ماہ شعبان میں زکوٰۃ نکالنا

سوال : ہر سال ماہ رمضان میں زکوٰۃ نکالی جاتی ہے بجائے ماہ رمضان میں زکوٰۃ نکالنے کے ہر سال ماہ شعبان میں زکوٰۃ نکالنے سے زکوٰۃ ادا ہوگی یا نہیں ؟
(2 کسی مستحق کو بغیر بولے کے زکوٰۃ کی رقم دینے سے زکوٰۃ ادا ہوگی یا نہیں ؟
محمد مبین کالا پتھر
جواب : زکوٰۃ کی ادائیگی رمضان میں محدود نہیں بلکہ جب بھی مالِ نصاب پر ایک سال گزر جائے صاحب نصاب پر زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے۔ اگر کسی کے مال پر شعبان میں ایک سال ہوتا ہو تو شعبان میں زکوٰۃ ادا کرنا چاہئے ۔ تاہم ایک سال سے قبل اور ایک سال کے بعد زکوٰۃ ادا کی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ عامتہ المسلمین رمضان میں عبادات کے اجر و ثواب میں غیر معمولی اضافہ کے سبب رمضان میں زکوٰۃ دینا پسند کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص زکوٰۃ کا مستحق ہے تو اس کو زکوٰۃ کی رقم کہے بغیر زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ۔

زکوٰۃ کے معنی
سوال : زکوۃ کے معنی و مراد کیا ہیں ، یہ کب فرض ہوئی ، کیا سابقہ امتوں میں بھی اس کی فرضیت تھی ؟
عبدالقدوس، مراد نگر
جوا ب : زکوۃ : مادہ زک و ، زکا، یزکو ، زکاء ، وزکا ، بمعنی بڑھنا ، پھلنا ، پھولنا ، زکوۃ کے اصل معنی نمو (بڑھنے اور افزونی) کے ہیں۔ علاوہ ازیں لغت میں زکوۃ کے معنی طہارت اور برکات بھی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد شرائط مخصوصہ کے ساتھ کسی مستحق آدمی کوا پنے مال کے ایک معین حصے کا مالک بنادینا ہے ۔ تملیک مال مخصوص لمستحقہ بشرائط مخصو صۃ (الجزیری) ، الراغب کے الفاظ میں وہ حصہ جو مال سے حق الہی کے طور پر (لازماً) نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے۔ زکوۃارکان خمسہ اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے ۔ اسے زکوۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے ۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کسی نہ کسی صورت میں سابقہ امتوں میں بھی رائج تھی ۔ بائیبل میںبھی اس کا ذکر آتا ہے۔ زکوٰۃ کا لفظ عام صدقات (انفاق) کے معنوں میں ابتداء اسلام ہی سے مروج ہوگیا تھا ، لیکن اس کا پورا نظام آہستہ آہستہ فتح مکہ کے بعد قائم ہوا ۔ بہرحال 8 ہجری میں زکوۃ کی فرضیت کی تصریح مل جاتی ہے ۔ محرم 9 ھ میں زکوٰۃ کے تمام قوانین و احکام مکمل ہوکر نافذ ہوگئے تھے۔ زکوٰۃ کے احکام تورات اور انجیل دونوں میں موجود ہیں، لیکن ان کتب سماوی میں مدت کی تعیین میں قطعیت نہ تھی ۔ اسلام نے اس سلسلہ میں مدت کا تعیین کیا اور ایک سال کی مدت مقرر ہوئی۔

