مانسون کی طرح تلنگانہ اسمبلی سیشن بھی رفو…

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری               خیراللہ بیگ
تلنگانہ اسمبلی کے مانسون سیشن کو 3 دن قبل ہی غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرتے ہوئے اسپیکر ایس مدھو سدن چاری نے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کو اپوزیشن کی شدید تنقیدوں سے راحت دے دی۔ اصل میں 29 ستمبر سے 10 اکٹوبر مانسون سیشن کو جاری رکھنے کی تجویز تھی لیکن چیف منسٹر نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے اور دیگر اسکیمات کا تذکرہ کرتے ہوئے پسماندہ طبقات کی بہبود پر مختصر اظہار خیال کے بعد اسمبلی کی کارروائی کو ملتوی کروایا۔ سیشن کے 7 کام کے ایام میں 30 گھنٹے اور 6 منٹ تک ہی کارروائی چلی۔ زائداز 19 سوالات کا زبانی جواب دیا گیا اور 70 ضمنی سوالات بھی پوچھے گئے۔ ایوان کے اندر جملہ 26 تقاریر ہوئیں اور پانچ مختصر مباحث ہوئے۔ اس سیشن کے دوران دو بلوں کو بھی منظوری دی گئی۔ تلنگانہ کی سیاست میں ٹی آر ایس حکومت کے مثبت اقدامات کے تذکرے یا اعتراف کا باب تقریباً بند کرتے ہوئے اپوزیشن نے ہر وقت حکمراں پارٹی کو زیرو ثابت کرنے پر تلی دکھائی دی۔ رہی سہی کسر حکمراں پارٹی کے بعض ارکان نے بھی اپنے طرز عمل کے ذریعہ پوری کردی۔ کیوں کہ ٹی آر ایس کے لیڈروں کو خاص کر کابینہ میں عہدے حاصل کرنے کے خواہاں قائدین کو توقع تھی کہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کابینہ میں توسیع یا ردوبدل کریں گے۔

ٹی آر ایس لیجسلیٹیو پارٹی اجلاس میں ایسا کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ پارٹی کے محنت کش سینئر قائدین کو یقین تھا کہ کابینہ میں توسیع ہوگی اور نامزد عہدوں پر تقررات کا اعلان کیا جائے گا۔ چیف منسٹر کو بھی کابینہ میں ردوبدل کی فکر ہے اور اہم عہدوں پر پارٹی کے لیڈروں کو موقع دینا چاہتے ہیں۔ تلنگانہ اضلاع کا دسہرہ کے بعد دورہ کرنے کا منصوبہ رکھنے والے چیف منسٹر کو ضلع سطح پر بھی اہم عہدوں پر تقررات کا اعلان کرنا باقی ہے۔ تلنگانہ اسمبلی میں جہاں ٹی آر ایس کے 65 ، کانگریس کے 20، تلگودیشم 15 ، مجلس 7 ، بی جے پی 5 ، وائی ایس آر کانگریس 3 ، سی پی آئی ایک، سی پی ایم ایک اور آزاد رکن ایک ہے۔ ایک نامزد رکن کے ساتھ یہ اسمبلی عوامی مسائل کی یکسوئی پر بہت کم دھیان دے رہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ تلنگانہ کی سیاست کے شب و روز میں اس سیاسی لالچ کا راج ہے جہاں اس دنیا کے بعد پیدا شدہ گناہ گاروں میں تلنگانہ سیاستداں سے بڑا گنہگار اور تلنگانہ حکومت سے بڑی خطاکارحکومت کوئی نہیں ہے۔ جس ریاست میں مسلمانوں کو انتخابی وعدہ کے ذریعہ بے وقوف بناتے ہوئے ٹی آر ایس سربراہ نے 12 فیصد تحفظات کا خواب دکھایا تھا۔ اب اس پر خاموش ہوگئے ہیں تو ان کی اس خاموشی کو جھنجوڑ کر بیدار کرنے کی مہم ملت اسلامیہ کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ غریبوں کی بیماری پر توجہ دینے کی جس حکومت کو توفیق نہیں ہوتی وہ مسلمانوں کی بنیادی ضرورتوں کو کس طرح پورا کرے گی۔ اسمبلی کے مانسون سیشن کے دوران چیف منسٹر نے ایوان میں یہ بات دہرائی ہے کہ ان کی حکومت مسلمانوں کو 12 فیصد کوٹہ دینے کے لئے ایک قرارداد منظور کرے گی اور اس قرارداد کو مرکز سے رجوع کیا جائے گا۔ مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار میں تحفظات دینے کے لئے اپنے عہد کا اعادہ کرنے والے چیف منسٹر نے اسمبلی کو بتایا کہ مسلمانوں کے سماجی، تعلیمی اور معاشی موقف کو جائزہ لینے والے پیانل کی جانب سے بہت جلد رپورٹ پیش کی جائے گی جس کے بعد ہی حکومت 12 فیصد تحفظات کے لئے قرارداد منظور کرے گی۔ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دیئے جاتے ہیں تو ریاست میں کوٹہ کا مجموعہ فیصد 50 ہوجائے گا اور ریاستی حکومت کو دستوری ترمیم کے لئے مرکز سے درخواست کرنی پڑے گی۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرنے کی غرض سے ہی ایک پیانل تشکیل دیا تھا اب اس پیانل کی رپورٹ کا انتظار ہے۔ یہ نکات عام ہے کہ غیر منقسم آندھراپردیش میں مسلمانوں کے ساتھ آندھرائی حکومتوں نے بُرا سلوک کیا تھا۔ اب تلنگانہ کے حصول کے بعد مسلمانوں کے ساتھ کس حد تک انصاف ہوگا، یہ چیف منسٹر کی دیانتدارانہ کوششوں پر منحصر ہے۔

