متفرق مسائل

سوال :  زید کا انتقال ہوا ، ورثاء میں ماں اور ایک بیوی، ایک لڑکا ہے ۔ مرحوم نے اپنی جائیداد سامان کے متعلق وصیت کی کہ وہ لڑکے کو دیا جائے کیا یہ وصیت درست ہے ؟ جبکہ دیگر ورثہ اس سے راضی نہیں۔
(2 مرحوم کی بیوی کے پاس 8 تولے سونا ہے جس میں 4 تولہ سونا  خود مرحوم کا ہے ۔ 4تولہ سونے کا چندن ہار جو مرحوم نے اپنی والدہ کو دیا تھا کسی تقریب میں پہننے کے بہانے بیوی مرحوم کی والدہ سے حاصل کرلیا اور اب واپس نہیں کر رہی ہے؟
(3 مرحوم کا لڑکا ایک سال کا ہے اس کی پرورش کس کے ذمہ ہے ۔ ماں نانا نانی پر ہے یا لڑکے کی دادی اور چچا پر ؟
(4 مرحوم نے اپنی بیوی کو تاکید کی تھی کہ میرے انتقال کے بعد وہ نکاح کرلے۔ لڑکی نکاح کرنا نہیں چاہتی ، شرعاً کیا حکم ہے ؟
(5 بوقت عقد لڑکی کے والدین نے جو بھی سامان جہیز دیا ہے اس پر کس کا حق ہے ؟
عبدالباسط، گڈی ملکاپور
جواب :  صورت مسئول عنہا میں زید کی جائیداد اور سامان کے حسب حکم شرعی بعد تقدیم ما تقدم علی الارث جملہ (24) حصے کر کے ماں کو (4) حصے بیوی کو تین حصے اور لڑکے کو (17) حصے دیئے جائیں ۔ جائیداد و سامان میں  زید کی وصیت وارث کے حق میںدیگر ورثہ کے راضی نہ ہونے کی بناء ناقابل تعمیل ہے۔
(2 مرحوم کی بیوی کے پاس 4 تولے سونے کا چندن ہار بطور عاریت ہے جس کا اس کے مالک (یعنی زید کی والدہ ) کو لوٹا دینا ضروری ہے ۔ مابقی 4 تولے سونا چڑھاوے کے حکم میں ہے جوکہ بیوی کی ملک ہے
(3 مرحوم کا لڑکا 7 سال تک اپنی ماں کے پاس رہے گا۔ ماں اگر دوسری شادی کرلے تو نانی کو حق حاصل ہوگا۔ اس کے بعد چچا کو حق ولایت حاصل ہے ۔
(4 زید کی بیوہ اپنے نکاح کے متعلق مختار ہے۔
(5 زید کی طرف سے اور بیوہ کے والدین کی طرف سے بوقت عقد جو جہیز اور چڑھاوا دیا گیا ہے وہ بیوہ کی ملکیت ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی تاریخ
سوال :   نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد ساری دنیا میں بارہ ربیع الاول کو بڑی تزک و احتشام کے ساتھ منائی جاتی ہے ۔ لیکن بعض حضرات بارہ ربیع الاول کے بجائے دوسری تواریخ کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ قطعی طور پر ولادت نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ کیا ہے وضاحت کے ساتھ بیان فرمائیں تو مہربانی ؟
عیدالودود، کاروان
جواب :  رسول مقبول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت موسم بہار میں دوشنبہ کے دن 12 ربیع الاول سنہ اعام الفیل / (20 اپریل ) 570 ء کو مکہ مکرمہ میں ہوئی ۔ تاریخ انسانیت میں یہ دن سب سے زیادہ با برکت ، سعید اور درخشاں و تابندہ ہے۔
