ماضی کے جھروکے قبائلی بہبود ۔ دورِ نظام

کیپٹن ایل پانڈو رنگا ریڈی
دورِ نظام کی بات ہے کہ ایک قبائلی لیڈر کومارم بھیم نے جو مزاجاً باغی تھا، اُس وقت کے نئے قبائلی قوانین کے خلاف احتجاج کیا اور چاہا کہ نئے قوانین برخاست کردیئے جائیں۔ اس مساعی میں اُس نے حکمرانِ وقت نظام کو حیدرآباد پہنچ کر یادداشت شخصی طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، اُسے نظام سے ملاقات کرنے نہیں دیا گیا۔ افسردگی اور مایوسی کے ساتھ وہ اپنے مقام عادل آباد کو واپس ہوا اور ہتھیار اُٹھا لئے اور پھر ایک جھڑپ میں وہ مارا گیا۔ میر عثمان علی خان کو ان تبدیلیوں سے فوری واقف نہیں کرایا گیا اور جیسے ہی انھیں اس جھڑپ کے تعلق سے جانکاری ہوئی، انھوں نے فوری حرکت میں آتے ہوئے مشہور آسٹریائی ماہر نسلیات کرسٹوفر وان فیورر ہیمنڈارف سے قبائلیوں کے مسائل کا جائزہ لینے کی خواہش کی۔ کرسٹوفر نے ضلع عادل آباد میں قبائلیوں کے ساتھ کئی برس گزارنے کے بعد وسیع مطالعے پر مبنی رپورٹ پیش کی۔ نظام سابع نے خلوص نیت کے ساتھ ان پر عمل آوری کی اور قوانین منظور کرتے ہوئے عام لوگوں کو قبائلی اراضیات خریداری سے منع کردیا۔
مابعد آزادی ہندوستان میں کئی ایجی ٹیشن پیش آئے، اور بارہا پولیس نے احتجاجیوں پر فائرنگ کی اور ان میں سے بعض ہلاک ہوگئے۔ کیا ہم متعلقہ ریاست کے چیف منسٹر پر کوئی ذمہ داری عائد کرتے ہیں؟ اسی طرح، 2000ء میں آندھرا پردیش میں عوام نے برقی شرح میں اضافے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ احتجاجیوں کو پولیس فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا اور تین افراد ہلاک ہوئے۔ کیا ہم اُس وقت کے چیف منسٹر کو موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں؟