ماضی کے جھروکے نظام سابع نے کچھ غلطی کی یا اُن کو غلط باور کیا گیا؟

کیپٹن ایل پانڈو رنگا ریڈی

میر عثمان علی خان کو جدید ہندوستان کی نہایت حیران کُن شخصیتوں میں شمار کیا جاسکتا ہے ، جو ’حیدرآباد‘ کے ساتویں و آخری نظام ثابت ہوئے۔ اُن کی گدی نشینی 1911ء میں ہوئی اور اُسی سال انگریزوں نے اپنے ہندوستانی دارالحکومت کو کلکتہ سے نئی دہلی منتقل کیا۔ برطانوی راج 1947ء میں ختم ہوا اور نظام کی حکمرانی 1948ء میں اختتام پذیر ہوئی۔ دونوں نے اپنی اپنی عملداری کے علاقوں کی ترقی میں بہت حصہ ادا کیا اور اُن کی جدیدکاری کیلئے مستعدی سے کوششیں کئے۔ تاہم، برطانوی راج کی مذمت میں اسے نوآبادیاتی حکمرانی کہتے ہیں اور نظام سابع کو بعض گوشے آمریت پسند اور جاگیردارانہ سسٹم کا قائل قرار دیتے ہیں۔ تاہم، مشہور مورخین کی ہمعصر نگارشات سے بے خبر نہیں رہنا چاہئے۔ وِل ڈیورنٹ نے اپنے ضخیم ادبی شاہکار ’’دی اسٹوری آف سیویلائزیشن‘‘ جلد I میں تحریر کیا کہ حیدرآباد اسٹیٹ بھی میسور کی طرح ترقی پسند مملکت تھی۔ جان لا نے 1914ء میں ایک کتاب بعنوان ‘Modern Hyderabad – Deccan’ شائع کرائی۔ یہ کتاب نظام سابع کی عملداری میں نظم و نسق، صنعتوں، ریلوے، ڈاک اور تار برقی کے ذریعے پیغام رسانی، ٹکسال (mint) اور برقی پیداوار کے تعلق سے خاصی روشنی ڈالتی ہے۔ شہر حیدرآباد کو سپٹمبر 1913ء میں برقی حاصل ہوگئی، جو چینائی سٹی کے مقابل بہت پہلے ہوا۔نوبل انعام یافتہ سَر سی وی رامن کی شخصی درخواست پر نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کیلئے 1 لاکھ روپئے کی فیاضانہ امدادی رقم منظور کی (بحوالہ فرمان مورخہ 25 رجب، 1335، H/17، مئی 1917ئ)۔ اسی طرح مدن موہن مالویہ کی خواہش کا لحاظ کرتے ہوئے نظام سابع نے بنارس ہندو یونیورسٹی کو بھی 1 لاکھ روپئے کی گرانٹ دی۔ اس گرانٹ کا علم ہونے پر سَر محمد علی محمد خان نے ایسی ہی درخواست علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیلئے کی۔ نظام نے 50,000 روپئے عطا کئے۔ سر سید نے گرانٹ میں فرق کی بات نظام سابع کے علم میں لائی۔ فوری جواب ملا کہ ہندو آبادی بہ اعتبار تعداد مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے۔
کچھ پُراسرار معلومات ایسی بھی ہیں کہ نظام نے تلگو زبان کی سرپرستی بھی کی۔ انھوں نے’ای دیشم ایگینا ایندو کلیدینا پوگادارا نی تلّی بھومی بھارتی نی‘ سے شہرت پانے والے رائپرولو سبّا راؤ کو عثمانیہ یونیورسٹی میں تلگو کا پروفیسر مقرر کیا۔ نظام سابع نے پروفیسر سبا راؤ کی درخواست پر نہ صرف تلگو اکیڈمی قائم کی بلکہ سالانہ گرانٹ کے طور پر چار ہزار روپئے کی مالی امداد بھی عطا کی۔ یہ تذکرہ بھی مناسب ہے کہ انقلابی شاعر سری رنگم سرینواس راؤ (المعروف ’سری سری‘) اسی تلگو اکیڈمی کے ملازمین میں سے تھے۔