آپؐ کی ولادت کے سلسلے میں یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ اور دوشنبہ کا دن تھا اور وقت بعد از صبح صادق و قبل از طلوع آفتا ب۔ دوشنبہ (پیر) کا دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ حضرت ابن عباسؓ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ کو پیدا ہوئے ۔ دوشنبہ کے دن آپؐ کو نبوت سے سرفراز کیا گیا ۔ دوشنبہ کو مکے سے مدینے کو ہجرت کے لئے نکلے اور دوشنبہ کو آپؐ مدینے میں (شاید قباء مراد ہے جو مضافات مدینہ میں ہے) تشریف فرما ہوئے ۔ دوشنبہ کے دن آپؐ نے دارفانی کو خیر باد کہا اور دوشنبہ کے دن ہی آپؐ نے حجر اسود کو (25 برس کی عمر میں) بیت اللہ میں نصب فرمایا تھا (ابن کثیر : السیرۃ النبویہ ، 198:1 ) ، ایک روایت میں دوشنبہ کے ساتھ 12 ربیع الاول کا بھی ذکر ہے اور ساتھ ہی معراج نبوی کا دن بھی دوشنبہ بتایا گیا ہے (کتاب مذکور ، 199:1 ) ۔ جمہورؒ کے نزدیک ولادت مبارک کی تاریخ قمری حساب سے 12 ربیع الاول ہے، مگر کتب سیرت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے سلسلے میں اور تاریخیں بھی مذکور ہیں۔ (شبلی نعمانی نے  سیرت النبی (171:1 ) میں مصر کے مشہور ہیئت دان محمود پاشا فلکی کی تحقیقات کے پیش نظر 9 ربیع الاول 20 اپریل 571 ء کو ترجیح دی ہے ۔ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری نے اپنی کتاب رحمت للعالمین (40:1 ) میں آپؐ کی پیدائش 9 ربیع الاول ، عام الفیل / 22 اپریل 571 ء / یکم جیٹھ 628 بکرمی قرار دی ہے ۔ اس وقت شاہ ایران نوشیروان کے جلوس تخت کا چالیسواں سال تھا اور اسکندر ذوالقرنین کی تقویم کی رو سے سنہ 882 تھا ۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تحقیق کے مطابق عیسوی تاریخ 17 جون 569 ء تھی دیکھئے Muhammad Rasullah ص : 1 کراچی 1979 ۔ وہی مصنف ، Jurnal of Pak. Historical Society ،  1968 ء کراچی ، 216:16 تا 219 ) ۔

ولد الزنا اور ثبوت نسب
سوال :  زید اپنی بیوی ہونے کے باوجود ایک اور لڑکی سے محبت کرتا تھا ۔ اسی دوران شاید وہ حرام کاری (زناء) کا بھی مرتکب ہوا ہو اور جب دونوں خاندانوں کو اس کی اطلاع ہوئی ہے، آپسی مفاہمت کرلیتے ہوئے زید اور اس لڑکی کی شادی کردی گئی تاکہ مزید زنا کاری کی لعنت سے وہ بچ سکیں ۔ اگر زنا کاری کا حمل اس کی شادی کے بعد واقع ہوا ہو اور اس سے اولاد ہو تو کیا اس اولاد کو وہ ساتھ رکھ سکتا ہے اور اس کو اپنی ولدیت کی گنجائش ہے یا نہیں کیونکہ تقریباً 25 سال تک وہ ا پنے ساتھ رکھ کر اس کی شادی بیاہ کی انجام دہی کے بعد اس اکیلے لڑکے کو گھر سے بیدخل کردیا گیا ۔ شرعی قوانین کی نظر میں ایسے والدین اور اولاد کی کیا حیثیت ہوتی ہے ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں تو عین نوازش ہوگی ؟
مبشر الدین خان، کاروان
جواب :  اگر نکاح سے کامل چھ مہینے بعد بچہ تولد ہو تو اس بچہ کا نسب نکاح کرنے والے سے ثابت ہوگا اور وہ بچہ ولد الحلال سمجھا جائے گا کیونکہ شریعت مطھرہ میں حمل کی اقل مدت چھ مہینے ہے ۔ ممکن ہے کہ قرار حمل نکاح کے بعد ہو اور قبل نکاح جو حمل زنا کا دکھا دیتا تھا وہ محض ہوائی ہو۔ ردالمحتار جلد 3 کتاب النکاح میں ہے : و کذا ثبوتہ مطلق اذا جاء ت بہ لستۃ أشھر من النکاح لاحتمال علوقہ بعد النکاح وان ماقبل العقد کان انتفاخا لا حملا ویحتاط  فی النسب ما امکن
