متفرق مسائل

سوال :    (1(الف) مرحوم کے نماز اور روزوں کے فدیہ کے احکام مفصل بیان فرمائیں۔
(ب) منکرین شب معراج ، شب قدر ، شب برأت اور منکرین معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم و ایصال ثواب کی شرعی وضاحت فرمائیں۔
(2 (الف)  والد صاحب مرحوم کی متروکہ جائیداد میں سے کیا والدہ محترمہ کو چوتھائی حصہ دینا چاہئے ؟
(ب) چوتھائی حصہ سے کیا مراد ہے ؟
(ج) ایک لاکھ روپئے میں سے والدہ محترمہ کو، چھ بیٹے اور دو بیٹیوں کو کتنے روپئے حصہ آئے گا ؟
(3  (الف) ہمارے بھوکر میں حضرت محمود شاہؒ کا سینکڑوں سالوں سے 6 شعبان کو عرس منایا جاتا ہے ۔ 6 شعبان کی رات میلاد پڑھا جاتا ہے اور 6 شعبان کی صبح کھانے کی عام دعوت کی جاتی ہے ۔ یہ کھانا شہر میں چندہ کر کے پکایا جاتا ہے، جس میں کوئی ایصال ثواب کی نیت سے تو کوئی صدقہ و خیرات کی نیت سے تو کوئی زکوٰۃ کا روپئے دیتے ہیں ۔ (۱) کیا عرس منانا اور میلاد پڑھنا جائز و درست ہے ؟ (۲) درج بالا مذکورہ کھانا کھانا تمام مسلمانوں کو کیا درست و جائز ہے ؟
(4 غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا اور غیر اللہ کے نام پر جانوروں کا چھوڑنا شرک ہے۔ (۱) پیرانِ پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ و دیگر اولیاء کرام کی نیاز کے لئے ایک ماہ 15 دن ، 10 دن ، 4 دن قبل جانور بزرگان دین کے نام پر خریدکر رکھا جاتا ہے ۔ اس تعلق سے شرعی احکام کیا ہیں ؟  (۲) بزرگان دین کی نیاز کی جائے تو کن شرطوں اور نیت کو ملحوظ رکھنی چاہئے یعنی ان کی پابندی کرنی چاہئے ۔
محمد عبدالعزیز، ناندیڑ
جواب :   (1  شرعاً مرحوم کی فوت شدہ نمازوں میں سے ہر ایک فرض نماز و وتر اور ہر روزہ کے بدلے نصف صاع گہیوں جو صدقہ فطر (سواکینو) کی مقدار ہے ، صدقہ کیا جائے ۔ میت اگر مالدار نہیں ہے تو اس کے وارث کو چاہئے نصف صاع گہیوں ایک نماز یا ایک روزہ کے معاوضہ میں فقیر کو دے۔ پھر فقیر اس گہیوں کو وارث کو دیدے اور یہ وارث اس گہیوں کو دوسری نماز یا روزہ کے معاوضہ میں فقیر کو دے تمام نماز اور تمام روزے ختم ہونے تک ہر ایک کے لئے فقیر کو دینا اور فقیر سے واپس لینا چاہئے۔ شرعاً یہ طریقہ میت کی طرف سے نماز و روزہ کے اسقاط کا ہے۔
(2 یہ راتیں قرآن و حدیث سے ثابت ہیں، ان راتوں میں عبادت کے منکرین ہوں گے ورنہ معراج و قدر کے قرآن سے ثابت ہونے کی وجہ اس کے انکار سے کفر لازم آئے گا۔ ہر شخص کوئی بھی نیک عمل کر کے اس کا ثواب مرحومین و زندہ اصحاب کو ایصال کرسکتا ہے ۔ حدیث شریف کی رو سے اللہ تعالیٰ سب کو برابر ثواب پہنچاتا ہے، تقسیم کر کے نہیں، اس لئے بخالت سے کام نہ لینے کا حکم ہے۔
(3 مرحوم کے ورثہ میں اولاد نہ ہو تو بیوہ کو متروکہ کا 1/4 حصہ ملتا ہے اور اگر اولاد ہو تو بیوہ 1/8 حصہ پائے گی۔ مرحوم کے ورثہ میں بیوہ کے علاوہ اولاد ہونے کی وجہ متروکہ ایک لاکھ روپئے کا آٹھواں حصہ 12500 بارہ ہزار پانچ سو روپئے بیوہ کو دیا جائے ۔ بقیہ (87500) کے چودہ حصے کر کے فی لڑکا کو دو یعنی (12500) اور فی لڑ کی کو ایک (6250) روپئے دئے جائیں۔
(3 (۱) عرس یعنی سالانہ فاتحہ میں میلاد نامہ پڑھنا جائز باعث ثواب ہے۔ (۲) ایصال ثواب کے لئے کھانا کھلانا درست ہے۔ البتہ فقراء و غرباء کو اولیت دینا باعث فضیلت ہے۔ اس کھانے کی تیاری میں صدقہ اور زکوٰۃ کی رقم شامل ہونے کا علم ہو تو مالدار یا صاحب استطاعت نہ کھائیں۔
(4  فرمان الہی : انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر ومااھل لغیراللہ کی بناء ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام لیا جائے تو جانور حرام ہے اور اگر نیت یہ ہو کہ جانور کی جان تو اللہ ہی کے لئے لی جارہی ہے وہی جان کے نثار کئے جانے کا مستحق ہے۔ مگر اس جانور کا گوشت فلاں بزرگ کی نیاز و ایصال ثواب میں صرف کیا جائے گا یا فلاں شخص کی دعوت و ضیافت کی جائے گی ، اس سے ولیمہ ادا ہوگا تو بوقت ذبح اللہ تعالیٰ کا نام لینے کی وجہ ایسا ذبح کیا ہوا جانور شرعاً حلال ہے ۔ اس لحاظ سے حضرت پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ و دیگر اولیاء کرام کی نیاز کے لئے خریدا گیا جانور کو پالکر بوقت ذبح اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے تو جانور کا گوشت حلال ہے ۔

