متبنی لڑکی کی اولاد کا جائیداد میں حصہ کا مطالبہ کرنا

سوال :  مجھے اپنے شوہر سے دولڑکے ، تین لڑکیاں ہیں۔ میرے شوہر نے ہماری شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی ایک عزیز کی لڑکی کو گود لے لیا تھا ، جس کے ماں باپ ایک حادثہ میں فوت ہوگئے تھے ۔ اس لڑکی کی تعلیم و تربیت اور شادی بیاہ میں کسی قسم کی کمی نہیں کی گئی ۔ اب اس لڑکی کی اولاد بھی بڑی ہوچکی ہے ۔ میرے شوہر کا حال ہی میں انتقال ہوا ، لے پالک لڑ کی کی اولاد ان کی جائیداد ، زمینات میں حصہ کا مطالب کر رہی ہے۔ ازروئے شرع کیا لے پالک لڑکی کو میرے شوہر کی جائیداد سے حصہ ملے گا جبکہ میری اولاد موجود ہے ۔ کیا اس کی اولاد کا مطالبہ  شرعاً درست ہے؟
عبداللہ، حیدرآباد
جواب :  لے پالک لڑکی شرعاً وارث نہیں۔ آپ کے مرحوم شوہر نے اس لڑکی کے ساتھ حسن سلوک کیا، تعلیم و تربیت اور شادی بیاہ کا انتظام کیا وہ نیکی کے کام ہیں جو ان کے نامہ اعمال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حسنات کا سبب ہوں گے ۔ تاہم اس حسن سلوک اور عمل خیر کی وجہ متبنی لڑکی آپ کے مرحوم شوہر کی جائیداد میں حصہ پانے کی حقدار نہیں ہوجاتی ۔ لقولہ تعالیٰ ادعوھم لآ بائھم ھو اقسط عنداللہ (سورۃ الاحزاب) لہذا لے پالک لڑکی کی اولاد کا آپ کے شوہر مرحوم کی جائیداد و متروکہ میں حصہ کا مطالبہ شرعاً درست نہیں۔
پس تمام متروکہ مرحوم سے اولاً تجہیز و تکفین کے مصارف وضع کئے جائیں، پھر مرحوم کے ذمہ قرض اور بیوی کا مہر واجب ا لاداد ہو تو ادا کیا جائے ۔ اس کے بعد مرحوم نے کسی غیر وارث کے حق میں وصیت کی ہو تو مابقی مال کے تیسرے حصہ سے اس کی تعمیل کی جائے ۔ بعد ازاں جو باقی رہے اس کے جملہ آٹھ حصے کر کے مرحوم کی بیوی کو ایک ، دونوں لڑکوں کو دو دو، تینوں لڑکیوں سے ہر ایک کو ایک ایک حصہ دیا جائے۔ لے پالک لڑکی اور اس کی اولاد کو متروکہ مرحوم سے وراثتاً کچھ نہیں ملے گا۔

مدرسہ میں یتیم لڑکا فوت، تحفہ جات کی تقسیم کا مسئلہ
سوال :  ایک یتیم لڑکا مدرسہ میں شریک کیا گیا ، جس کی عمر تقریباً سات سال تھی، وہ حفظ شروع کرچکا تھا ، ایک متمول مسلمان فیملی نے اپنے والدین کے ایصال ثواب کیلئے اس کی کفالت کا ذمہ لیا اور ماہانہ کفالت کی رقم پابندی سے مدرسہ کو جمع کیا کرتے تھے اور وقفہ وقفہ سے وہ مدرسہ آکر اس لڑکے سے ملاقات بھی کرتے اور اس کو کپڑے بناتے اور تحفے وغیرہ بھی دیتے۔ حال ہی میں ان کے والد کی برسی کے موقع پر ایک خطیر رقم مدرسہ میں بطور امانت رکھائی گئی کہ جب یہ لڑکا حفظ کر کے اس مدرسہ سے جائیگا تو اس وقت یہ رقم اس کے حوالے کردی جائے۔ تھوڑے عرصہ کے بعد بچے کی طبیعت ناساز ہوئی اور تین چار دن کی مختصر علالت کے بعد وہ لڑکا فوت ہوگیا۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس لڑ کے کے جو تحفہ جات اور جمع کردہ رقم ہے اس کے حقدار کون ہیں؟ کبھی کبھی اس کی ماں ملاقات کیلئے آیا کرتی ہے جو کہ اس کے والد کے انتقال کے بعد دوسری شادی کرچکی ہے اور اس خاتون کی اطلاع کے بموجب اس لڑکے کا کوئی رشتہ دار سوائے اس کی ماں کے کوئی نہیں؟ ازروئے شرع مرحوم یتیم کی رقم اور متعلقہ اشیاء کی تقسیم کیسے ہوگی؟ کیا مدرسہ کیلئے اس رقم کو استعمال کرنے کی گنجائش ہے؟
محمد عبدالسبحان قاسمی
جواب :  حسب صراحت سوال یتیم لڑکے کا ، ماں کے علاوہ کوئی وارث (از قبیل ذوی الفروض و عصبہ) نہ ہو تو اس کی تمام مملوکہ اشیاء بشمول تحفہ جات و جمع کردہ رقم کی بعد ادائی حقوق متقدمہ علی المیراث اس کی حقیقی ماں (بوجہ ’’فرض‘‘ اور ’’رد‘‘) تنھا وارث ہوگی ۔ مدرسہ کے مصارف میں مرحوم بچے کیلئے دی گئی رقم کو صرف نہیں کیا جاسکتا ۔ مدرسہ دراصل بمنزلہ ’’وکیل‘‘ ہے ، اس کی ماں تنہا وارث ہوگی۔ اجنبی سے شادی کرنے کی وجہ وہ وراثت سے محروم نہیں ہوگی۔

