام و محل کا تعین کرنے اور ان کی انفرادیت تسلیم کرنے میں بھی نشاط انگیز کیفیت کا احساس ہوتا ہے ۔
مجتبیٰ حسین کے سوانحی حالات کے لئے ایک باب وقف ہے ، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یوں تو ادب میں نام کمانے کے لئے فطری صلاحیت بنیادی چیز ہے لیکن گھر کا ادبی ماحول علمی فضا اور خاندانی حالات بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔ مجتبیٰ حسین کے دو بھائی بھی اہل قلم تھے ۔ محبوب حسین جگر کو بابائے صحافت کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا ۔ ابراہیم جلیس نے کم عمری ہی میں اپنے طرز نگارش اور افسانہ نگاری سے نہایت اہم مقام بنالیا تھا ۔ مجتبیٰ حسین کے زمانہ طالب علمی میں معیار اور بہتر تھا ۔ جامعہ عثمانیہ سے اردو کے عروج کا زمانہ رخصت ہورہا تھا لیکن پوری طرح رخصت نہیں ہوا تھا ۔ خود مجتبیٰ حسین نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے ہی انقلاب زمانہ کے ایسے مناظر دیکھ لئے تھے جن کے سبب بالغ نظری ان میں وقت سے کچھ پہلے آگئی تھی ۔ مجتبیٰ حسین کی ابتدائی زندگی سے لے کر ان کی شادی ، ملازمت ، دہلی کا قیام ، ان کے اسفار ، اعزازات اور تصانیف کو مختصر مگر جامعیت کے ساتھ صرف 48 صفحات میں سمودینا ارشاد آفاقی کا کمال ہے ۔
کتاب کی اصل کلید اس کا آخری باب ’’مجتبیٰ حسین بحیثیت مزاحیہ خاکہ نگار‘‘ ہے جس میں آفاقی نے مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری کے تذکرے سے پہلے مرزا فرحت اللہ بیگ ، مولوی عبدالحق ، رشید احمد صدیقی ، عصمت چغتائی ، سعادت حسن منٹو وغیرہ کی خاکہ نگاری کا جائزہ لیا ہے ۔ خاکہ نگاری کے فن کے بارے میں کئی اہل قلم کے حوالے دئے ہیں ۔ مجتبیٰ حسین کے پہلے خاکے کے بارے میں جو حکیم یوسف حسین کی کتاب خواب زلیخا کی رسم اجرا پر لکھا گیا تھا ، آفاقی نے بالکل صحیح بات لکھی ہے کہ گو مجتبیٰ حسین نے یہ خاکہ حکیم یوسف حسین کے اصرار پر لکھا تھا لیکن اس میں آورد کی کیفیت نہیں بلکہ خاکہ نگاری کی روایت کا بھرپور تسلسل موجود ہے ۔ ارشاد آفاقی نے مجتبیٰ حسین کے تقریباً ہر خاکے میں اپنی پسند کا ٹکڑا نکالا ہے جو بہت موزوں ہے اور اس سے خاکہ نگار کی حس مزاح اور شگفتہ بیانی کا نہ صرف اندازہ ہوتا ہے بلکہ پورا خاکہ پڑھنے کو بے ساختہ جی چاہتا ہے ۔ قصہ مختصر ارشاد آفاقی نے اپنا کینوس مختصر رکھا ہے جس سے ان کی وسعت نظر کھل کر سامنے آئی ہے ۔ کتاب کا گٹ اپ عمدہ ہے ۔ قیمت 390 روپے رکھی ہے ۔ کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کے اہتمام سے شائع ہوئی ہے ۔