یتیموں کی کفالت
سوال : فاطمہ کے ایک بھائی زید فوت ہوچکے ہیں۔ ان کی ایک لڑکی ناظمہ تقریباً تیرہ سالہ کو اور ایک لڑکے محمد عمر تقریباً گیارہ سالہ کو اپنی پرورش میں رکھی اور ان کی تعلیم و تربیت اور ان کے تمام اخراجات و ضروریات کی کفالت کی ۔ ماشاء اللہ اب ان کی عمریں علی الترتیب تریباً 22 ، 20 سال ہے۔ فاطمہ کے شوہر اور فاطمہ نے ان دونوں کی ولدیت میں از ابتداء تا انتہا ان کے حقیقی والد زید ہی لکھوایا ہے۔ ان کے والد کی وفات ہوجانے کے سبب صدر بالا فریضہ ادا کرتے رہے ہیںاور وہ دونوں بھی فاطمہ کے زیر پرورش ہیں۔ شرعاً اس طرح مرحوم بھائی کے بچوں کی پرورش و کفالت اپنے پاس رکھ کر کرنا شرعاً غیر درست یا قانون اسلامی کی رو سے منع ہے ؟ فاطمہ کے شوہر کا نام عبداللہ ہے ؟
محمد اقبال، ٹولی چوکی
جواب : اسلام کمزوروں ، محتاجوں ، بیواؤں اور یتیموں کی مدد و دستگیری کی تلقین کرتا ہے ۔ قرآن پاک و احادیث مبارکہ میں اس کی بڑی ترغیبات وارد ہیں۔
یتیم بچوں کی کفالت اور ان کے تمام اخراجات کی تکمیل خورد و نوش و تعلیم و تربیت کی اہم ترین ذمہ داری کو پورا کرنا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بہت پسندیدہ و محمود ہے۔ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیموں کی کفالت پر بڑی خوشخبری ارشاد فرمائی ہے کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں اس طرح جنت میں (یعنی قریب) رہیں گے جیسے کہ شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی قریب ہوتے ہیں۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں انگلیوں سے درمیان میں کچھ کشادگی کے ساتھ اشارہ فرمایا ۔ انا و کافل الیتیم لہ و لغیرہ فی الجنۃ ھکذا و اشار بالسبابۃ والو سطیٰ و فرج بینھما شیئاً رواہ البخاری (مشکوۃ المصابیح ص : 422 باب الشفقہ والرحمۃ علی الخلق)
البتہ شریعت نے اس بات سے منع کیا ہے کہ کسی اور کی اولاد کو اپنی طرف منسوب کیا جائے اور اس کو اپنی اولاد ہونا ظاہر کیا جائے اور ولدیت کی جگہ اس کے حقیقی والد کے بجائے اپنا نام بتایا جائے۔ ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے : اُدعوھم لاٰباھم ھو اقسط عنداللہ … اے ایمان والو (اپنے منہ بولے لڑکوں کو ان کے (حقیقی) باپ کے نام سے پکارو اللہ سبحانہ کے پاس قرین انصاف یہی بات ہے۔
فاطمہ نے اپنے مرحوم بھائی محمد رحیم الدین کے ایک لڑکا و لڑ کی کی صغر سنی سے پرورش کر کے ان کی تعلیم و تربیت و دیگر ضروریات زندگی کی کفالت کی ہے اور ان کو اپنی طرف اور اپنے شوہر کی طرف منسوب نہیں کیا ہے بلکہ ان کے حقیقی والد مرحوم ہی کی طرف ان کو منسوب کیا ہے تو شرعاً یہ امر منع نہیں بلکہ قابل تحسین و لائق تقلید ہے۔
روزہ کا فدیہ
سوال : میری عمر 70 سال ہے اور میں شوگر کی مریض ہوں۔ میں ہر سال روزہ کا اہتمام کرتی تھی لیکن اس بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے سے قاصر ہوں کیا علالت کی وجہ سے روزہ چھوڑنے کا گناہ ہوگا یا مجھ پر کوئی کفارہ لازم ہے ؟
عائشہ بابو ، نامپلی
جواب : شیخ فانی یعنی وہ معمر حضرات جن کی عمر اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب وہ کمزوری کی وجہ سے روزہ رکھنے کے قابل نہیں رہے اور آئندہ طاقت آنے کی کوئی امید نہیں کہ روزہ رکھ سکیں۔ یا ایسے امراض میں مبتلا لوگ جو روزہ پر قدرت نہیں رکھ سکتے اور نہ آئندہ توقع ہے کہ روزہ رکھ سکیں گے تو ایسے حضرات کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے لیکن ہر روزہ کے بدلہ میں بطور فدیہ ایک صدقہ فطر کی مقدار (سوا کیلو گیہوں یا اس کی قیمت) مسکین کو دینا لازم ہے ۔ ’’ و علی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین ‘‘ (البقرہ 184/2 ) اگر فدیہ دینے کے بعد روزہ رکھنے کی طاقت آجائے تو وہ روزہ کی قضاء کریں۔

