ماہِ رمضان اور عیدالفطر… کل اور آج

میرا کالم سید امتیاز الدین
آپ کو یہ جان کر خوشی ہو نہ ہو لیکن ہم بڑی مسرت کے ساتھ آپ کو یہ اطلاع دینا چاہتے ہیں کہ ہم نے جیسے تیسے اپنی کالم نگاری کا ایک سال مکمل کرلیاہے ۔ ہم نے پچھلے رمضان میں اس کالم کی ابتداء کی تھی اور اب ہم کو یہ کالم لکھتے ہوئے ایک سال ہوچکا ہے۔ ہمارے پہلے کالم کا عنوان تھا ’’جب ہم نے پہلا روزہ رکھا‘‘۔ اج گو دیر سے سہی ہم اپنے قارئین کو عید کی مبارکباد دینا چاہتے ہیں اور ماہِ صیام اور عید کے تعلق سے ایک اور کالم لکھ رہے ہیں۔ ہم کو روزے رکھتے ہوئے کم و بیش ترسیٹھ (63) سال گزر چکے ہیں۔ رمضان قمری کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے۔ ہمارا حساب کتاب عام طور پر شمسی کیلنڈر سے ہوتا ہے کیونکہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں یہی کیلنڈر رائج ہے ۔ ہر سال قمری کیلنڈر شمسی کیلنڈر سے گیارہ دن پیچھے ہٹ جاتا ہے اور تینتیس (33) سال میں ان دونوں تقویموں میں ایک سال کا فرق آجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی رمضان سردیوں میں آتا ہے ، کبھی گرمیوں میں اور کبھی بارش میں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور ہجری مہینے بھی شمسی حساب سے ہوتے تو رمضان ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتا۔ اگر ہر سال گرمیوں کے رمضان ہوتے تو ہم کو طویل اور سخت روزے پڑتے یا اگر سردیوں کے رمضان ہوتے تو ہر سال کڑاکے کی سردی میں روزے رکھنا پڑتا لیکن یہ بڑا اچھا ہوا کہ اسلامی مہینے ہجری کیلنڈر سے مربوط ہیں جن کا حساب قمری مہینوں کے تابع ہے۔ اس طرح 33 سال میں ایک مسلمان ہر موسم میں روزے رکھ لینے کی سعادت حاصل کرلیتا ہے ۔ اب ہم عمر کی اُس منزل میں ہیں کہ ہم پر روزے رکھتے ہوئے موسموں کے دو دور گزرچکے ہیں۔ اس طویل عرصہ میں ہم نے محسوس کیا ہے کہ رمضان جو ہمارے بچپن میں آتا تھا اور جو آج کے دور میں آتا ہے، اُس میں وقت کے ساتھ کچھ تبدیلیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔

جب ہم بچے تھے تو سحری میں اٹھنے کے دو ہی طریقے تھے۔ ہر گھر میں ایک الارم ٹائم پیس ضرور ہوتی تھی ۔ کبھی ایسا ہوتا کہ الارم بجا لیکن گھر میں کسی کی آنکھ نہیں کھلی ۔ ایسے میں گھر کے بعض لوگ بن سحری کا روزہ رکھ لیتے اور بعض لوگ قضا کردیتے ۔ آج کل موبائیل فون کا زمانہ ہے ۔ اگر موبائیل فون کے پہلے الارم پر آپ بیدار نہ ہوں تو پھر الارم بجتا ہے ۔ اس طرح سحری میں بیدار ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اُن دنوں فقراء بھی آواز لگاتے ہوئے گلیوں میں پھرتے تھے ۔ آج کل فقراء کی تعداد نسبتاً کم ہوگئی ہے۔ ایسے خدمت گزاروں کو فقیر کہنا بھی غلطی ہوگی کیونکہ وہ پیشگی خدمت انجام دیتے ہیں اور ایک مہینے کے انتظار کے بعد عید کے دن دس گیارہ بجے آپ کے گھر آتے ہیں اور وہی نعرہ بلند کرتے ہیں جو سحری کیلئے مناسب تھا، جیسے سحری کرو اٹھو۔
عید کا چاند دیکھنا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا ۔ مطلع ابر آلود ہو تو چاند کی اطلاع کبھی رات دیر گئے ملتی تھی۔ آج کل ٹی وی پر مغرب کے بعد بمشکل آدھے گھنٹے میں اطلاع آجاتی ہے کہ ملک میں کہاں کہاں چاند دکھائی دیا ہے ۔ اس طرح رویت ہلال کمیٹی کا کام بہت آسان ہوگیا ۔ ورنہ ایک زمانہ تھا کہ کسی شاعر نے اپنے محبوب کے فراق میں شعر کہا تھا ۔