یہاں حکمراں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھتے ہیں۔ وہ مسائل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال نہیں دیکھتے اور نہ ہی حالات کی بہتری کے لئے بنیادی تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسلم معاشرہ کا حال یہ ہے کہ وہ خود کو ایک بہترین مسلم معاشرہ بننے کی خواہش کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ صالح اور پاکباز زندگی گزارنے کی خواہش، متقی اور پرہیزگار بننے کی خواہش رکھنے والے بھی اس مسلم معاشرہ میں پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ حتی الامکان اپنی زندگی قرآن و سنت کی روشنی میں گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی اسی خواہش کے حصول کے ضمن میں وہ ہر وقت گھر سے مسجد یا دفتر و دکان یا تجارت سے مسجد تک سعی کرتے رہتے ہیں اور ایسے مسلمانوں کو حکومتوں کی مہربانیوں یا تحفظات کی فکر نہیں ہوتی اس لئے حکمراں طبقہ اپنے وعدوں اور دعوؤں کو صرف لہراتے ہوئے حکومت کرنا اور چلتا بنتا ہے۔ جو مسلمان دنیا داری میں مہارت رکھتے ہیں انھیں صرف اپنے اور اپنے عزیز و اقارب کی ترقی کی فکر رہتی ہے۔ سیاسی مسلمانوں کا رویہ مختلف ہوتا ہے وہ پارٹی میں اپنے موقف کو مضبوط بنانے کی فکر میں ہی اپنی عمر گزار دیتے ہیں۔ یہ لوگ نہ خود کو مضبوط کرسکے اور نہ ہی پارٹی میں رہ کر اپنی قوم کو خوشحال بناسکتے۔ برسوں سے پارٹی کی چوکھٹ سے بندھے رہنے کے باوجود کوئی کارنامہ نہیں کیا جس کسی کو بھی سیاسی چوکھٹ سے عہدہ یا کرسی کا صدقہ مل جاتا ہے وہ اس میں اتنا مست ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے بے رحمانہ اقدامات کی فکر ہی نہیں کرتا اور مسلم معاشرہ میں ماباقی مسلمانوں کی دنیا ہی نرالی ہوتی ہے۔ وہ اپنے لیڈر کے ہاتھ پر اس طرح بیعت کرلیتے ہیں کہ گویا ان کی زندگی ان کے لیڈر کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ دلتوں کے قائدین نے اپنے لوگوں کے لئے بہت کچھ کیا ہے اس لئے آج ریاست میں دلت طبقہ تحفظات کے فوائد اٹھارہا ہے۔

تلنگانہ میں او بی سی کے لئے 25 فیصد، پسماندہ طبقات کو 15 فیصد اور پسماندہ قبائیلیوں کو 6 فیصد تحفظات دیئے جارہے ہیں۔ مسلمانوں کو صرف 4 فیصد تحفظات حاصل ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کے لئے آبادی 12 فیصد سے زیادہ ہے تو انھیں 12 فیصد کوٹہ ملنا چاہئے۔ سابق چیف منسٹر راج شیکھر ریڈی نے مسلمانوں کو 5 فیصد تحفظات دیئے تو سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو مسترد کردیا تھا کیوں کہ مسلمانوں کو 5 فیصد تحفظات دینے سے کوٹہ کی 50 فیصد کی گنجائش سے تجاوز ہوجانا ہے۔ اب کے چندرشیکھر راؤ نے 12 فیصد کا وعدہ کیا ہے تو کوٹہ 64 فیصد تک ہوجائے گا۔ کیا یہ اقدام بغیر کسی سیاسی پارٹی قانونی رکاوٹ کے کامیاب ہوگا۔ مسلمان سادہ دل ہیں، یہ صرف اپنے لیڈر کے لئے نعرے لگانا جانتے ہیں۔ کبھی اپنے لئے کچھ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ لیڈروں کے لئے لڑتے ہیں ، اپنے گھر کے اندر خوشحالی لانے کی فکر نہیں کرتے۔ ووٹ دینے اور دلانے میں آگے آگے رہتے ہیں۔ حق حاصل کرنے میں پیچھے ہوجاتے ہیں۔ کسانوں کے مسئلہ پر ریاست گیر بند منانے والی سیاسی پارٹیوں کو مسلمانوں کے مسائل پر بھی متحدہ احتجاج کرنے کی توفیق ہو تو شاید 12 فیصد تحفظات کی راہ ہموار ہوگی۔ مگر چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے 12 فیصد تحفظات کے وعدے تو مرکز کی نریندر مودی حکومت کی دیوار سے ٹنگانے کا اشارہ دے کر امکانات موہم کردیئے ہیں آگے چل اس سے ان کی نیت بھی مودی حکومت کی پالیسیوں کے تابع دکھائی دینے لگے گی۔
kbaig92@gmail.com