نابالغ کا روزہ
سوال : میرا لڑکا دو سال سے مسلسل روزہ رہنے کے لئے اصرار کر رہا ہے ۔ اب وہ دس سال کا ہوچکا ہے ۔میری خو اہش ہے کہ اس سال اس کی روزہ رکھائی کروں لیکن مجھے خیال آتا ہے کہ دس سال کی عمر سے نماز کا حکم سختی سے کرناہے ۔ روزہ کا نہیں۔ جب اس پر روزہ فرض نہیں تو کیا روزہ رہنے سے اس کو ثواب ملے گا، اور ثواب ملتا ہے تو ماں باپ کو بھی ملے گا یا نہیں ؟
ملیحہ فاطمہ، مغل پورہ
جواب : احکام شرعیہ کی فرضیت اور اس کا وجوب مکلف پر ہے اور مکلف شریعت میں مسلمان عاقل و بالغ کو کہا جاتا ہے جیسا کہ رد المحتار ج : 1 ، ص : 245 کتاب الصلوۃ میں ہے ’’ المکلف ھو المسلم البالغ العاقل ولو انثی او عبداً ‘‘ بالغ ہونے سے پہلے انسان مکلف نہیں۔ اس لئے احکام اس پر فرص نہیں، البتہ حدیث شریف میں والدین کو یہ حکم ہے کہ نابالغ بچوں کو نماز اور روزہ رکھنے کیلئے سات برس کی عمر کے بعد زبان سے کہیں اور دس سال کی عمر کے بعد اگر وہ عمل نہ کریں تو ہاتھ سے مار سکتے ہیں اور یہ حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ بچے اسلامی تربیت سے متصف ہوں، اچھے کاموں کے عادی ہوجائیں اور برے کاموں سے بچنے لگیں۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار میں ہے ’’ ھی فرص علی کل مکلف و ان وجب ضرب ابن عشر علیھا بید لا بخشبۃ ’’ لحدیث‘‘ مروا اولادکم بالصلوۃ و ھم أبناء سبع و اضربو ھم علیھا وھم أبناء عشر ، قلت والصوم کالصلوۃ علی الصحیح کما فی صوم القھستانی معزیا للزاھد و فی الحظر الاختیاریۃ یؤمر بالصوم والصلوۃ و ینھی عن شرب الخمر لیألف الخیر و یترک الشر ‘‘۔
نابالغ بچوں کی عبادت کا ثواب انہی کو ملتا ہے۔ البتہ والدین کو تعلیم و تربیت کا اجر دیا جاتا ہے ۔ در مختار مطبوعہ برحاشیہ ردالمحتار ج : 5 ، ص : 536 کتاب الھبۃ میں ہے ۔ ’’حسنات الصبی لہ ، ولأبویہ أجرالتعلیم و نحوہ ‘‘۔

حرمین میں وتر کی نماز
سوال : رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے۔ بہت سے لوگ اس مبارک مہینہ میں عمرہ و زیارت کے حرمین شریفین جاتے ہیں۔ عرض کرنا یہ ہے کہ حرمین میں نماز تراویح کے بعد وتر کی نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے اور امام صاحب دو رکعت پر سلام پھیردیتے ہیں۔ تیسری رکعت ایک اور سلام سے ادا کرتے ہیں۔ کیا حنفی حضرات حرمین شریفین میں وتر کی نماز امام کے پیچھے ادا کرسکتے ہیں یا نہیں ؟
ڈاکٹر مجاہد حسین فاروقی، نیا پل
جواب : احناف کے لئے وتر کی نماز میں شافعی وغیرہ امام کی اقتداء اس وقت جائز ہے جبکہ وہ وتر کی تینوں رکعتیں متصل پڑھیں یعنی دو رکعت کے بعد سلام نہ پھیریں۔ جو امام وتر میں دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے ہیں حنفی حضرات کا ان کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے۔ فتاوی امداد الفتاح المعروف بہ فتاوی شرنبلا لیہ ص : 428 میں ہے ۔ و یشترط لصحۃ الاقتداء بالشافعی و نحوہ فی الوتر وصل رکعاتہ الثلاثۃ فیؤدیہ بتسلیمۃ واحدۃ ، فان سلم علی راس رکعتین منہ لا یصح وھو قول الاکثر۔
چونکہ حرمین شریفین میں وتر کی نماز دو سلام کے ساتھ ادا کی جاتی ہے ۔ لہذا جو حنفی حضرات رمضان شریف میں عمرہ و زیارت کی غرض سے مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ جاتے ہیں ان کو چاہئے کہ وتر کی نماز تنہا ادا کریں۔ امام کی اقتداء نہ کریں۔

آیت الکرسی پڑھنا
سوال : آپ سے سؤال کرنا یہ ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد ’’ آیۃ الکرسی‘‘ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ۔ میرے علم میں ہے کہ سورہ فاتحہ کے بعد کم از کم تین آیات تلاوت کرنی چاہئے۔ بعض کا کہنا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی پڑھ سکتے۔ کیا یہ صحیح ہے ۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں جلد سے جلد آگاہ فرمایئے۔ تاکہ جو کوئی بھی غلطی پر ہے وہ درست کرسکے۔
نکہت تبسم، سکندرآباد
جواب : سورہ فاتحہ کے بعد تین مختصر آیتیں یا ایک طویل آیت پڑھنے کا حکم ہے ۔ آیت الکرسی ایک آیت ضرور ہے مگر طویل ہے۔ اس لئے نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی پڑھ سکتے ہیں۔