مدت سے میرا چاند دکھائی نہیں دیا
اے رویت ہلال کمیٹی کہاں ہے تو
ہمارے بچپن میں دودھ کی ایسی فراوانی نہیں تھی جیسی اب ہے ۔ ان دنوں عید ملنے کے لئے جاتے تو لوگ دو سوال عام طور پر پوچھتے تھے ۔ آپ نے عید کی نماز کہاں پڑھی اور آپ کو شیرخرمہ ہے کیلئے دودھ آسانی سے ملا یا دشواری پیش آئی ۔ آج کل دودھ کیلئے کہیں کوئی قطار دکھائی نہیں دیتی ۔
افطار کیلئے ایک زمانہ میں شہر کے مرکزی حصے سے توپ چھوٹتی تھی ۔ لوگ افطاری جماکر بچوں کو خاموش رہنے کی تلقین کرتے تھے تاکہ توپ کی آواز سنائی دے ۔ اب ہر مسجد میں سائرن بجتے ہیں اور روزہ کھولنا آسان ہوگیا ہے ۔
عید کی تیاریوں کا ایک اہم کردار درزی کا ہوتا تھا ۔ لوگ درزیوں کی منت سماجت کرتے تھے ۔ درزی کبھی عید کی نصف شب یا عین عید کی صبح کپڑے حوالے کرتے تھے ۔ غائب دماغی یہ عالم ہوتا تھا کہ کبھی کرتے یا شرٹ کے کاج نہیں بنے ہیں تو کبھی بٹن نہیں لگے ہیں۔ پھر سلے ہوئے کپڑے اتنے میلے ہوجاتے کہ درزی سے لیکر وہی کپڑے دھوبی کو دینے پڑتے۔ آج کل قدم قدم پر درزیوں کی دکانیں موجود ہیں۔ ریڈی میڈ ملبوسات کی دکانوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ لوگ عید سے ایک رات پہلے بھی کپڑے خرید سکتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست درزی کا ایک واقعہ سناتے تھے ۔ کسی درزی کے پاس بہت سے لوگوں نے اپنے کپڑے دیئے تھے لیکن عید سے دو دن پہلے دکان مقفل پائی گئی ۔ درزی کا کہیں پتہ نہیں تھا ۔ لوگوں نے پریشانی میں پولیس کو اطلاع دی ۔ پنچ نامہ ہوا ۔ دکان کا قفل توڑا گیا۔ دکان خالی پڑی تھی ۔ پولیس نے متاثرہ لوگوں کے بیانات لئے ۔ کسی نے کہا کہ میری قمیص اور پتلون درزی لے گیا ۔ کسی نے شیروانی کی رپورٹ درج کرائی ، کسی نے شکایت کی کہ درزی میرا کرتا پاجامہ لیکر چلا گیا ۔ ا یک خاتون بھی وہاں کھڑی ہوئی تھیں۔ ان کے انسپکٹر نے پوچھا کہ درزی آپ کے کونسے کپڑے لیکر چلا گیا۔ خاتون نے جواب دیا کہ درزی میرا ناپ لے کر چلا گیا ۔