فرض عشاء اور واجب وتر کا اعادہ
سوال :  حال ہی میں ہم اپنی محلہ کی مسجد میں عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے، امام صاحب کو سہو ہوگیا ۔ ان کو سجدہ سہو کرنا تھا لیکن انہوںنے سجدہ سھو نہیں کیا اور کہا کہ سجدہ سہو کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد مصلیوں نے سنت اور وتر کی نماز بھی ادا کرلی ۔ پھر کسی عالم سے رابطہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ عشاء کی نماز دہرائی جائے تو ہم سب نے دوبارہ عشاء کی نماز ادا کی اور ہم گھر واپس ہوگئے ۔ اس کے بعد سے ہی ایک سوال کھٹک رہا ہے کہ ہم کو دوبارہ وتر کی نماز ادا کرناچاہئے تھا یا نہیں ؟
نام …
جواب :  وتر کی نماز کا وقت عشاء کی نماز کا وقت ہے۔ تاہم دونوں میں ترتیب کو ملحوظ رکھنا یعنی پہلے عشاء کی فرض نماز پڑھنا پھر وتر کی نماز پڑھنا واجب ہے ۔ البتہ اگر کوئی عشاء پڑھے پھر وتر کی نماز پڑھے ،بعد ازاں ظاہر ہو کہ عشاء کی نماز میں فساد واقع ہوا ہے اور عشاء کی نماز کو دوبارہ ادا کیا جائے تو اس صورت میں وتر کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ عالمگیری جلد اول ص : 51 میں ہے : ولا یقدم الوتر علی العشاء ولو جوب الترتیب لا لان وقت الوتر لم یدخل حتی لوصلی الوتر قبل العشاء ناسیا او صلاھما فظھر فساد العشاء دون الوتر فانہ یصح ویعید العشاء حدھا عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ لان الترتیب یسقط بمثل ھذا العذر۔
پس صورت مسئول عنھا میں وتر کی نماز ادا کرنے کے بعد ظاہر ہوا کہ عشاء کی نماز میں فساد واقع ہوا ہے تو ایسی صورت میں وتر کی نماز صحیح ہوگئی، صرف عشاء کی فرض کا اعادہ کرنا لازم ہوگا کیونکہ اس قسم کے عذر کی صورت میں ترتیب کا وجوب ساقط ہوجاتا ہے۔

فجر کی نماز سے قبل قضاء نماز پڑھنا
سوال :  فجر کی سنت پڑھنے کے بعد میں اقامت کیلئے وقت ہو تو کیا فجر کی فرض نماز سے قبل کوئی قضاء نماز ادا کرسکتے ہیں یا نہیں؟
محمد احتشام، عنبرپیٹ
جواب :  فجر کا وقت شروع ہونے کے بعد فجر کی فرض نماز سے قبل قضا نماز ادا کرنے میں شرعاً کوئی کراہت نہیں ۔ تاہم سنت فجر کے علاوہ نوافل پڑھنا مکروہ ہے۔ عالمگیر جلد اول ص : 53 میں ہے : تسعۃ اوقات یکرہ فیھا النوافل و مافی معنی ھما الا الفرائض… ینجوا فیھا قضاء القائتۃ و صلاۃ الجنازۃ و سجدۃ التلاوۃَ کذا فی فتاوی قاضی خان منھا مابعد طلوع الفحر قبل صلوۃ الفحر کذا فی النھایۃ والکفایۃ یکرہ فیہ التطوع باکثر من سنۃ الفجر۔

