مایاوتی نے یوگی آدتیہ ناتھ کو جو زخم دیا…

 

فیض محمد اصغر
وزیراعظم نریندر مودی اب ناقابل تسخیر لیڈر نہیں رہے ، ملک میں ان کی مقبولیت کا گراف نیچے آیا ہے ۔ انھیں اب اپنی حیثیت مقام و مرتبہ کا شائد احساس ہونے لگا ہے ورنہ میڈیا کے ذریعہ وہ سارے ملک میں یہ شبیہ بنانے میں مصروف تھے کہ ہندوستان کیلئے مودی ایک نجات دہندہ ہے ۔ مودی ہی ملک کو ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن کرے گا ۔بیروزگاری ، خواتین پر مظالم ، رشوت خوری، بلیک منی غرض ہندوستان سے ہر سماجی و معاشرتی برائی کا خاتمہ نریندر مودی کی قیادت میں ہی ممکن ہے لیکن پچھلے چار برسوں کے دوران مودی حکومت کرپشن کے خاتمہ ، بیرونی ملکوں میں جمع ہندوستانی کے بعنوان افراد کی رقومات واپس لانے ، بلیک منی پر قابو پانے کے علاوہ خاتمہ غربت میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ چار برسوں کے دوران اقلیتوں، خواتین و طالبات اور دلتوں کے خلاف مظالم میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا ۔ ملک میں اس عرصہ کے دوران معقولیت پسندوں ، ادیبوں و شعراء ، صحافیوں و دانشوروں کو فرقہ پرستوں نے نشانہ بناکر ان کے قتل کئے ۔ ایثار صبر وتحمل اور برداشت کی خوبیوں کو خامیوں میں تبدیل کیا گیا۔ صرف ہندوتوا ہندوتوا کے نعرے بلند کئے گئے ۔ حد تو یہ ہے کہ تعلیمی شعبہ کو بھی زعفرانی رنگ میں رنگنے کا آغاز کیا گیا ۔ غرض عوام اب اچھی طرح جان چکے ہیں کہ مودی حکومت ہر محاذ میں ناکام ہوگئی ہے۔ شمال مشرق کی بعض ریاستوں میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد مودی جی کے پاؤں زمین پر ٹک نہیں رہے تھے وہ یہ تک دعوے کرنے لگے تھے کہ تریپورہ جیسی ریاست میں جہاں کئی دہوں سے مانک سرکار کی زیرقیادت کمیونسٹوں کی حکومت تھی بی جے پی کو نظریاتی کامیابی ملی ہے یعنی وہ بالواسطہ یہ کہہ رہے تھے کہ تریپورہ اور شمال مشرق کی دوسری ریاستوں میں نظریہ ہندوتوا کی کامیابی ہوئی لیکن اُترپردیش کے پارلیمانی حلقوں گورکھپور اور پھولپور کے علاوہ بہار کے حلقہ ارایہ کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو خاک چاٹنی پڑی حالانکہ گورکھپور میں مسلسل 19 برسوں سے یوپی کے موجودہ چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کامیاب ہوتے رہے تھے ۔ حلقہ پھولپور پر بھی بی جے پی کا قبضہ تھا وہاں سے اُترپردیش کے موجودہ ڈپٹی چیف منسٹر کیشو پرساد موریہ پارلیمنٹ کیلئے منتخب ہوئے تھے ۔ ان حلقوں سے بی ایس پی کے تائیدی سماج وادی پارٹی امیدواروں پروین کمار نشاد اور ناگیندر پرتاپ سنگھ پاٹل نے کامیابی حاصل کی ۔ بہار کے اراریہ میں لالو پرساد یادو کی آر جے ڈی کے سرفراز عالم نے کامیابی حاصل کرکے ریاست میں بی جے پی ۔ جنتادل یو کو زبردست جھٹکہ دیا ۔ اراریہ میں 41 فیصد مسلم رائے دہندے ہیں اس حلقہ میں آر جے ڈی رکن محمد تسلیم الدین کے انتقال پر انتخابات کروانے پڑے تھے ۔ سرفراز عالم محمد تسلیم الدین مرحوم کے بیٹے ہیں ۔ بعض لوک سبھا حلقوں کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی امیدواروں کی شکست کو لیکر وزیراعظم مودی کافی فکرمند ہیں۔ انھیں یہ فکر لاحق ہوگئی ہے کہ 2019 ء کے انتخابات میں ان کا کیا ہوگا ۔ وہ یہ سوچنے لگے ہیں کہ آیا اگلے انتخابات میں وہ عہدۂ وزارت عظمی پر فائز بھی ہوں گے یا نہیں ۔ ان حالات میں انھوں نے اب اپنی توجہہ ان ریاستوں پر مرکوز کردی ہیں جہاں انتخابات ہونے والے ہیں ۔ ان ریاستوں میں جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک سرفہرست ہے ۔ کرناٹک میں اقتدار پر دوبارہ قابض ہوکر بی جے پی جنوبی ہند میں اپنے قدم جمانے بے چین ہے۔ مودی جی کانگریس سے کرناٹک چھیننے کے خواہاں ہے ۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ 132 سالہ قدیم کانگریس کو ملک کے انتخابی نقشہ سے غائب کردیا جائے ۔ دوسری طرف ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور آثار و قرائن سے بخوبی انداز لگتا ہے کہ جاریہ سال کے اواخر میں وسط مدتی انتخابات ہوسکتے ہیں۔ ماہ مئی میں کرناٹک اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اُن انتخابی نتائج کی بنیاد پر ہی مودی ۔ امیت شاہ کی ٹیم وسط مدتی انتخابات منعقد کرانے کا فیصلہ کرسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ مودی اور ان کی ٹیم ہندوقوم پرستی نعرہ کو بلند کرتے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل کرسکتی ہے ۔