بعض محکموں کے ملازمین بھی انعام لینے کیلئے آجاتے تھے جن میں پوسٹ مین پیش پیش ہوتے تھے ۔ ہمارے محلے کے ڈاکیے ایک دن پہلے ڈاک روک لیتے تھے اور عین عید کے دن ڈاک لاتے تھے تاکہ عید ملاقات بھی ہوجائے اور انعام بھی مل جائے۔

آج کل افطار پارٹیوں کا رواج بہت ہوگیا ہے ۔ ہم نے ایک بار ایک بینک کی افطار پارٹی میں شرکت کی ۔ ویسے تو پارٹی میں داخلہ دعوت ناموں کے ذریعے تھا لیکن بینک کی عمارت کے کئی دروازے تھے ۔ دعوتیوں سے کہیں زیادہ تعداد میں بن بلائے مہمان چلے آئے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم کو گھر آکر اپنی بھوک مٹانی پڑی۔ آج سے چالیس پچاس سال پہلے ایسی افطار پارٹیوں کا کوئی طریقہ نہیں تھا ۔ اب تو ہر بڑا لیڈر بلکہ ہر سیاسی پارٹی اپنی افطار پارٹی کا اہتمام ضرور کرتی ہے۔ سنا ہے کہ پہلے پہل یو پی کے چیف منسٹر آنجہانی ہیم وتی نندن بہوگنا نے اس رسم کی بنیاد ڈالی تھی ۔ جب اے پی جے عبدالکلام ملک کے پریسیڈنٹ بنے تو انہوں نے افطار پارٹی پر آنے والے خرچ کو یتیم اور بے سہارا بچوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کر کے ایک نئی مثال قائم کی تھی۔

ہمارے بچپن میں رمضان کے دنوں میں ہوٹلوں پر پردے ڈال دیئے جاتے تھے تاکہ روزے کا احترام باقی رہے ۔ آج کل ایسا تکلف کوئی نہیں کرتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کے نوجوان زیادہ مذہبی ہوگئے ہیں ۔ ہم ایسے کئی لوگوں سے واقف ہیں جو خود کلین شیون ہیں لیکن ان کے فرزند گھنی داڑھی رکھتے ہیں اور روزے نماز کے زیادہ پابند ہیں۔ مساجد میں نوجوانوں کی تعداد معمر لوگوں سے زیادہ ہے ۔ آج سے پچاس سال پہلے اگر ہم کبھی بھولے بھٹکے مسجد پہنچ جاتے تو بڑے بوڑھے حضرات ہم سے پوچھتے تھے، کیوں میاں ! کیا کوئی بڑا امتحان دیا ہے اس لئے کامیابی کی دعا مانگنے کیلئے مسجد آگئے ہو۔

آج کل رمضان کی پہچان حلیم سے ہونے لگی ہے ۔ لوگ رمضان کی آمد پر رمضان مبارک کی بجائے حلیم مبارک کہنے لگے ہیں۔ ابھی چند سال پہلے تک بھی حلیم کا ڈبہ بیس روپئے تک مل جاتا تھا، آج صورتحال بالکل مختلف ہے ۔ ہمارے گھر سے چند قدم پر حلیم کے تین مراکز ہیں۔ ایک جگہ نوے روپئے ، دوسری جگہ ایک سو بیس روپئے اور ایک جگہ ایک سو تیس روپئے میں سنگل حلیم فروخت ہوتی ہے۔ روزہ دار تو حلیم خرید کر گھر لے جاتے ہیں لیکن جو لوگ روزے کی قید سے آزاد ہیں وہ شام کے چار پانچ بجے سے حلیم کھانے میں لگ جاتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رمضان میں مسلمان عام دنوں سے زیادہ کھاتے ہیں اور پھر بھی روزہ دار کہلاتے ہیں حالانکہ یہ درست نہیں ہے ۔ اکثر لوگ سحری میں برائے نام کچھ کھاتے ہیں۔ اس لحاظ سے عام طور پر صرف رات کا کھانا ذرا تفصیل سے اور اہتمام سے ہوتا ہے۔
آج سے بیس پچیس سال پہلے تک بھی شہر کے سینما گھروں میں عید کے دن نئی فلمیں لگتی تھیں اور اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع ہوتے تھے جن پر لکھا ہوتا تھا ’’عید کا شاندار پروگرام‘‘ بچے بڑے شوق سے فلم دیکھنے جاتے تھے جیسے رمضان انہی فلموں کے انتظار میں کٹا ہے۔ شکر ہے کہ یہ دیوانگی اب کچھ کم ہوگئی ہے۔