عدت وفات اور بیوہ کا نفقہ
سوال :  دو سال قبل ایک لڑکے کا نکاح ہوا، نکاح کے بعد سے ہی میاں بیوی میں اختلافات رہے۔ ان دونوں کوا یک سالہ لڑکا ہے۔ قدرت کی کرنی ایسی ہوئی کہ لڑکے کا اچانک انتقال ہوگیا۔ انتقال کے بعد بھی اس کی جائیداد ، گاڑی وغیرہ کی تقسیم میں کافی اختلافات ہوئے ۔ انتقال ہوئے تین ماہ ہوچکے۔ بیوہ کا ادعاء ہے کہ عدت وفات کا نفقہ اس کے حصہ کے علاوہ اس کو دیا جائے اور تقریباً چالیس ہزار روپئے کا مطالبہ ہے۔ ازروئے فقہ حنفی کیا بیوہ کا نفقہ مرحوم شوہر کے ماں باپ پر لازم ہے ؟ یا نفقہ مرحوم کے متروکہ سے ادا کیا جائے گا ؟
ای میل
جواب :  شوہر کے انتقال کے بعد زوجہ کا نفقہ شوہر کے ماں باپ یا اس کے ورثاء کے ذمہ نہیں ہے اور نہ ہی عدت وفات کا نفقہ شوہر کے متروکہ سے دیا جائے گا بلکہ بیوہ کو چاہئے کہ وہ ختم عدت تک خوراک انتظام اپنی ذات سے کرلے یا اپنے ورثاء ، والد ، بھائی وغیرہ سے لے کیونکہ بیوہ کے نفقہ کا لزوم اس کے اپنے عزیز و اقارب پر ہے ۔ ردالمحتار جلد 2 باب النفقہ میں ہے : (لا ) تجب النفقۃ بانو اعھا المعتدۃ موت مطلقا) ھدا یہ کے باب النفقہ میں ہے : لانفقۃ للمتوفی عنھا زوجھا لان احتباسھا لیس لحق الزوج ۔ عالمگیری جلد اول باب ا لنفقۃ میں ہے : والنفقۃ لکل ذی رحم محرم اذا کان صغیرا۔ فقیر او کانت امرأۃ بالغتہ فقیرۃ… و یجب ذالک علی قدر المیراث و یجبر علیہ کذا فی الھدایۃ ۔

اذان اور اقامت کے دوران وقفہ
سوال :  شرعی لحاظ سے اذان اور اقامت کے دوران کتنا وقفہ ہونا چاہئے۔ عموماً پندرہ منٹ کا وقفہ دیا جاتا ہے ۔ بعض حضرات اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اذان اور اقامت میں آدھے گھنٹہ کا وقفہ دیا جائے ۔ پندرہ منٹ کم ہیں۔ کیا پندرہ منٹ وقفہ دینا غلط ہے جبکہ بچپن سے اس کے مطابق عمل رہا ہے۔ کمیٹی اور پابند مصلی آدھا گھنٹہ وقفہ دینے کے مخالف ہیں۔ شرعی رہنمائی فرمائیں۔
محمد افسر ، ٹولی چوکی
جواب :  اذان اور اقامت کے دوران وقفہ کی مقدار سے متعلق فقہی نصوص میں صراحت ملتی ہے کہ دو رکعت یا چار رکعات جس کی ہر رکعت میں دس آیات تلاوت کی جاسکتی ہوں اتنی مقدار میں وقفہ دینا چاہئے ۔ عالمگیری جلد اول ص : 56-57 میں ہے : و یفصل بین الاذان ولاقامۃ مقدار رکعتین او اربع یفسرأ فی کل رکعۃ نحوا من عشر آیت کذا فی الزھدی۔
پس اذان اور اقامت کے دوران پندرہ منٹ کا وقفہ دینے میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں جس میں نماز پڑھنے والا خشوع و خضوع سے نماز ادا کرسکتا ہے، کسی کو وضو کی ضرورت ہو تو وضو کر کے واپس ہوسکتا ہے ۔ کوئی  ضرورت سے فارغ ہوکر پہنچ سکتا ہے ۔ آدھا گھنٹہ وقفہ دینے میں بھی مضائقہ نہیں۔ تاہم پندرہ منٹ کے وقفہ پر اعتراض مناسب نہیں۔
اقامت کے وقت کھڑے رہنا
سوال :  بسا اوقات جب ہم مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو اقامت کھڑی ہونے والی ہوتی تھی۔ دیکھا جاتا ہے کہ بعض لوگ کھڑے ہی رہتے ہیں اور بعض بیٹھ جاتے ہیں۔ بہتر صورت کیا ہوسکتی ہے ؟
عبدالمنان، تالاب کٹہ
جواب :  کوئی شخص ایسے وقت داخل ہو جبکہ اقامت شروع ہو تو اس کو بیٹھ جانا چاہئے اور جب مؤذن ’’حئی علی الفلاح‘‘ کہے تو وہ کھڑے ہوجائے۔ عالمگیری جلد اول ص : 57 میں ہے ۔ اذا دخل الرجل عند الاقامۃ یکرہ لہ الانتظآر ولکن یقعد ثم یقوم اذا بلغ المؤذن قولہ حی علی الفلاح کذا فی المضمرات۔