مودی کی زیرقیادت بی جے پی کو اپنی سیاسی بقاء کیلئے کرناٹک جیتنا ضروری ہے جہاں 1985ء سے مختلف جماعتوں کو اقتدار حاصل ہوتا رہا ۔ فی الوقت کرناٹک پر بی جے پی نے ساری توجہہ مرکوز کردی ہے ۔ اس نے ریاست کے 56 ہزار پولنگ بوتھس پر رائے دہندوں کو راغب کرنے 7 لاکھ بی جے پی ورکروں کو متعین کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس نے ریاست میں اپنی تازہ ترین رکنیت سازی مہم کے دوران 75 لاکھ نئے ارکان کی بھرتی کی ہے اور انتخابی مہم میں چیف منسٹر اُترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ جیسے قائدین کی خدمات حاصل کی ہے ۔ اقتدار میں آنے پر بی جے پی نے آئندہ 5 برسوں میں آبپاشی پر ایک کھرب ڈالرس خرچ کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ اس کے دیگر وعدوں میں ریاست میں نظم و ضبط کی صورتحال کو بہتر بنانا کھربوں روپے ۔ بنیادی سہولتوں کے فروغ اور بدعنوانیوں و رشوت خوری سے پاک انتظامیہ فراہم کرنا شامل ہے لیکن مودی جی کے وعدوں کا جو حال ہوا ہے اسے دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ بی جے پی کرناٹک میں یہ وعدے وفا کرے گی ۔ بی جے پی کی تمام کوششوں کے باوجود سیاسی پنڈتوں کے خیال میں فی الوقت کانگریس کو برتری حاصل ہے ۔ وہ ریاست میں اقتدار کی برقراری کیلئے جان توڑ کوشش کررہی ہے کیونکہ وہ اس کی بقاء کا معاملہ ہے اگر ریاست میں سدارامیا کو حکومت بنانے میں کامیابی ملتی ہے تو 2019 ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کا موقف یقینا کمزور ہوگا۔ کانگریس اپنے صدر راہول گاندھی کی قیادت میں کانگریس اقتدار کو برقراری کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہی ہے ۔ جاریہ سال کے اواخر میں مزید جن چار ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں وہ پنجاب کی طرح ان ریاستوں میں بھی کامیابی حاصل کرنے کی خواہاں ہے ۔ دوسری طرف راجیہ سبھا انتخابات میں بی ایس پی امیدوار کو شکست دے کر بی جے پی پھر آپ سے باہر نکل رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اترپردیش میں سیاسی بددیانتی اور موقع پرستی کا بدترین مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے ریاست سے راجیہ سبھا کی دس نشستوں کے لئے انتخابات ہوئے تھے جس میں سے بی جے پی نے 9 اور سماج وادی پارٹی نے ایک نشست حاصل کی۔ حالانکہ بہوجن سماج واپسی پارٹی کے امیدوار بھیم راؤ امبیڈکر کی کامیابی کے امکانات ظاہر کئے جارہے تھے۔ چونکہ گورکھپور اور پھولپور کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی امیدواروں کو لاکھ کوششوں کے باوجود شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ایسے میں یوگی آدتیہ ناتھ ایس پی۔ بی ایس پی اتحاد سے انتقام لینے کے خواہاں تھے جس کے لئے انہوں نے راجیہ سبھا کی نویں نشست کے لئے انیل کمار اگر وال کو جان بوجھ کر مقابلہ میں اتارا اور پھر سماج وادی پارٹی کے ایک رکن اور آزاد رکن راجا بھیا کی تائید حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ یہ تائید سیاسی طور پر بلیک میلنگ کے ذریعہ ہوئی یا کوئی اور سودے بازی کے ذریعہ اس تعلق سے شائد یوگی آدتیہ ناتھ اور دونوں ارکان بہتر طور پر جانتے ہیں بہرحال راجیہ سبھا کی 58 نشستوں کے لئے انتخابات ہوئے جس میں سے بی جے پی نے 28 نشستیں حاصل کرتے ہوئے راجیہ سبھا میں اپنے ارکان کی تعداد میں اضافہ کردیا، لیکن اسے راجیہ سبھا میں ہنوز اکثریت حاصل نہ ہوسکی ورنہ وہ اپنی مرضی و منشا کے مطابق بلز منظور کروانے کے موقف میں آجاتی۔ ان انتخابات میں کانگریس کو 9 نشستیں حاصل ہوئی ہیں جھارکھنڈ میں اگرچہ بی جے پی کو دو نشستیں حاصل ہوسکتی تھی لیکن کانگریس نے اسے وہاں جھٹکہ دے کر ایک نشست اپنے حق میں کرلی۔ واضح رہے کہ راجیہ سبھا میں ارکان کی موجودہ تعداد 245 ہے جس میں 233 منتخبہ ہیں اور 12 کو نامزد کیا گیا ہے۔ بی جے پی نے راجیہ سبھا انتخابات میں مایاوتی کو مایوس تو کیا ہے لیکن بی ایس پی کی اس ناکامی سے مایاوتی بہت کچھ سیکھ چکی ہیں۔ اس شکست کا انتقام وہ مجوزہ عام انتخابات میں ایسے ہی لیں گی جس طرح گورکھپور اور پھولپور میں انہوں نے ایس پی کی امیدواروں کی تائید کرتے ہوئے لیا ہے۔