پاؤں میں اسٹیل راڈ کی بناء بیٹھکر نماز پڑھنا
سوال :   میری عمر 62 سال ہے۔ قد 6′-1″ ہے۔ مجھے Accident ہونے کی وجہ سے میرے سیدھے پاؤں میں 12″ کا لمبا اسٹیل راڈ ڈالا ہوا ہے جس کی وجہ سے مجھے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا ہے۔ نماز میں رکعت باندھنے میں میں کرسی پر بیٹھ کر رکعت باندھتا ہوں۔ کچھ میرے دوست اس پر اعتراض کر رہے ہیں۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل بتائیں ؟
محمد شاہد حسین ، پرانی حویلی
جواب :  آپ حالت قیام سے سجدہ میں جانے پر قادر نہ ہوں یا سجدہ زمین پر نہ کرسکتے ہوں تو آپ کو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی شرعاً اجازت ہے ۔ آپ کے دوست احباب کا اعتراض درست نہیں ۔
وقف میں نیت کافی نہیں
سوال :   زید لاولد ہے، اس نے یہ نیت کی تھی کہ اپنی وفات کے بعد اپنی پوری جائیداد مسجد کے لئے وقف کردے گا لیکن اب اس کا یہ ارادہ ہے کہ مستحقین قرابتداروںکو دو حصے دے گا اور ایک حصہ مسجد کے لئے وقف کرے گا۔ ایسی صورت میں شرعاً کیا حکم ہے ؟
نام ندارد
جواب :  وقف میں محض نیت یا ارادہ کافی نہیں، بلکہ زبان سے الفاظ ادا کرنا ضروری ہے۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد  3 ص : 393 میں ہے ۔ (ورکنہ الالفاظ المخصوصۃ ) ارضی ھذۃ (صدقۃ موقوفہ مؤبدۃ علی المساکین و نحوہ) من الألفاظ۔
فتاوی عالمگیری جلد 2 ص : 357 کتاب الوقف میں ہے ۔ اذا قال ارضی ھذہ صدقۃ محررۃ مؤبدۃ حال حیاتی و بعد وفاتی اوقال ھذہ صدقۃ موقوفۃ محبوسۃ مؤبدۃ اوقال حبیسۃ مؤبدۃ حال حیاتی و بعد وفاتی یصیر وقفا جائزا لازماً۔
پس صورت مسئول عنہا میں زید کو اپنی ملک میں ہر قسم کے تصرف کا حق ہے۔ وہ جس طرح چاہے وقف کرسکتا ہے۔

گناہ کے سبب وراثت سے محرومی نہیں ہوتی
سوال :  ایک مسلم خاتون نے 20 سال قبل ایک غیر مسلم سے کورٹ میریج کرلی، اس سے دو بالغ اولاد ہے۔ وہ بھی غیر مسلم ہیں لیکن خاتون نے اپنا مذہب تبدیل نہیں کیا۔ وہ پابندی سے نماز پڑھتی ہے اور روزے بھی رہتی ہے اور اپنا دین اسلام جانتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ خاتون اپنے والدین کی متروکہ جائیداد میں حصہ پائیگی یا نہیں ؟
نام …
جواب :  شرعاً مسلمان عورت کا غیر مسلم شخص سے عقد منعقد ہی نہیں ہوتا اور یہ عمل حرام ہے ۔ ولا یجوز تزوج المسلمۃ من مشرک ولا کتابی کذا فی السراج الوہاج (عالمگیری ج : 1 ص : 282 )
ایک مسلمان عورت اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے گناہ کے کام کرتی ہے تو وہ شرعاً والدین کے متروکہ سے محروم نہیں ہوتی کیونکہ گناہ مانع وراثت نہیں ہے ۔ ہاں اگر وہ دین بدل دے (معاذ اللہ) تو وہ وارث نہیں ہوسکتی۔
شریفیہ شرح سراجیہ کے فصل فی موانع الارث میں ہے (المانع من الارث اربعۃ الرق و افرا کان اوناقصا والقتل الذی یتعلق بہ وجوب القصاص اور الکفارۃ ، واختلاف (الدینین) فلا یرث الکافر من المسلم اجماعا ولا المسلم من الکافر۔
پس صورت مسئول عنھا میں خاتون مذکور السوال اپنے والدین کے متروکہ سے حصہ رسدی پانے کی مستحق ہے۔

