مایاوتی کے بعد ملائم کے ووٹ بینک پربی جے پی کی نظر

لکھنؤ۔ 30جولائی (سیاست ڈاٹ کام ) بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی دلت ووٹوں کے بعد پسماندہ خاص طورپر ملائم سنگھ یادو کے کٹر حامی سمجھے جانے والے ‘یادو’ ووٹوں پر نظر ہے ۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی کے صدر امت شاہ نے آج لکھنؤ میں اسی وجہ سے پارٹی کے بوتھ لیبل کے کارکن سونو یادو کے یہاں اپنا دوپہر کا کھانا رکھواکر ایک بڑا پیغام دینے کی کوشش کی ہے ۔ تین دن کے دورہ پر لکھنؤ آئے مسٹر شاہ نے دوسرے دن سونو یادو کے یہاں کھانا کھانے کا فیصلہ کیا ۔ سونو یادو کے یہاں کھانا کھانے کی خوب تشہیر بھی کرائی گئی۔اترپردیش میں یادورائے دہندگان کی تعداد کافی ہے ۔ 44فیصد ی پسماندہ رائے دہندگان میں سے تقریباََ 9فیصد یادو ہیں۔ لودھی ووٹر سات فیصد، جاٹ 1.7فیصد ، کشواہا اور کرمی چار چار فیصد ہیں۔ پسماندہ طبقہ کے رائے دہندگان میں سب سے زیادہ تعداد یادو کی ہے ۔ اس پر کافی دنوں سے بی جے پی کی نظر ہے اور غالباََ اسی لئے 2017کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں پارٹی کے سینئر لیڈر بھوپندر یادو کواہم ذمہ داری سونپی گئی تھی۔کیشوپرساد موریہ کو ریاست کی کمان سونپ کر بی جے پی نے پسماندہ طبقہ کے کشواہا رائے دہندگان کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ سوامی پرساد موریہ کے بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد اس ذات کے ووٹروں نے بی جے پی سے خودکو مزید جوڑا ہے ۔پسماندہ طبقات میں لودھی ذات کے تقریباََ سات فیصدرائے دہندگان ہیں۔ راجستھان میں گورنر اور اترپردیش کے سابق وزیراعلی کلیان سنگھ کی وجہ سے اس ذات کے بیشتر رائے دہندگان بی جے پی کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ مسٹر سنگھ لودھی ذات کے ہیں۔کافی دنوں سے بی جے پی کی نظرملائم سنگھ یادو کے روایتی ووٹ بینک سمجھے جانے والے یادو رائے دہندگان پر تھی۔ سونو یادو کے یہاں کھانا کھاکر مسٹر شاہ نے اس ‘مارشل قوم’کو بی جے پی کی جانب کھینچنے کی کوشش کی ہے ۔ملاائم سنگھ یادو نے اپنی برادری کے کسی لیڈر کو ریاست میں مضبوط نہیں ہونے دیا۔ مترسین یادو، رام سمیر یادو، بلرام یادو کااپنی ذات میں بڑے لیڈروں میں شمار ہوتا تھا لیکن ملائم سنگھ یادو نے آہستہ آہستہ برگد کا درخت بن کر کسی کو پھلنے پھولنے نہیں دیا۔