ماہِ رمضان کی کچھ باتیں ماہِ رمضان کی کچھ باتیں 

میرا کالم   سید امتیاز الدین عید کو گذرے ہوئے ایک ہفتہ ہو رہا ہے ۔ اب آپ کو عید کی مبارکباد کیا دیں ۔ ہاں بقر عید کی پیشگی مبارکباد دی جاسکتی ہے ۔ دراصل ایک عام مسلمان کی زندگی پر رمضان شریف کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ اس کی روزمرہ کی زندگی کا نظام الاوقات ہی بدل جاتا ہے ۔ بری عادتیں چھوٹ جاتی ہیں ۔ پان ‘ سگریٹ اور چائے کے عادی حضرات دن بھر ان چیزوں کا خیال تک دل میں نہیںلاتے۔ جو لوگ عام دنوں میں نماز پابندی سے نہیں پڑھتے رمضان میں اُن کے سروں سے ٹوپی نہیں اُترتی ۔ جو پابند نماز ہیں اُن کی عبادتیں اوراد و وظائف ‘ نوافل کچھ اور بڑھ جاتے ہیں ۔ خیر خیرات‘ زکوٰۃ کا حساب و کتاب شروع ہو جاتا ہے ۔ مسجدیں آباد ہو جاتی ہیں ۔ اکثر مساجد میں تہجد کا اہتمام ہونے لگتا ہے ۔ جتنے پھل رمضان میں کھائے جاتے ہیں شائد سال بھر میں نہیں کھائے جاتے ۔ ہمارا حال کچھ عجیب ہے ۔ شب معراج سے ہی ہم کو رمضان کا خیال آنے لگتا ہے اور شب برات کے ساتھ تو بس رمضان کی دستک صاف سنائی دینے لگتی ہے ۔ ہم کو ہر سال تھوڑی سی پریشانی ہونے لگتی ہے۔ رمضان کیسا گذرے گا ۔ کیا ہماری صحت شروع سے آخر تک اچھی رہے گی ۔ کیا ہم روزوں کا تحمل کرسکیں گے ۔ ہم رمضان کے متعلق بعض ضروری کام پہلے ہی کرلیتے ہیں جیسے کپڑوں کی خریدی اور سلوائی  ‘ مہینے بھر کا غلّہ ‘ گھر کی صفائی وغیرہ ۔ اکثر لوگ گھروں کو چونا ‘ پینٹ ‘ وغیرہ بھی کرواتے ہیں ۔ یہ کام ہم سے نہیں ہوتا کیونکہ گھر کا سامان ادھر اُدھر کرنے میں جو بے سروسامانی کی کیفیت ہوجاتی ہے وہ ہم سے برادشت نہیں ہوتی ۔ اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا کہ مجاہدین روزے کی حالت میں غزوات میں حصہ لیتے تھے اور غیر معمولی کارنامے انجام دیتے تھے  ۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم سے روزے کی حالت میں کوئی کام نہیں ہوتا ۔ خاص بات یہ ہے کہ ہم کو بھوک پیاس کچھ نہیں لگتی ۔ صرف نیند کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے ۔ سحری کے لئے اٹھنا اور فجر کی نماز کے لئے جانا ایک امتحان معلوم ہوتا ہے ۔ فجر کے بعد ہم کم از کم دو گھنٹے کے لئے سوجانا چاہتے ہیں ۔ ایسے میں اگر کوئی ملنے کے لئے آئے یا ٹیلی فون کرے تو ناگوار گزرتا ہے ۔ ہم اپنے قریبی لوگوں کو اپنی اس عادت سے مطلع کر دیتے ہیں ۔ اس کے باوجود بعض  ناواقف حضرات غریب خانے پر ایسے اوقات میں چلے آتے ہیں۔ رمضان کی ابتدائی تاریخیں تھیں ۔ ایک صاحب صبح چھ بجے آ دھمکے ۔ ہم میٹھی نیند کے مزے لے رہے تھے بلکہ سارا گھر ہی سو رہا تھا ۔ انہوں نے نہایت کڑک دار آواز میں ہمارا نام پکارا ۔ ہم ہڑبڑا کر اُٹھے اور باہر نکلے ۔ انھوں نے جب ہم کو آنکھیں ملتے ہوئے دیکھا تو حیرت سے پوچھا ۔ ارے ! آپ اس وقت سو رہے ہیں یہ تو عبادت کے لئے نہایت قیمتی وقت ہے ! ۔ ہم نے اُن سے کہا ‘ قبلہ عبادت کے اِس قیمتی وقت کو آپ مجھ گنہ گار سے ملنے میں کیوں ضائع کر رہے ہیں ؟ ۔ جھینپ کر بولے ۔ جی دراصل مجھے آج سے چار دن پہلے کا اخبار چاہئے جس میں جوتوں اور چپلوں کی ایک دکان کا اشتہار شائع ہوا ہے جس میں جوتوں ‘ چپلوں کی تصویر کے ساتھ اُن کے ماڈل کا نام اور اُن کی قیمتیں درج ہیں۔ ہم نے کہا بھائی میرے ‘یہاں کل کا اخبار آج نہیں ملتا ۔ آپ کوئی اور گھر ڈھونڈیئے ۔ اِس سال سب سے بڑی پریشانی شدت کی گرمی کی تھی ۔ لیکن اللہ کی مہربانی ایسی ہوئی کہ اِدھر رمضان کا مہینہ شروع ہوا اُدھر رحمت باراں کا دروازہ کھلا ۔ ہماری بڑی پریشانی موسم کی خوشگوار تبدیلی سے دور ہوئی ۔ دوسری اچھی بات یہ ہوئی کہ رمضان کا بہت بڑا حصہ اسکول گرما کی چھٹیوں کی وجہ سے بند رہے جس کی وجہ سے ہم اپنے پوتوں کو اسکول لے جانے لانے کی مشقت سے محفوظ رہے ۔
ہم محسوس کر رہے ہیں کہ ہر سال رمضان میں تبدیلیاں آ رہی ہیں ہم جب بچے تھے تو افطار اور سحری کے وقت توپ داغی جاتی تھی ۔ لوگ کبھی شبہ میں پڑجاتے تھے کہ یہ توپ روزہ کشائی کی توپ ہے یا کسی نے شرارت کے پٹاخہ چھوڑ دیا یا کسی گاڑی کا ٹایر برسٹ ہوا ہے ۔ اب ایک عرصے سے مساجد کے میناروں پر سائرن نصب ہیں ۔ پولیس کی اجازت سے سائرن بجائے جاتے ہیں ۔ بعض بچے سائرن کی نقل بہت اچھی کرلیتے ہیں لیکن کسی نے آج تک تک جرات نہیں کی ۔ حال حال تک بھی ہم ہر رمضان سے پہلے الارم ٹائم پیس کو رمضان  سے پہلے تیل ویل ڈال کر کیل کانٹے سے لیس کرلیتے تھے تاکہ سحری میں اٹھنے میں آسانی رہے ۔ اب یہی کام موبائیل فون بآسانی اور بہتر طریقے پر انجام دے رہا ہے  ۔ موبائیل فون کا الارم آپ کا پیچھا اُس  وقت تک نہیں چھوڑتا جب اچھی طرح  اٹھ کر نہ بیٹھ جائیں اوراسے بند نہ کردیں ۔ جتنی افطار پارٹیاں آج کل ہوتی ہیں اتنی ہمارے بچپن میں نہیں  ہوتی تھیں ۔ (یا کوئی ہمیں بلاتا نہیں تھا) ۔ بعض پارٹیاں سیاسی  نوعیت کی بھی ہوتی ہیں نام تو افطار پارٹی ہوتا ہے لیکن مغرب کی نماز کے بعد پر تکلف عشائیہ بھی ہوتا ہے ۔ خود ہماری مسجد  میں تین افطار پارٹیاں ہوئیں جن کے میزبان ایسے صاحبان خیر تھے جنہوں نے اپنے نام کا اظہار نہیں کیا ۔ آج سے کچھ سال پہلے ایک صاحب نے اپنے چھ سات ملاقاتیوں کو افطار پر مدعو کیا تھا ۔ افطار کے بعد سب لوگ مسجد گئے تاکہ مغرب کی نماز ادا کریں ۔  مسجد سے واپس ہوئے تو دیکھا کہ صاحب موصوف کا گھر مقفل ہے اور وہ خود کسی دعوت میں چلے گئے ہیں ۔ مجبوراً  سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور اپنے گھروں میں کھانا کھایا ۔ رمضان میں فقیروں کے بھی مزے ہوجاتے ہیں ۔ اکثر فقراء نت نئے طریقوں سے امداد کے طالب ہوتے ہیں ۔ دینی مدارس کے سفیر بھی آتے ہیں ۔ اکثر دینی مدارس کافی مستحق ہوتے ہیں اور اُن کے سفیر باقاعدہ  پورے ملک کا دورہ کرتے ہیں اور اُن کے سالانہ رپورٹ کا بڑا حصہ عطیات سے پورا ہوتا ہے ۔ ایسے سفیروں کو بہت مشکلات کا سامنا بھی کرنا پرتا ہے ۔ ایک صاحب میرٹھ کے کسی دینی مدرسہ سے آئے تھے ۔ آنے سے پہلے ہی انھوں نے اپنی جان  پہچان کے کچھ لوگوں کے پاس ٹھیرنے کا انتظام کرلیا تھا۔ اسٹیشن سے اتر کر وہ اپنی جائے قیام پر پہنچے ۔ اُن کو مکان تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی ۔ اس بات سے وہ اتنے خوش ہوئے کہ نہایت تیزی سے آٹو سے اترے اوراپنی جان  پہچان کے لوگوں سے ملنے میں لگ گئے اور آٹو والا اُن کا جملہ سامان لے کر رخصت  ہوگیا ۔ اُن کے پاس بدن کے کپڑوں اور بیس روپیوں کے سواء  کچھ نہیں رہا ۔ اب ان  کے لئے میرٹھ واپس ہوجانے  کے سواء کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا۔ وہ ہماری مسجد میں آئے اور اپنی پریشانی کی داستان سنائی ۔ فی الفور چندے کی اپیل کی گئی ۔ خوش قسمتی سے تیرہ سو روپئے اکٹھے ہوئے اور موصوف اگلے دن جنرل کمپارٹمنٹ میں بیٹھ کر دیلی روانہ ہوئے ۔ رمضان کی خصوصی عبادت نماز تراویح ہوتی ہے ۔ بعض لوگ روزانہ تین پارے کی تراویح  پڑھ کر پہلے ہی عشرے میں فارغ  ہوجانا چاہتے  حالانکہ تراویح پورے مہینے پڑھنا چاہئے ۔ ہم ہندوستانی خوش نصیب ہیں کہ  ہمارا روزہ تیرہ چودہ گھنٹے کا ہوتا ہے ۔ ہمارے ایک خالہ  زاد بھائی لندن میں رہتے ہیں  وہ بتا رہے ہیں کہ اس سال ان کا روزہ  اکیس گھنٹے کا تھا ۔ پتہ نہیں کہ اُن ملکوں میں لوگ افطار کب کرتے  ہیں ۔ مغرب اور عشاء کی نماز کب ادا کرتے ہیں اور سحری کب کرتے ہیں ۔ ایک لحاظ سے اُن کو ایک ہی بار ڈھنگ کا کھانا ملتا ہوگا ۔
بہر حال  یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ اچھی عادتیں دیرپا نہیں ہوتیں ۔ رمضان میں ہم رات کے بارہ  بجے سوتے تھے اورتین  بجے اُٹھ بیٹھے تھے جس رات عید کا چاند نظر آیا اس رات ہم دس بجے سوگئے اور عید کی صبح فجر کی اذان کے ساتھ اُٹھے ۔ آج کل  مساجد میں مصلیوں کی تعداد بھی کم ہوگئی ہے ۔ ہر سال یہی ہوتا ہے ۔ شاید اس میں تعجب  کی کوئی بات نہیں ہے ۔ کہنے کو رمضان میں آدمی بھوک پیاس کے مرحلے سے گزرتا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ افطار اور رات کے کھانے میں دن بھر کی کسر نکال لیتا ہے ۔ رمضان کی خاص ڈش حلیم ہوتی ہے جس کا لطف  اٹھانے میں ہمارے برادران وطن بھی برابر کے شریک ہیں ۔ ہم نے آج سے چند سال پہلے  بیس روپئے میں حلیم  خریدی تھی ۔ آج اسی حلیم کے دام ایک سو بیس روپئے سے دیڑھ سو روپئے ہیں لیکن حلیم کے خریداروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ رمضان صرف  ہجری تقویم کا ایک مہینہ نہیں بلکہ روحانی تربیت کا ایک موقع ہے ۔ انسانی ہمدردی صبر اور تقوی کا امتحان ہے ۔  یہی اس مہینے کا پیام ہے ۔
عید کی خوشی بچوں اور بوڑھوں سب کو یکساں ہوتی ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ عید کی نماز مشکل نہیں ہے ۔ لیکن اُس کا طریقہ ہر سال امام صاحب کو بتلانا پڑتا ہے ۔ بعض احتیاط پسند لوگ نماز ادا کرتے ہوئے اپنے بازو والے پر نظر رکھتے ہیں اور سلوموشن (Slow Motion) سے کام  لیتے ہیں ۔ جو لوگ جلد بازی سے کام لیتے ہیں اکثر غلطی کر جاتے ہیں ۔ جب ہم آج کل کی افطار پارٹیاں دیکھتے ہیں تو اکثر رمضان میں ہم کو حسرت موہانی کا ایک شعر یاد آتا ہے ۔ ایک بار حسرتؔ موہانی رمضان کے مہینے میں جنگ آزادی کے مجاہد کی حیثیت سے انگریزوں کی جیل میں قید تھے ۔ ان دنوں انہوں نے  یہ شعر کہا تھا  ۔قید میں کٹ گیا ماہِ رمضان بھی حسرت گوکہ سامان تھا سحری کا نہ افطاری کا