طلاق کیلئے بیوی کا روبرو ہونا ضروری نہیں
سوال :   زید نے اپنی زوجہ ہندہ کو بتاریخ 18 اگست 2007 ء تین طلاق تحریراً دے کر طلاقنامہ نوٹری کو دفتر قضاء ت شریعت پناہ بلدہ میں داخل کر کے وہاں سے صداقت نامہ طلاق سہ بارہ حاصل کرلیا لیکن زوجہ کا ادعاء یہ ہے کہ شوہر نے اس کے سامنے طلاق نہیں دی ہے، اس لئے یہ طلاقنامہ بے اثر ہے۔ ایسی صورت میں شرعاً کیا حکم ہے ؟
فاطمہ انجم، ملک پیٹ
جواب :   شرعاً وقوع  طلاق کے لئے بیوی کا نام لینا یا طلاق کی نسبت بیوی کی طرف کرنا کافی ہے ۔ بیوی کا روبرو رہ کر شوہر کی زبان سے طلاق سننا ضروری نہیں ہے ۔ بھجۃ المشتاق لأ حکام الطلاق ص : 15 میں ہے۔ لا بد فی الطلاق من خطا بھا أو الاضافۃ الیھا۔ اور البحرالرائق کے کتاب الطلاق باب الطلاق الصریح میں ہے ۔ و ذکر اسمھا او اضافتھا الیہ کخطابہ کما بینا۔
لہذا صورت مسئول عنہا میں نکہت انجم پر 18 اگست 2003 ء کو تین طلاقیں واقع ہوکر تعلق زوجیت بالکلیہ منقطع ہوگیا ۔ وزوال حل المناکحۃ متی تم ثلاثا کذا فی محیط السرخسی (عالمگیری جلد اول کتاب الطلاق ص : 348 ) اب بغیر حلالہ دونوں آپسمیں دوبارہ نکاح نہیں کرسکتے۔ البتہ مطلقہ بعد ختم عدت کسی دوسرے شخص سے عقد کرسکتی ہے۔ فتاوی عالمگیری جلد اول ص : 473 میں ہے۔ وان کان الطلاق ثلاثا فی الحرۃ و ثنتین فی الأمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ نکاحاً صحیحا و یدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنھا کذا فی الھدایۃ۔

عورت کا ظلم اور زیادتی
سوال :  میری اہلیہ کا ارکان خاندان و اپنی ہی اولاد اور خاوند کے ساتھ بہت ہی سخت اور ظالمانہ رویہ رہتا ہے ۔ خاص طور سے اپنی بہو کے ساتھ اور گھر کی خادماؤںکے ساتھ انتہائی بے رحمانہ اور سخت لہجہ سے مخاطب ہوتے ہیں ۔ ہمیشہ زبان سے بڑے بڑے الفاظ اور گندی قسم کی گالیاں بکتے رہتے ہیں۔ براہ مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں ہدایت فرمایئے تاکہ معاشرہ خراب نہ ہونے پائے۔
خواجہ معین الدین، ٹولی چوکی
جواب :  اسلام میں خوش کلامی و بزم گفتاری کا حکم ہے۔ سخت کلامی و دلآزاری سخت منع ہے۔ اسلام اپنے متبعین کو تلقین کرتا ہے کہ وہ بڑوں سے ادب و ا حترام ، تعظیم و توقیر سے پیش آئیں اور چھوٹوں سے پیار و محبت اور شفقت کا برتاؤ کر یں اور مسلمان یہی ہے کہ اس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (بخاری) اس لئے مذکور السؤال خاتون کو اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور اپنی طرز گفتگو میں تبدیلی لاتے ہوئے شیریں کلامی کو اختیار کریں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک خاتون کا ذکر کیا گیا کہ وہ عبادت گزار تو ہے لیکن اپنی زبان سے دوسروں کو تکلیف پہنچاتی ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جہنمی ہے۔ اسی طرح ایک حدیث شریف میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ نے جب جنت کو پیدا فرمایا تو جنت نے عرض کیا : پروردگار ! مجھے تقویت عطا فرما تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حسنِ اخلاق اور سخاوت کو پیدا کیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دوزخ کو پیدا فرمایا تو دوزخ نے بھی کہا : پروردگار مجھے تقویت عطا فرما تو اللہ تعالیٰ نے بد اخلاقی اور بخالت کو پیدا فرما یا۔ متذکرہ بالا تفصیلات کی روشنی میں واضح ہے کہ سخت کلامی دلآزاری جہنم کی طرف لے جانے والی ہے ۔ اس لئے اس سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ بعض خواتین اپنی برتری کے ا ظہار کے لئے اس طرح کا طریقہ اختیار کرتی ہیں جو شرعاً منع ہے اور سخت مذموم ہے ۔