اور اگر نکاح کے بعد چھ مہینے سے کم میں بچہ تولد ہو اور نکاح کرنے والے نے اس کے زنا سے پیدا ہونے کا اقرار کیا ہے تو اس کا نسب نکاح کرنے والے مرد سے ثابت نہ ہوگا کیونکہ شریعت میں زانی کا نسب ولد الزنا سے منقطع کیا گیا ہے اور اگر نکاح کرنے والا شخص اس کو اپنا بچہ ہونا بیان کرے اور اس کا نسب اپنے ساتھ ثابت رکھے تو پھر وہ اس کی اولاد ہوگی اور وہ ولد الحرام نہیں سمجھا جائے گا ۔ اس سے اس کا نسب ثابت ہوگا اور وہ اس کی میراث کا بھی مستحق ہوگا ۔ رد المحتار میں اسی جگہ ہے : فلو لاقل من ستۃ اشھر من وقت النکاح لا یثبت النسب ولا یرث منہ الا ان یقول ھذا الولد منی ولا یقول من الزنا ۔ خانیہ والظاھر أن ھذا من حیث القضاء وامامن حیث الدیانۃ فلا یجوز لہ ان یدعیہ لان الشرع قطع نسبہ منہ فلا یحل لہ استلحاقہ بہ ولذا لوحرم بأنہ من الزنا لا یثبت قضائً ایضاً و انما یثبت لولم یصرح لاحتمال کونہ بعقد سابق اوبشبھۃ حملہ رجال المسلم علی الصلاح ۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں نکاح کرنے والے شخص نے مذکور السوال لڑکے کو اپنالڑکا ہونے کا اقرار کیا ہے ۔ زنا سے ہونا بیان نہیں کیا تو اس کا نسب اس سے ثابت ہوگیا اور وہ اس کی وفات کے بعد وارث بھی ہوگا ۔ ایک مرتبہ اپنا بیٹا اقرار کرنے کے بعد باپ کو انکار کا حق نہیںاور جو نااتفاقی باپ اور بیٹے میںپیدا ہوئی ہے اس کی صلح صفائی کی جائے۔

اجتھادو مجتہد کی تعریف
سوال :  جاننا چاہتا ہوں کہ اجتہاد کیا ہے ۔ اس کے معنی اور مطلب کیا ہے اور اس پر کب اور کیسے عمل کیا جاسکتا ہے ۔ مہربانی فرماکر اجتہاد کے بارے میں مکمل تفصیل، شرعی اعتبار اور احکامات کے مطابق ارشاد فرمائیں تو ممنون رہوں گا ؟
حافظ اکمل عزیز، مراد نگر
جواب :  اجتھاد ، جھد سے ماخوذ ہے جس کے معنی کوشش کرنا ، مشقت اٹھانا ہے۔ اصطلاح میں اجتھاد (حکم شرعی کو معلوم کرنے کے لئے فقیہ کی تابحد امکان کوشش کرنے کا نام اجتھاد ہے ۔ اجتھاد ، قرآن سے ہو یا سنت سے اس کا درجہ قیاس ہے ۔ مجتھد وہ شخص کہلاتا ہے جو قرآن و حدیث سے جدوجہد کر کے ذاتی طور پر حکم شرعی کو متعین کرتا ہے اور مقلد جو کسی مجتھد یا امام کے قول کو دلیل کے بغیر تسلیم کرلیتا ہے ۔
اجتھاد کی بنیاد یہ آیت شریفہ ہے ۔ والذین جاھدوا فینا لنھد ینھم سبلنا ۔ (وہ لوگ جو ہم میں اجتھاد کئے ہم ضرور ان کو ہمارے راستوں کی رہنمائی کریں گے ۔ چنانچہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا والی مقرر کیا تو ارشاد فرمایا ’’ تم فیصلے کس طرح کرو گے ۔ انہوں نے عرض کیا ’’ کتاب اللہ ‘‘ سے ۔ فرمایا اگر کتاب اللہ میں نہ ملے تو کیا کرو گے۔ عرض کیا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس میں بھی نہ پاؤ تو کیا کروگے ۔ حضرت معاذ بن جبلؓ نے جواب دیا ’’ میں اپنی رائے سے اجتھاد کروں گا‘‘۔ اس سے واضح ہے کہ اجتھاد امت کی ایک مستقل ضرورت ہے کیونکہ قرآنی آیات اور احادیث شریفہ محدود ہیں اور عوام الناس کے مسائل و حالات ان گنت ہیں۔ ایسی صورت میں اجتھاد کی ضرورت درکار ہے ۔ ورنہ شریعت میں تعطل لازم آئے گا۔ اہلسنت والجماعت کے نزدیک مجتھد مطلق کا درجہ چار ائمہ کرام حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ، حضرت امام مالک حضرت امام شافعی  اور حضرت امام احمد بن حنبل علیھم الرحمتہ والرضوان کو حاصل ہے۔ ممکن ہے اور مجتھد مطلق گزرے ہوں لیکن ان کی فقہ ائمہ اربعہ کی طرح مدون و مرتب نہیں ہوپائی۔ اکثر و بیشتر فقہاء مجتھدین ایسے گزرے ہیں جو اصول میں کسی نہ کسی امام کے پابند رہے۔ البتہ فروع و جزائیات میں آزاد۔
اجتھاد ہر کس و ناکس کا کام نہیں بلکہ یہ فقیہ کا عمل ہے ۔ جب کوئی نیا مسئلہ در پیش ہوتا ہے تو فقیہ اپنی رائے سے قرآن و حدیث صحابہ کرام و ائمہ سلف کے اقوال کی روشنی میں اجتھاد کرتا ہے اور یہ اجتھاد خطا سے محفوظ نہیں رہتا۔ غلطی کا امکان برقرار رہتا ہے ۔ البتہ بصورت صواب و درستگی مجتھد دوہرے اجر کا مستحق قرار پاتا ہے  اور بصورت خطا اپنے اجتھاد پر ایک اجر کا حقدار ہوتا ہے ۔ اجتھاد ایک عظیم فن ہے جس کے لئے فقیہ کا قرآن و سنت اقوال صحابہ ، فقہاء کے اقوال کے علاوہ اپنے زمانے کے احوال و ظروف سے واقف ہونا ضروری ہے ۔ کسی مسئلہ کے استنباط و استخراج کے اعلیٰ درجہ کی عقل اور اونچے درجہ کی فہم درکار ہوتی ہے اور یہ عام آدمی توکجا کسی جید عالم کا بھی منصب نہیں۔ (تفصیلات کیلئے دیکھئے رسم المفتی لابن عابدین شرح عقائد نسفی۔ الورقات فی اصول الفقہ للجوینی۔ اعلام الموقعین لابن قیم)

خلع، جوڑے کی رقم ، سامانِ جہیز
سوال :   ہندہ اور ان کے شوہر زید کے درمیان نااتفاقی کی وجہ ہندہ خلع لینا چاہتی ہیں۔ جوڑے کی رقم ، سامان جہیز ، دیگر لین دین ، مہر کی رقم سے متعلق شرعاً کیا حکم ہے ؟
ذاکر خان، نامپلی
جواب :  بوقت عقد ہندہ کو والدین کی طرف سے دیا گیا سامانِ جہیز ، زیورات و ملبوسات نیز دولہے والوںکی طرف سے بطور چڑھاوا دیئے گئے زیورات و ملبوسات اور تحفہ جات بیگم جانی کے حق میں ہبہ ہونے کی بناء ہندہ کی ملک ہیں اسی طرح زید کو لڑکی والوں کی طرف سے دی گئی جوڑے کی رقم اور تحفہ جات زید کے حق میں ہبہ ہونے کی بناء زید کی ملک ہے۔ رشتہ نکاح برقرار رہے یا ٹوٹ جائے ہر دو صورت میں وہی اس کے مالک رہیں گے۔
کسی معاوضہ کے بدل رشتہ نکاح کو منقطع کرنے کا نام خلع ہے۔ بیوی معاوضہ کا پیشکش کرتے ہوئے خلع کی خواہش کرے اور شوہر اس کی خواہش خلع کو قبول کرلے تو بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوکر شوہر سے علحدگی ہوجائے گی اور مقررہ معاوضہ ادا کرنا بیوی پر لازم رہے گا ۔ خلع میں معاوضہ طئے نہ ہو تو مہر خود بخود ساقط ہوجاتا ہے ۔