رمضان ایک ایسا مہینہ ہے کہ غیر مسلم حضرات بھی اس کا احترام کرتے ہیں۔ مسلم ملازمین کو شام میں دفتر جلد چھوڑنے کی اجازت رہتی ہے ۔ ہم کو اپنی دفتری زندگی کا ایک واقعہ اب تک یاد ہے۔ رمضان کے دن تھے ۔ شام کے چار بجے اچانک ایک دن سکریٹریٹ سے فون آیا کہ وی ایس سمپت صاحب جو آج کل ملک کے چیف الیکشن کمشنر ہیں، ہمارے ڈائرکٹر سے کچھ اہم امور پر تبادلہ خیال کرنا چاہتے ہیں۔ ان دنوں سمپت صاحب پرنسپل سکریٹری محکمۂ برقی تھے ۔ ہمارے ڈائرکٹر نے مجھ سے کہا کہ میں بعض ضروری فائلوں کے ساتھ ان کے ہمراہ چلوں۔ ہم سکریٹریٹ پہنچے تو سمپت صاحب کسی اور کام میں مصروف تھے ۔ ہم کو کچھ دیر انتظار کرنے کو کہا گیا ۔ عین اسی وقت ہمارے ڈائرکٹر کو یاد آیا کہ میں روزے سے ہوں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میٹنگ تو ہوتی رہے گی ۔ تمہارے افطار کا وقت قریب ہے۔ تم فوراً گھر چلے جاؤ۔ آگے میں دیکھ لوں گا ۔ اس وقت ممنونیت کا جو احساس مجھے ہوا میں اسے کبھی بھلا نہیں سکتا۔

ان ساری باتوں کے باوجود بعض باتیں ایسی ہیں جو کبھی نہیں بدلتیں۔ مثال کے طور پر رمضان کے ختم ہوتے ہی مساجد میں نمازیوں کی تعداد اسی فیصد تک گھٹ جاتی ہے ۔ کبھی کبھی تو خود امام صاحب ایک دو دن تک غائب ہوجاتے ہیں اور محلے کے کوئی بزرگ آگے بڑھ کر نماز پڑھا دیتے ہیں۔ (آج کل ہماری مسجد کا یہی حال ہے) اسی طرح لوگ برسوں سے عید کی نماز پڑھ رہے ہیں ، پھر بھی ہر بار امام کو عید کی نماز کا طریقہ بتانا پڑتا ہے ۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک بار ہم خود عید کی نماز کی زائد تکبیرات میں غلطی سے رکوع میں چلے گئے تھے اور ہمارے بازو جو صاحب نماز پڑھ رہے تھے، انہوں نے ہم کو سیدھا کیا تھا اگرچہ کہ اس کار خیر میں خود ان کی نماز ٹوٹ جانے کا احتمال تھا۔
بہرحال رمضان کا مہینہ تو ختم ہوا لیکن ہم سب کو اس بات کی کوشش ضرور کرنی چاہئے کہ ہمدردی اور احکام الٰہی کی پابندی کی جو فضا پیدا ہوئی تھی سال کے باقی مہینوں میں بھی کچھ نہ کچھ باقی رہے۔