ماضی کے جھروکے فراخدل نظام سابع اور آر ٹی سی میں حرف ’Z ‘

 

کیپٹن ایل پانڈو رنگا ریڈی

نظامِ سابع کو یوں تو آمر حکمران سمجھا جاتا تھا لیکن وہ موجودہ دَور کے حکمرانوں سے کہیں زیادہ جمہوریت پسند اور سکیولر تھے۔ نظامس اسٹیٹ ریلوے (N.S.R) کی سرپرستی میں شہر میں مقیم لوگوں کیلئے بسیں متعارف کئے گئے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ میر عثمان علی خان نے چاہا کہ ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ (محکمہ حمل و نقل) کو اپنی والدہ بیگم زہرہ سے موسوم کیا جائے، لیکن انھیں علماء نے اس کے خلاف مشورہ دیا۔ تاہم، مملکت کے زیرانتظام پبلک ٹرانسپورٹ کی تمام گاڑیوں کے رجسٹریشن نمبر میں انگریزی حرف ’Z‘ (زیڈ) کو شامل رکھنے کا رواج قائم کیا گیا جو آج بھی دکھائی دیتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ میر عثمان علی خان اپنی شخصی ضرورتوں کے معاملے کی حد تک کنجوس تھے، لیکن وہ عوام کے تئیں فراخدل رہے۔ بلاشبہ کسی کسی معاملے میں نظام سابع کے بخل پر لوگ ہنستے بھی تھے لیکن یہ ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ نظامس ریلوے میں تھرڈ (III) کلاس کمپارٹمنٹس میں تک برقی پنکھے نصب تھے، جبکہ بقیہ ہندوستان میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ نظام نے اپنی تمام تر عملداری میں بس سرویس کا انتظام کرایا، جو برطانوی ہندوستان میں شروعات سے بہت قبل ہوچکا تھا۔ وہ دَور ایسا رہا کہ کسی تلوار، کسی پھاؤڑے اور کسی بھی مکتب فکر کو کبھی زنگ لگنے ؍ ماند پڑنے نہ دیا گیا۔
بے شک، اس بات سے انکار نہیں کہ نظام سابع موجودہ حکومتوں کے مقابل کہیں زیادہ سکیولر حکمران رہے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ سرکاری خزانہ کی رقم مذہبی اُمور پر خرچ کی جائے۔ تاہم، انھوں نے چاہا کہ حاجت مند مسلمانوں کو مکہ مکرمہ جانے کیلئے کچھ مالی اعانت دی جائے۔ انھوں نے ضرورتمندوں کے اخراجات کی پابجائی کی کوشش کے طور پر اپنے جیب ِ خاص سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دونوں جگہ رباط تعمیر کرائے۔ شروع میں نظام سابع کے سات (7) رباط، 17 دکانات، تین مکانات تھے؛ اور دو رباط اور مکانات کو سابقہ نظام اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والے عازمین کے قیام کیلئے مختص کیا گیا تھا۔ دکانات اور گوداموں سے حاصل ہونے والی آمدنی کو رباطوں کی دیکھ بھال کیلئے مخصوص کیا گیا۔